Column

پتنگ بازی خونی کھیل

تحریر : مظہر کریم ملک
چند روز قبل فیصل آباد میں 22سالہ آصف کی ڈور سے گلہ کاٹنے کے باعث ہلاکت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ،آصف کی عید کے چار روز بعد شادی تھی ، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو نے ہر آنکھ اشکبار کردی ، جس کے بعد نوجوانوں کی بڑی تعداد اس خونی کھیل کو چھوڑنے کا عہد کرتی نظر آرہی ہے۔ اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر سینکڑوں نوجوانوں نے پتنگوں کو جلانے کی نہ صرف ویڈیو وائرل کی بلکہ اس خونی کھیل سے توبہ بھی کی ۔ پتنگ بازی ایک ایسا کھیل ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے، ہاں مختلف ملکوں میں اس کے انداز ضرور مختلف ہوں گے۔ پاکستان میں بھی شاید ہی ایسا کوئی علاقہ ہوگا، جہاں پتنگ نہ اڑائی جاتی ہو۔ ایک وقت میں پاکستان میں تو پتنگ سازی ایک چھوٹی صنعت کی شکل اختیار کر گئی تھی، یہاں تک کہ پاکستان کے گائوں دیہاتوں میں تو پتنگوں کے میچ رکھے جاتے تھے،تاریخِ عالم میں پتنگ اڑانے کا اولین تحریری حوالہ سن 200 قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑائو ڈال رکھا تھا، لیکن وہ براہ راست حملے کا خطرہ مول لینے کے بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سرنگ کتنی لمبی کھودنا پڑے گی، اس لیے اس نے پڑائو کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کی ٹھانی۔ اس نے دیکھا کہ ہوا اس سمت کی ہی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے حملہ آور ہونا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے پڑائو والے علاقے سے اس جانب ہوا کے ساتھ کاغذ اڑتے جاتے ہیں۔ بس یہ دیکھ کر اس نے ایک کاغذ لیا، اور اس میں ایک درخت کے چند تنکے باندھ دیئے تاکہ اسے ہوا کا دبائو حاصل ہو سکے جو اس کے اڑنے میں مدد گار ثابت ہو، اور پھر ایک لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اڑا دیا۔جب وہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے ناپ کر واپس کھینچ لیا، اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا۔ یہی دنیا کی پہلی پتنگ تھی، جو ایک جنگی مقصد حاصل کرنے کے لیے اڑائی گئی تھی۔ چین اور کوریا سے ہوتا ہوا جب پتنگ بازی کا یہ فن جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ جاپان میں ایک سخت قانون نافذ کر دیا گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد، اعٰلی سِول اور فوجی افسران اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی۔روایت کے مطابق برصغیر میں یہ کھیل مغل بادشاہوں کے دور میں پہنچا ۔ پاکستان، جہاں اب لاکھوں افراد کا روزگار ’’گڈی کاغذ‘‘بانس، دھاگے، اور مانجھے سے وابستہ ہے لیکن اب اس کھیل کو بھی کچھ غیر قانونی طریقوں کے استعمال اور ان سے انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے بعد بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے ، صرف دو دہائی پہلے تک بھی پتنگ بازی اور بسنت کو ایک ثقافتی کھیل کا درجہ حاصل تھا۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ماہ فروری کی آمد کے ساتھ ہی بہار کے استقبال اور بسنت منانے کیلئے بطور خاص پتنگ بازی کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ نہ صرف اس کھیل کو ’’غیر شرعی‘‘ قرار دیا جانے لگا بلکہ کئی غیر قانونی طریقوں اور پتنگ اڑانے میں استعمال کی جانے والی غیر قانونی ڈور کے استعمال نے بھی اس مشغلے پر پابندی کی راہ ہموار کی۔2001میں پنجاب میں مکمل طور پر پتنگ بازی پر پابند ی عائد کردی گئی تھی جبکہ 2009میں اسے بنانے ، ڈور بنانے یا وہ تمام عوامل جس سے پتنگ بازی کو فروغ ملے پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ تب سے اب تک اس دوران کافی عرصہ بسنت کی اجازت دینے کا معمہ بنا رہا ، لاہور اس حوالے سے سر فہرست رہا جہاں بسنت ان کے لیے عید سے کم نہ تھی جبکہ دیگر شہریوں میں فیصل آباد ، گوجرانوالہ ، قصور ، راولپنڈی ، سرگودھا ، جھنگ جیسے بڑے شہروں میں بھی منچلے نوجوانوں کا یہ سستا شوق تھا ۔ فیصل آباد میں 22سالہ نوجوان آصف کی ہلاکت کا غم ابھی بھولا نہیں گیا تھا کہ سرگودھا کے علاقے میں ماں باپ اکلوتا بیٹا بھی پتنگ لوٹتے ہوئے کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوگیا جبکہ پتوکی میں بھی 8سالہ بچہ علی رضا پتنگ اڑاتے ہوئے چھت سے گر کر جاں بحق ہوگیا ، پابندی کے باوجود پتنگ بازی سے آئے روز ہلاکتوں نے اس کھیل کو ’’خونی کھیل ‘‘ کی شکل دے دی ۔ جس کی بنیادی وجہ پتنگ باز دوسروں کو نیچا دکھانے اور ان کی پتنگ کاٹنے کیلئے ایسی موٹی دھاتی ڈور کا استعمال کرتے ہیں جسے مختلف کیمیکلز ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ ڈور آسانی سے ٹوٹتی نہیں اور یہی ڈور کسی راہ گیر یا موٹرسائیکل اور کھلی گاڑیوں میں سوار لوگوں کا گلا کاٹنے کا بھی باعث بن جاتی ہے یوں کئی قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اب تک ہوچکا ہے ۔گذشتہ ایک ماہ سے پنجاب پولیس نے پتنگ بازوں کے خلاف سخت ایکشن لیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے نوٹس کے بعد پنجاب پولیس مزید متحرک نظر آرہی ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے سے تمام ڈی پی اوز اس کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں، ڈی پی او قصور طارق عزیز خود چھتوں پر اس کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں اور ڈرون کیمروں کی مدد سے پن پوائنٹ متعلقہ افراد کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ ذرائع کے مطابق یکم جنوری سے 21 مارچ کے درمیان پولیس نے پتنگ فروخت اور اڑانے والوں کے خلاف 7 ہزار979 ایف آئی آر درج کیں، یہ تعداد گزشتہ سال اسی مدت کے دوران درج کی گئی ایف آئی آر سے 74 فیصد زیادہ ہے ۔ پتنگ بازی سے ہونے والی ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے تو پتنگ بازی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو سراہا جانا چاہیے۔ پتنگ بنانے والا ، اس کو فروخت کرنے والا ، جس چھت پر پتنگ اڑائی جائے وہ مالک مکان ، پتنگ اڑانے والا اور اس کے والدین سب کے خلاف اب کارروائی کی جائے گی ۔ حکومت کے علاوہ یہ عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اس کھیل کو روکنے کے لیے اپنے طور پر کوشش کریں ۔ ایسا عمل نہ کیجئے جس سے کوئی حادثہ رونما ہونے کا خدشہ ہو۔ والدین بھی اپنے بچوں پر نظر رکھیں تاکہ آئندہ ایسے کسی جانی نقصان سے بچا جاسکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button