Column

آخری موقع

تحریر : رفیع صحرائی
پی ڈی ایم حکومت کی 16ماہ کی بری کارکردگی نے عوام کو شعوری اور لاشعوری طور پر بدظن کر دیا تھا۔ اپنے دعووں اور وعدوں کے برعکس عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کے بعد جب یہ لوگ عوام میں گئے تو انہیں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کی انہیں امید تھی۔
شعور، لاشعور اور تحت الشعور انسانی دماغ کے تین افعال ہیں۔ شعور ظاہری اور لاشعور باطنی فعل ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ شعور کی مثال کمپیوٹر کے سی پی یو کی ہے جو معلومات کو پروسیس کرتا ہے لیکن معلومات کو سٹور نہیں کر سکتا یعنی اس میں معلومات کا ذخیرہ وقتی طور پر ہوتا ہے۔ لاشعور معلومات کو پروسیس بھی کرتا ہے اور سٹور بھی کرتا ہے جبکہ تحت الشعور صرف اور صرف معلومات کو سٹور کرتا ہے۔
ہمارے اردگرد جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہمارے حواسِ خمسہ کے ذریعے سے ہمارے شعور میں پہنچ جاتا ہے جو ہمارے کلچر، مذہب ایمان، تربیت اور رہن سہن کے فلٹرز سے چھن کر شعور کی سطح پر اجاگر ہوتا ہے اور شعور اس کا کوئی مطلب اخذ کرتا ہے۔ شعور اور لاشعور کو سمجھنے کے لیے ایک مثال سے مدد لیتے ہیں۔ آپ کسی جگہ پہلی دفعہ جاتے ہیں تو آپ کو راستا کھلی آنکھوں اور پورے ہوش و حواس سے طے کرنا ہوتا ہے لیکن جب آپ اس جگہ متعدد بار جاتے ہیں تو آپ کا شعور سارے پروسیس سے لاپروا ہو کر اسے شعور کے حوالے کر کے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ پھر آپ کا لاشعور آپ کو بتاتا ہے کہ کہاں سے مڑنا ہے، کس جگہ روڈ خراب ہے، کہاں پر رکاوٹیں ہیں وغیرہ۔ ہماری یادداشت شعور سے لاشعور میں محفوظ ہو جاتی ہے اور جب کافی عرصے تک استعمال نہیں ہوتی تو بالآخر تحت الشعور میں چلی جاتی ہےشعور سے کیا گیا فیصلہ ہمیشہ یا مکمل درست نہیں ہوتا کیونکہ شعور کمزور ہے جبکہ لاشعور مضبوط ہوتا ہے۔ لاشعور کو آپ دل کی آواز بھی کہہ سکتے ہیں یا اسے الہام سے بھی تشبیہہ دی جا سکتی ہے کیونکہ لاشعور کا تعلق ہماری ہائر سیلف سے ہے۔ لاشعور کی طاقت کا اندازہ آپ اپنے خوابوں سے لگا سکتے ہیں۔ خواب کتنے تخلیقی ہوتے ہیں آپ جاگتے میں ایسا خواب نہیں بُن سکتے۔ شاعر کو آمد ہونا لاشعوری کوشش ہے، یہی وجہ ہے کہ آورد کے سہارے لکھی گئی شاعری وہ اثر نہیں رکھتی جو اثر آمد کی شاعری رکھتی ہے۔سیاسی لیڈرز شعور اور لاشعور کے ان افعال سے بھر پور آگاہی رکھتے ہیں۔ وہ شعور کو متاثر کرنے کے لیے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور عوام کے مسائل کو سامنے رکھ کر نعرے تشکیل دیتے ہیں۔ اس طرح سے وہ عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں۔ مثلاً 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر عوام میں مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ 2018ء میں عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بد قسمتی سے دونوں ہی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے۔ بھٹو نے 1970ء میں جو نعرہ دیا تھا اس کے بل بوتے پر انہوں نے انتخابات جیت کر حکومت بنا لی مگر عوام سے کیا گیا وعدہ پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے عوامی مقبولیت کھو بیٹھے جس کے نتیجے میں 1976ء کے انتخابات میں انہیں بدترین دھاندلی کرنی پڑی مگر یہ دھاندلی انہیں تختہ دار تک لے جانے کا باعث بن گئی۔ 2018ء میں عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا دعویٰ کر کے مقبولیت تو حاصل کر لی مگر عملی طور پر ناکام ثابت ہونے کے بعد عوامی مقبولیت بری طرح کھو بیٹھے۔ ان کی خوش قسمتی رہی کہ ان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہو گئی اور وہ مظلوم بن گئے مگر حکومت سے ہٹنے کے بعد انہوں نے اپنے مقبول نعروں کو کہیں دفن کر دیا ہے۔ اب وہ عوامی مسائل کی بات ہی نہیں کرتے، چند دن ایبسولوٹلی ناٹ کا نعرہ دے کر توجہ حاصل کرنے کے بعد جب اس نعرے کا پول کھلا تو اسے بھی ترک کر دیا۔ اب فوج کو مطعون کرنے کا سوچا گیا، نیوٹرل کو جانور تک کہہ کر تضحیک کی گئی مگر اس نعرے کے غبارے سے اس وقت ہوا نکل گئی جب پسِ پردہ فوج سے مذاکرات کا راز آشکار ہو گیا۔ حقیقی آزادی کا کچھ عرصہ ڈول ڈالا گیا مگر امریکہ اور فوج کی طرف دوستی کے ہاتھ بڑھا کر اس بیانیہ کو بھی خود ہی تہہ تیغ کر دیا گیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو عمران خان، ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نعرے اور دعوے بدلتے رہتے ہیں۔ وہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر جذباتی نعرے اور بیانیے تشکیل دے کر لوگوں کے شعور کو متاثر کرتے ہیں۔ اور جب دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے لاشعور نے ان کے دعووں کو پروسیس کر کے حقائق تک پہنچنا شروع کر دیا ہے تو وہ نئے نعرے کے ساتھ نیا بیانیہ گھڑ کر سامنے لے آتے اور اس کا پرچار اس شدو مد سے کرتے ہیں کہ پرانا بیانیہ تحت الشعور کی گہرائیوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ یہ عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مخالفین بیانیے گھڑنے میں ان کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔مگر ٹھہریے! نعرہ ان کے مخالفین نے بھی دیا تھا جس پراب یو-ٹرن لے لیا گیا ہے۔عمران خان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد لائے جانے سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے اسلام آبادتک مشہورِ زمانہ مہنگائی مارچ کیا تھا جسے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ تب بھی عوام کے جذبات سے خوب کھیلا گیا تھا بلکہ ان کے جذبات کا استحصال کیا گیا کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت عوام کو ریلیف تو کیا دیتی مہنگائی کو پرانی سطح پر بھی برقرار نہ رکھ سکی۔ عالمی سطح پر مہنگائی میں کمی ہونے کے باوجود پاکستان میں اس کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ سکے۔ پی ڈی ایم والے چاہتے تھے کہ عوام ان کی ناکامی کو تحت الشعور کی آخری گہرائی میں دفن کر دے جبکہ عوام جب بھی بازار میں جا کر خریداری کرتے تو چیزوں کی قیمتیں سن کر ان کا لاشعور پراسیسنگ کا عمل شعور کر دیتا۔ عوام کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ گئی کہ بلاول ہوں یا شہباز شریف، ان کے دعوے محض سیاسی دعوے اور وعدے ہیں جو وقت آنے پر ایفا نہیں ہوتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ الیکشن میں عوام نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو حسبِ دل خواہ کامیابی نہیں دلائی تاہم ان جماعتوں کواتنی کامیابی ضرور مل گئی کہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر حکومت بنا لی۔ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وزیر اعظم جناب شہباز شریف مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ آئی ایم ایف کی زنجیروں میں جکڑی حکومت کو چاہیے کہ اشرافیہ کی مراعات کو فی الفور ختم کر کے تاجروں اور ریل اسٹیٹ کو حقیقی ٹیکس نیٹ میں لا کر مہنگائی سے عوام کی جان چھڑوائے۔ اس مرتبہ بھی بلاول بھٹو اور میاں نواز شریف نے عوام کو مہنگائی ختم کرنے کے دعووں پر اپنی انتخابی مہم چلائی تھی۔ اگر یہ دعوے پورے نہ ہوئے تو یہ دونوں سیاسی پارٹیاں مستقبل کی ق لیگ بن سکتی ہیں۔ ان کے پاس اپنی بقا کا یہ آخری موقع ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button