Columnمحمد مبشر انوار

نج کاری کی فنکاری

محمد مبشر انوار( ریاض)
اپنی گزشتہ تحریر کا اختتام اس خواہش پر کیا تھا کہ ارباب اختیار اور سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں کواس امر کا احساس کب ہو گا کہ ہم اپنے قومی اداروں کی نجکاری کرکے،کسی بھی صورت ملک و قوم کی خدمت نہیں کر رہے بلکہ اپنے پاں پر خود کلہاڑی ماررہے ہیں۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی نجکاری سے ریاست پاکستان کو کیا حاصل ہوا،کیا معاہدے کے مطابق پاکستان کو رقم وصول ہوئی یا ہنوز خریدار سے معاملات باقی ہیں اور کیا اس خریدار نے ریاست پاکستا ن کو چکرا کر نہیں رکھ دیا؟کیا اس ادارے کو خریدنے والے نے ،سونے کی اس کان سے بہترین منافع حاصل نہیں کیا اور کیا اس نے اس ادارے کو ،جو خیر پہلے ہی منافع بخش تھا،اس میں سے کتنے لوگوں کا روزگار کم کیاہے؟اس کے باوجود ریاست پاکستان قیمت خرید کے حصول میں تاحال مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکی،یہ اس ادارے کا حال ہے کہ جو انتہائی منافع میں چل رہا تھا،اور مستقبل میں یہاں مزید بہتری اور نفع کے امکانات موجود تھے لیکن فوری طور پر اپنی ضروریات بلکہ اللے تللے پورے کرنے کی خاطر اس ادارے کو اونے پونے بیچ کر گلو خلاصی کروا لی گئی۔آج پھر ہماری گردن پر آئی ایم ایف نے چھری رکھ چھوڑی ہے کہ وہ تمام ادارے جوخسارے کا شکار ہیں اور مسلسل حکومت پر بوجھ ہیں،ان کی نجکاری کرکے ،خزانے پر سے بوجھ ہٹایا جائے تا کہ ایسے سفید ہاتھیوں سے خزانے کی جان چھوٹ سکے۔سوال یہ ہے کہ ایسے بڑے اداروں کی نج کاری کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں کہ جن کو پورا کئے بغیر ایسے اداروں کی نجکاری ممکن نہیں، لہذا یہ تصور کرنا کہ چونکہ حکم حاکم کانزول ہو چکا ہے،اس لئے فوری طور پر اس ادارے کی نجکاری کر دی جائے،ممکن نہیں ہے۔ البتہ یہاں مکرر عرض ہے کہ اگر ریاست چاہے تو ایسے بیمار ادارے کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑ ا کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے جن سخت اقدامات کی ضرورت ہے،حکومت وہ اقدامات کرنے کے لئے تیار ہو گی یا اس بیمار ادارے کو اونے پونے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعہ خریدنے کی کوشش کرے گی، کہ ماضی میں ایسی کئی ایک وارداتیں نجکاری کے نام پر ہو چکی ہیں ،جس میں سے ایک بینک کو کوڑیوں سے بھی کم قیمت پر خریدا گیا ہے۔پی آئی اے پر تو بہت عرصہ سے حکمران خاندانوں کی نظر بد موجود ہے کہ کسی طرح اس ادارے کو اونے پونے خریدا جائے لیکن اس سے پہلے اس کو اتنا لاغر کر دیاجائے کہ اس کی بولی بس برائے نام ہی ہو،اس کے تمام تر خسارے ریاست پاکستان کے کھاتے میں ہی جائیں اور باقی منافع بخش اثاثے خریدار کو ملیں۔اس بیمار ادارے کو خریدنے کے بعد،خریدار اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا،واضح ہے کہ جس طرح ٹیلی کمیونیکیشن میں بلاضرورت بھرتی کئے گئے سیاسی افرادکو بے روزگار کیا جائے گا،ان کے ساتھ گولڈن شیک ہینڈ یا انہیں ملازمت سے فارغ کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ بنایا جائے گا تا کہ ادارے سے غیر ضروری بوجھ کو ختم کیا جا سکے اور اس کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔افسوس اس امر کا ہے کہ حکومتوں میں بیٹھے ہمارے