ColumnImtiaz Ahmad Shad

جہاں تک ممکن ہو خیرات کرو

امتیاز احمد شاد
صدقات و خیرات اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا نام ہے اور ان اعمال کی بڑی فضیلت ہے۔ قرآن حکیم میں صدقات و خیرات کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے اور جہاں بھی زکوٰۃ صدقات اور خیرات کی آیات آئی ہیں وہاں اسلامی عقائد اور عبادات کا ذکر پہلے ہوا ہے۔ جس سے لازمی نتیجہ یہی اخذ ہوسکتا ہے کہ مسلمان کو پہلے اپنے عقائد مضبوط کرنا چاہئیں پھر اس کے بعد عبادات کو اپنے اوپر لازم کرنا چاہیے، تاکہ اس کا کردار پاکیزہ ہوجائے اور پھر صدقات و خیرات کرنے سے اس کی زندگی میں مزید نکھار آجائے۔ اسلام کردار سازی کو پہلے اہمیت دیتا ہے اور نیکی کا درس بعد میں۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ’’ اصل نیکی اسی میں نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کرلو یا مغرب کی طرف بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور قیامت کے دن پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں پر، اور تمام پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں مال دیں اپنے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور غریبوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو ( فقرائ) اور گردن چھڑانے میں ( قیدی اور غلام کو آزاد کرانا)۔ ( سورۃ بقرہ)۔ ان آیات مبارکہ میں بھی پہلے عقائد پر جمے رہنے کا ذکر ہے اور پھر زکوٰۃ و صدقات کا۔ اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی اور جتنا بھی خرچ کیا جائے اسے خوش دلی کے ساتھ خرچ کرنا چاہیے، کسی جبر یا دبائوکے نتیجے میں نہیں بس اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے فراخ دلی سے خرچ کیا جانا چاہیے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’ ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لائے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے ہر کام دیکھ رہا ہے‘‘۔ ( البقرہ)۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا چونکہ جنت کا مستحق ہوتا ہے یعنی جنت میں اس کا کوئی مکان یا محل تعمیر ہوتا ہے۔ ہم جتنا مال تھوڑا تھوڑا یا یک دم اللہ کی راہ میں دیں گے اس کی مثال ایک خام مال کی سی ہے، دنیاوی لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم جتنا سیمنٹ اور سریا، بجری یا اور کوئی تعمیری لوازمہ بھیجیں گے مکان یا محل اسی طرح تعمیر ہوتا رہے گا، جو ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے اور وہ روز محشر ہماری ملکیت میں دیا جائے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اس کو کئی گناہ زیادہ دے گا اور اللہ ہی روزی تنگ کرتا اور کشادہ کرتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جائو گے‘‘۔ ( سورۃ البقرہ) ۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کو قرض سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ جیسی قرض کی ادائیگی اور واپسی اس دنیا میں لازمی ہوتی ہے اسی طرح آخرت میں اس قرض کا اجر و ثواب یا بدلہ ضرور ملتا ہے، اس لیے اسے قرض حسنہ سے تعبیر کیا ہے۔ان لوگوں کے اس وسوسے کا ذکر بھی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال گھٹتا ہے اور یوں وہ اپنی دولت کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔
کتب احادیث میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر بیشتر احادیث آئی ہیں، کہیں اس کی ترغیب دلائی گئی ہے تو کہیں اس کی اہمیت اور فضائل بیان ہوئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو مجھے اس بات سے مسرت ہوتی کہ میں اس کو تین دن ختم ہونے سے پہلے ہی ختم کردوں اور صرف اتنا روک لوں کہ جتنا مجھے ادائے قرض کے لیے درکار ہو‘‘۔ ( بخاری)۔ حضرت اسمائؓ فرماتی ہیں کہ آنحضورؐ نے فرمایا: ’’ بے حساب خرچ کرو ( اللہ کی راہ میں) اللہ تمہیں بے حساب دے گا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز مت کرو ورنہ اللہ تم پر ( مال و دولت) روک دے گا، جہاں تک ممکن ہو خیرات کرو‘‘۔
حضرت سلمان بن عامر ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’ مسکین پر صدقہ کرنا ایک اجر ہے اور رشتے دار کو صدقہ دینا دہرے اجر کا سبب بنتا ہے، ایک صدقے کا ثواب اور دوسرا صلہ رحمی کا‘‘۔ ( مسند احمد۔ ترمذی۔ دارمی۔ نسائی۔ ابن ماجہ)۔ وہ لوگ جو صدقہ و خیرات کو اہمیت نہیں دیتے یا بخل کرتے ہیں اور اگر دیتے ہیں تو پھر احسان جتاتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے وعید آئی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐنے فرمایا: ’’ جنت میں مکّار، بخیل اور احسان جتلانے والے داخل نہیں ہوں گے۔ ( ترمذی۔ مشکوٰۃ)۔
کہا جاتا ہے کہ بے شک مومن قیامت تک اپنے صدقے کے سایہ میں ہو گا۔ مسلمان ہونے کے ناتے یہ نہ صرف ہمارا ایمان ہے بلکہ عام مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، اپنی نیت صاف رکھتے ہیں اور دکھاوا نہیں کرتے تب اللہ تعالیٰ اس نیکی کو کئی گنا بڑھا کر ہمیں لوٹا دیتے ہیں۔ ہم انسانوں کی اوقات کچھ نہیں نہ ہی ہمارے بس میں کچھ ہے۔ ہم پر ساری عنایات اس رب کی ہیں جو اس جہان کا مالک ہے۔ یہ اسی ذات کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں دینے والوں میں سے بنایا ہے لہذٰا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عطا کردہ رزق سے غریبوں، مسکینوں ،لاچار و مجبور، ضرورت مندوں ،یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کریں۔ ان کی ضروریات کا اس طرح خیال کریں جس طرح اللہ سبحان و تعالیٰ ہماری ضروریات کا خیال اور ہمارے گناہوں کا پردہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی قدم بہ قدم رہنمائی کے لئے قرآن پاک اتارا اور اس میں کئی بار صدقہ و خیرات کی فضیلت و اہمیت واضح الفاظ میں بیان کی ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے فوائد دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں بیان کیے ہیں۔ اسلام انتہائی سادہ ،آسان، عام الفہم اور کسی بھی طرح کے جبر سے پاک مذہب ہے جو ہمیں کسی مشکل میں نہیں ڈالتا۔ چھوٹی اور معمولی نیکیوں کا اتنا اجر رکھا گیا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس کے رب نے اس کے لئے کس قدر آسانیاں رکھی ہیں۔ لوٹنے کی کوئی شرط نہیں رکھی جب مرضی جہاں مرضی سے واپس لوٹ آو۔ وہ ذات ہماری منتظر رہتی ہے اور فوراً گلے لگا لیتی ہے اور تمام گناہ بخش دیتی ہے وہ عظیم و کریم ذات بشرط یہ کہ دل اور نیت صاف ہو۔ بس ہماری نیت اور سوچ صاف ہونی چاہیے اور کسی کی مدد احسان جتا کر یا دکھاوا کر کے نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ حکم تو یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو علم بھی نہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button