سیاسیات

سابق جرنیلوں کے احتساب کا مطالبہ، خواجہ آصف نواز شریف کے نقشِ قدم پر؟

پاکستان میں عام انتخابات 2024 کے بعد نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف دوسری مرتبہ پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔
جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان زیادہ عرصہ دوستی نہ رہنے کا ایک عام تاثر قائم ہے وہیں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آگے بڑھنے کو فوقیت دیتے ہیں
اپریل 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد شہباز شریف پہلی بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے اچھے تعلقات قائم برقرار رکھے بلکہ وہ اپنی مفاہمت کی پالیسی کے تحت نواز شریف کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
انتخابات 2024 کے نتائج آنے کے بعد نواز شریف نے خود وزیراعظم پاکستان بننے کا فیصلہ ترک کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا اس عہدے کے لیے انتخاب کیا۔
شہباز شریف جو خود اسٹیبلشمنٹ کے لیے ’ہارڈ لائن‘ لینے کے مخالف رہے ہیں انہی کی کابینہ کے سینیئر وزیر سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے احتساب کی باتیں کر رہے ہیں۔
اس وقت کی وفاقی حکومت کے وزیر دفاع خواجہ آصف اس لیے خبروں کی زینت بنے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو پارلیمان میں بلا کر اُن کی جواب طلبی کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران کہا تھا کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو پارلیمنٹ کے سامنے طلب کرنے اور اُن کا احتساب کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے دور میں پانچ ہزار افراد کی افغانستان سے پاکستان منتقلی سے متعلق پالیسی پر سابق فوجی حکام سے سوالات کرنا چاہتے ہیں۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں کی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’سابق جرنیلوں اور عمران خان کے فیصلے کے نتیجے میں دہشت گردوں کی افغانستان سے پاکستان منتقلی ہوئی جس کے نیتجے میں پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘
’جرنیلوں سے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے پر جواب طبی ہونی چاہیے‘
ایک ٹی وی ٹاک شو میں خواجہ آصف نے کہا کہ ’صرف طالبان سے مذاکرات پر نہیں بلکہ ان جرنیلوں سے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور دوسرے معاملات پر بھی جواب طلبی ہونی چاہیے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ (جرنیل) ہوتے کون ہیں یہ سب کچھ کرنے والے‘۔ ٹی وی ٹاک شو کے اینکر نے وزیر دفاع کو کہا کہ ’ایسا نہ ہو کہ پارلیمان میں جرنیلوں کو بلانے پر آپ کو حکومت سے گھر جانا پڑے۔‘
جس پر خواجہ آصف کا جواب کچھ یوں تھا کہ ’ہم پہلے بھی گھر چلے گئے تھے، گھر کا راستہ پتا ہے پھر چلے جائیں گے۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کا ہر الیکشن ساکھ کا بحران پیدا کر دیتا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ثبوت موجود ہیں۔‘
اّن کا کہنا تھا کہ ‘اگر کسی نے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرنی ہیں تو تو پہلے 2013 اور 2018 کے الیکشن سے شروع کریں تا کہ سب کچھ واضح ہو۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ایک اور بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ ’سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پہلے بھی مجھے دھمکی دے چکے ہیں کہ میں پریس کانفرنس کروں گا، جس کے جواب میں کہا تھا کہ آپ کر لیں۔‘
نجی ٹی وی کے پروگرام میں ان کا کہنا تھا کہ ’دو تین سال پہلے ہمیں بریفنگ دی گئی تھی کہ طالبان پاکستان میں واپس آئیں گے تو نئی صبح طلوع ہو گی۔ امن اور بھائی چارہ ہو گا لیکن بریفنگ میں جو دلاسے دیے گئے تھے وہ غلط ثابت ہوئے، اس کا کوئی تو جواب دے، بانی پی ٹی آئی (عمران خان) ہی جواب دے دیں۔‘
خواجہ آصف کے بقول انہوں نے جواب دہی کا مطالبہ کر کے کوئی ’گستاخی‘ نہیں کی۔ ’اگر میری بات کسی کی طبع نازک پر گراں گزری ہے تو میں یہی کہوں گا کہ اسے جانے دیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ سیاسی رہنما سابقہ جرنیلوں کے خلاف ایسے بیانات دے کر مزاحمت کے بیانیے تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں سینیئر تجزیہ نگار ضیغم خان نے بتایا کہ جب سال 2020 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی تو ن لیگ نے بھی اُس فیصلے پر سر تسلیم خم کیا تھا۔
’جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع (ایکسٹینشن) کا وقت آیا تو پارلیمان کی کمیٹی نمبر 2 میں ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر ہی خواجہ آصف نے ساتھی ایم این ایز کو کہا کہ میاں صاحب کا لندن سے ٹیلی فون آیا ہے۔ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینی ہے
ن لیگ کی پارلیمانی کمیٹی نے اس فیصلے پر لبیک کہا سوائے لیگی رہنما نثار احمد چیمہ کے جن کا اعتراض تھا کہ ’تین سال تو جنرل باجوہ کے خلاف بیانیہ بناتے رہے ہیں اب یہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔‘
ضیغم خان نے خواجہ آصف کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’وزیر دفاع خواجہ آصف خود یہ فرما چکے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں انہیں شکست ہو چکی تھی تاہم رات گئے انہوں نے جنرل باجوہ کو کال کی اور نتائج اپنے حق میں کروائے۔‘
خواجہ آصف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کا گہرا خاندانی تعلق بھی ہے۔ ضیغم خان کے مطابق جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف تعیناتی میں بھی خواجہ آصف کا کلیدی کردار رہا تھا۔
’انہوں نے جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے لیے لابنگ کی تھی۔‘
سینیئر تجزیہ نگار ضیغم خان ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ جنرل باجوہ اور خواجہ آصف کے درمیان اس وقت ذاتی رنجش جیسی صورتحال ہے۔ ’ہماری سیاسی اشرافیہ اسٹیبلشمنٹ پر مہربانیاں بھی کرتی ہے اور جواب میں مہربانیوں کی توقع کرتی ہے۔‘
’خواجہ آصف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کے باس ہیں‘
ضیغم خان کے خیال میں خواجہ آصف اگر چاہیں تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو یقیناً بلا سکتے ہیں۔ چونکہ خواجہ آصف اس وقت وزیر دفاع ہیں اس لیے سیکورٹی سروسز کے افسران اور جوان ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ادارے کے ماتحت رہتے ہیں۔
ان کے مطابق ’خواجہ آصف اگر سمجھتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے انہیں دھمکی دی تھی تو جنرل باجوہ پر انکوائری کال کی جا سکتی ہے۔ضیغم خان کے مطابق خواجہ آصف کے پاس آپشن تو بہت ہیں مگر عملی اقدامات کا فقدان ہے۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button