عالی دماغ،اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور ادارے کو مسلسل خسارے میں رکھنے کے لئے ان اقدامات کو اٹھانے سے گریزاں ہیں،تاہم اس خسارے کا بوجھ سرکاری خزانے پر لادکر اسے سفید ہاتھی بنائے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف پی آئی اے کے آپریشنز پر نظر دوڑائوں تو حیرت کا جھٹکا لگتا ہے کہ اس کی ٹیم کو ایسے ایسے اہداف دئیے جاتے ہیں کہ الامان الحفیظ،ایک وقت تھا کہ جب پی آئی اے کا معیار تھا اور لوگ واقعتااس میں سفر کرنا پسند کرتے تھے،میری اپنی حالت یہ رہی کہ جب تک مسلسل سفر درپیش رہا،پہلی ترجیح پی آئی اے ہی رہی،گو کہ سروسز کا معیار بتدریج کم ہو رہا تھا لیکن میری ترجیح پھر بھی پی آئی اے ہی رہی،اس کے باوجود یہ ادارہ خسارے کا شکار ہے۔گو کہ درمیان میں چندایک برس اس نے نفع بھی کمایا مگر وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں سمجھا جا سکتا کہ ایسے ادارے دنیا بھر میں مسلسل منافع بخش رہے ہیں،ماسوائے عالمی وبا کے دور میں وگرنہ بالعموم فضائی ادارے منافع میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔
ایسی ہی صورتحال سٹیل مل کی ہے کہ بہت سی نظریں اس ادارے پر جمی ہیں اور دانستہ اس ادارے کی حالت دگر گوں رکھی جاتی ہے بالخصوص جب ایک سیاسی جماعت ،حکومت میں آتی ہے تو سٹیل مل کی کاکردگی انتہائی گراوٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔دنیا یہی بات کہتی دکھائی دیتی ہے کہ یا تو حکمرانوں کا کاروبار چمک سکتا ہے یا پھر سٹیل مل منافع میں جا سکتی ہے،بیک وقت دونوں معیشتیں پنپ نہیں سکتی،جبکہ سٹیل مل بھی منافع بخش ادارہ رہا ہے لیکن ایسا کوئی بھی ادارہ جو ریاست کو کما کر دے رہا ہو،ریاست کا کمائو پوت ہو،ہم اس کا بھرکس نکالنے میں دیر نہیں کرتے اور حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ دلوانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں،سو کیسے ممکن تھا کہ یہ ادارہ بھی کماؤ پوت رہتا،ہم نے اسے بھی سیاسی بھرتیوں سے لاد کر خسارے کا یونٹ بنا دیا۔حکومتوں کا مطمع نظر بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ہر چیز ٹکے ٹوکری کرکے اس سے ریاست کی جان چھڑوائی جائے تا کہ بیرون ملک بنائی گئی صنعتی جاگیر میں جا کر ہمیشہ کے لئے سکون کے ساتھ رہا جائے،اور جانے سے قبل اس چراگاہ کو بالکل ویران کردیا جائے،اقتدار کا کیڑا اس کے بغیر مرتا دکھائی نہیں دیتا کہ جب تک پاکستان میں دم خم ہے،اسے یونہی لوٹا جاتا رہے گا؟ریاست اپنے فرائض سے بتدریج کنارہ کش ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ شنید ہے اب سرکاری تحویل میں موجود تعلیمی اداروںکی نجکاری کرنے کا عندیہ بھی دیا جا چکا ہے،تا کہ ریاست سوتیلی ماں کی تعریف پر پورا اتر سکے وگرنہ کون سی ماں ایسی ہو گی جو اپنے بچوں کے ساتھ یہ سلوک کرے؟یقینا ریاست بطور ماں کبھی اپنے بچوں پر یہ ظلم نہیں کرتی تاوقتیکہ ماں کو اس کے کپوتوں نے اپنے کپوت پن سے یرغمال نہ بنا لیا ہو،اس کے تمام وسائل لوٹنے کے لئے،ہر طرح کے غیر قانونی کام نہ کئے ہوں،دوسرے بہن بھائیوں کا حق چھیننے کے لئے کسی بھی حد سے نہ گزریں ہوں،اور بدقسمتی سے ریاست پاکستان ( ریاستی ماں) ایسے ہی کپوتوں کے ہاتھ میں یرغمال دکھائی دے رہی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ ایسے تعلیمی اداروں میں نہ صرف یہ کہ بہترین اساتذہ تعینات کئے جائیں،یہاں ایک سکول کے تمام لوازمات فراہم کئے جائیں،یہاں تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ،بدقسمتی سے اس کے برعکس ہور ہا ہے ،حکومت تعلیم کو بھی کاروبار بنانے کا ٹھان چکی ہے،اور جو حال تعلیم کا نجی تعلیمی اداروں میں ہو رہا ہے،سب عیاں ہے۔بہرکیف اس امر پر بھی میرے شدید تحفظات ہیں کہ ان تعلیمی اداروں کو بھی اپنے من پسند و اقربا میں اونے پونے فروخت کر دیا جائے ،اور یہ من پسند افراد،جو پہلے ہی تعلیمی اداروں کا جال رکھتے ہیں،ان تعلیمی اداروں کو اپنے کاروبارکا حصہ بنا تے نظر آئیں گے،اور تعلیم غریب عوام سے مزید دور ہوتی دکھائی دے گی۔
ریاست اگر سپوتوں کے ہاتھ میں ہو،تو یقین کریں کہ اپنے شہریوں کے لئے ہر طرح کی سہولت فراہم کرنے کی ضامن ہوتی ہے،چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ریاستی ذمہ داری تصور ہوتی ہے لیکن یہی ریاست اگر کپوتوں کے ہاتھ چلی جائے تو اس کا حال ریاست پاکستان جیسا دکھائی دیتا ہے۔کامیاب ریاست سب سے پہلے جن امور کو یقینی بناتی ہے،ان میں تعلیم و صحت و انصاف کی فراہمی اس کی اولین ترجیح ہوتی ہے جس کے بعد معاشرے میں کسی بھی ظالم کو یہ جرآت نہیں ہوتی کہ کسی کا حق چھیننے کی کوشش بھی کرے کہ اسے علم ہے اس کا جواب ریاست کس طرح دے گی۔ ادارے اپنی دائرہ اختیار میں رہتی ہوئے ،اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں،کسی بھی ادارے میں سرکشی کی جرآت نہیں ہوتی او رنہ اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جیسے ہی کسی ایک ادارے نے اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کی،تو اس کا انجام اسے واضح دکھائی دیتا ہے۔خیر یہ بحث تو اب لاحاصل سی دکھائی دیتی ہے کہ اگر ان امور کا خیال رکھا جاتا تو پاکستا ن کو موجودہ حالات کا سامناہی نہ ہوتا۔اب تو صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف مسلسل دبائو بڑھا رہا ہے اور پاکستان کی مشکیں کس چکا ہے،اس کی شرائط مانے بغیر کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا لیکن کوئی یہ سمجھائے کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے بعد ملک میں دودھ او رشہد کی نہریں کیسے بہیں گی؟حالات اگر ایسے ہی رہتے ہیں اور نجکاری بھی ذاتی مفادات کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے یا ٹیلی کمیونیکیشن کی مانند کی جاتی ہے تو نجکاری کے بعد نہ صرف یہ کہ ملک میں بے روزگاری کا ایک نیا طوفان آئے گا بلکہ مہنگائی بھی تمام تر حدیں توڑتی دکھائی دے گی،غریب ،غریب ترین اور امیر ،امیرترین ہوتا دکھائی دے گا،جبکہ متوسط طبقہ پس جائے گا۔گزارش یہی ہے کہ ان اداروں کی نجکاری سے قبل اگر ریاست ازخود وہ تمام اقدامات اٹھا لے،جو نجکاری کے بعد ان اداروں میںاٹھائے جائیں گے،تو ممکن ہے یہ ادارے بہتر کارکردگی دکھا سکیں یا منافع بخش بن کر ریاستی خزانے کے لئے سودمند ہو سکیں،گو کہ ہماری سننے والا کوئی نہیں کہ وہاں فیصلوں کا معیار کچھ اور ہے۔بصورت دیگر نجکاری کرتے وقت اس امر کا خیال رکھ لیں کہ اس نجکاری کو شفاف ہی بنا لیں تا کہ ریاست پاکستان کا کچھ تو بھلا ہو سکے،نجکاری کرتے ہوئے اپنی فطرتی فنکاریوں سے گریز ہی کر لیں!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button