CM RizwanColumn

بجلی کا صارف ہونا سنگین جرم؟

سی ایم رضوان
ہمارے نئے نویلے وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے تازہ نوید دی ہے کہ کیش بیلنس بہتر ہے، حکومت تمام قرض بروقت ادا کرے گی جبکہ ان ادائیگیوں سے پاکستانی کرنسی پر دبائو نہیں پڑے گا۔ بلوم برگ رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان رواں سال 300ملین ڈالرز کے پانڈا بانڈز جاری کرے گا۔ یہ بانڈز چینی مارکیٹ میں جاری کیے جائیں گے۔ یہ بھی کہا کہ ابتدائی طور پر 250سے 300ملین ڈالر کے بانڈز جاری کیے جائیں گے بعد میں ان پانڈا بانڈز کا حجم بڑھایا جائے گا۔ دیگر معاشی جھلکیاں یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پاکستانی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ وزارت خزانہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری شروع کر دی ہے۔ ایک دیگر معاشی جھلکی یہ ہے کہ وزیر خزانہ کو امید ہے کہ روپے کی قدر مستحکم رہے گی اور اگلے مالی سال میں ترقی کی شرح بہتر رہے گی۔ یہ بھی کہ پاکستان کم از کم تین سال کے لئے آئی ایم ایف پروگرام لے گا یعنی شاید تین سال بعد نئی انتظامیہ شرطیہ نئے پرنٹوں کے ساتھ نئی فلم پیش کرے گی۔ ان سب اچھی خبروں کے باوجود گزشتہ روز یعنی جمعہ کو سٹاک ایکس چینج میں کاروبار کا منفی رجحان رہا۔ 100 انڈیکس 265 پوائنٹس گر گیا۔ حالانکہ پچھلے سولہ مہینوں کی نگران حکومت میں تو اچھی خبروں کے ساتھ ہنڈرڈ انڈیکس اوپر چلا جاتا تھا۔ یہ کیا ہو گیا کہ منتخب دور میں ہنڈرڈ انڈیکس کی چال بھی الٹی ہو گئی۔ بہرحال ایک اور بری خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پٹرول پر لیوی 60 روپے اور جی ایس ٹی 18 فیصد بحال کرنے کی تجویز یا حکم دیا ہے جبکہ سب سے بری خبر یہ ہے کہ بجلی صارفین کو 967 ارب روپے کا مزید جھٹکا دینے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے اس ضمن میں نیپرا کو درخواستیں موصول ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے نیپرا عوام پر ترس تو نہیں کھائے گا کیونکہ یہ تو یہاں کے اختیارات والوں کی روایت ہی نہیں کہ عام پاکستانی کے حقوق کے حوالے سے کچھ نرمی کا برتائو کریں۔ یعنی یہ طے ہو گیا کہ گرمی کے موسم میں ایک عام صارف جو صرف ایک عدد پنکھا چلانے کا ہی گناہ گار ہو گا وہ اپنی استطاعت سے کئی گنا زیادہ بل بجلی ادا کرنے کا سزاوار ہو گا۔
گو کہ موجودہ اور نو منتخب مرکزی، پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے انتخابی نعروں اور سرمست منشوروں میں بجلی کے بلوں میں عام صارف کو رعایت دینے اور تین سو یونٹوں تک کے غریب صارفین کو خصوصی رعایت دینے کے وعدے کئے تھے مگر حکومتوں میں آنے کے بعد ان کی تقریروں، بیانات اور پریس کانفرنسوں میں سے بجلی کے بلوں اور تین سو یونٹوں کا ذکر یوں غائب ہو گیا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ دوسری جانب بجلی کے بلوں میں آئے دن کے اضافوں سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب بجلی کے گھریلو صارفین کو ہر ماہ یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ مہینہ بھر کے لئے راشن خریدیں یا پھر مہینے بھر کے لئے فاقے برداشت کر کے بجلی کا بل ادا کریں اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کوئی صارف ایک یا دو ماہ کا بل جمع نہ کروا سکے تو اس کا بجلی کی کمپنیوں کی جانب سے وہ حشر کیا جاتا ہے کہ صارف اس امر پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بچوں کو روٹی بیشک نہ کھلائو لیکن بجلی کے بل ضرور جمع کروائو۔ اسی طرح تاجروں اور صنعتکاروں کو بھی یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ ایک یا ایک سے زائد صنعتی یونٹس میں سے کتنے ملازمین کو نوکری سے نکال کر اخراجات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے جبکہ حکومت اور ارباب اختیار کا حال یہ ہے کہ ہر ماہ ایک عدد یا دو عدد ایسے نوٹیفیکیشن جاری کر دیئے جائیں کہ بجلی کے فی یونٹ ریٹ میں اتنے روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے جس کا اطلاق گزرے ہوئے دو یا تین ماہ سے ہو گا۔ یعنی مہینے میں ایک دو مرتبہ صارفین بجلی پر ایسی بجلیاں گرائیں جائیں جن کے لئے وہ تیار بھی نہ ہوں اور تاب بھی نہ رکھتے ہوں۔ دور کیا جانا ہے قارئین میں سے کوئی بھی اپنے ڈومیسٹک بجلی کے بل میں درج یہ نوٹ پڑھ سکتا ہے کہ بجلی کے بل میں ایندھن کی قیمت کا فرق (FPA) دو ماہ بعد شامل کیا جاتا ہے۔ ( مزید یہ کہ) آپ کے اس بل میں فلاں گزرے ہوئے مہینے کے صرف شدہ یونٹس کے ایندھن کی قیمت بھی شامل کر دی گئی ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ یہ قیمت صارف کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی اور پہنچ سے بھی باہر ہوتی ہے یعنی کہ بجلی کے ہر صارف کو اس ملک پاکستان میں پیدا ہونے یا رہنے کی وہ سزا دی جا رہی ہے جو وہ سہ بھی نہیں سکتا۔ راقم لیسکو کا صارف ہے جس کے بل میں قیمت بجلی، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، ایف سی سرچارج، ٹی آر سرچارج شامل ہیں جو بجلی کی قیمت کے 15 فیصد سے زائد ہیں۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ کے محصولات ہیں، جن میں ای ڈی، ٹیلی ویعن فیس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ، ای ڈی اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں، یہ محصولات بجلی کی قیمت کے کم و بیش 33 فیصد ہیں۔ اس کے علاوہ بل میں تصحیح بل تقریباً 8 فیصد لازمی ہوتا ہے۔ بجلی کی قیمت کے علاوہ دیگر محصولات بل کا تقریباً 56 فیصد ہوتے ہیں۔ اب اگر بجلی کی قیمت میں اس بھاری شرح سے دیگر محصولات بھی شامل کر دیئے جائیں گے تو وہاں سفید پوش طبقہ کیا کرے گا اور بجلی کے بلوں کے ذریعے اس قدر بیجا لوٹ مار ہو گی تو وہاں صنعت اور تجارت برباد نہ ہوگی تو کیا خاک ہو گا۔
پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں بجلی فی یونٹ 18 روپے، بھارت میں 14 روپے جبکہ پاکستان میں یہ پچھلے دو سال سے پچاس روپے سے زائد ہے اور اب تک یہ قیمت ادا کر کر کے غریب کنگال اور اوسط درجے کے لوگ بدحال ہو چکے ہیں۔ اس سب کے باوجود چند ایک بااختیار طبقات کو مفت بجلی یونٹس دینے کا سلسلہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد ظلم ہے۔ ہر ماہ کروڑوں کے حساب سے بجلی کے یونٹس سول و ملٹری بیوروکریسی، ججز، وزراء اور دیگر ارباب اختیارات میں بانٹے جاتے ہیں جبکہ حالات کا مارا ہوا ایک عام پاکستانی، ایک دیہاڑی دار مزدور، تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک عام چھوٹا اہلکار ہر حال میں نہ صرف ان مفت بانٹے گئے یونٹوں بلکہ مختلف مافیاز کی جانب سے چوری شدہ بجلی کی قیمت بھی اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح ایک عام صارف بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو مفت دیئے گئی بجلی یونٹس کی قیمت بھی ادا کرنے پر مجبور ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آٹا اور کپڑا تیار کرنے والی ملوں کے ملازمین کو آٹا اور کپڑا مفت دیا جاتا ہے۔ کیا کاٹن انڈسٹری کے ملازمین کو کاٹن مفت دی جاتی ہے؟ کیا سیمنٹ اور سٹیل فیکٹریوں کے ملازمین کو سیمنٹ اور سٹیل مفت دیا جاتا ہے؟ ان سوالات کا جواب اگر نفی میں ہے تو پھر بجلی کے ایک عام صارف کا کیا قصور ہے کہ وہ بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو الاٹ کئے گئے مفت یونٹس کی قیمت خود ادا کر کے ناکردہ گناہوں کی ایک بھاری سزا بھگتنے پر مجبور ہے اور ظلم یہ بھی کہ وہ کسی ماہ اگر بالفرض اس سزا کو نہ بھگت سکے تو اس کے گھر پر اندھیرے مسلط کر دیئے جائیں۔ بجلی صارفین کے اوپر ان مظالم کو دیکھ کر تو ذہن میں یہی سوال اٹھتا ہے کہ پاکستانی ہونا ایک جرم ہے اور بجلی کا صارف ہونا اس سے بھی بڑا سنگین جرم ہے۔ اگر یہ جرم نہیں تو سرکاری اداروں اور شخصیات کو مفت بجلی کی فراہمی فوری طور پر ختم کی جائے۔ بیشک ان کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا جائے مگر یہ مفت کی بجلی کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ بجلی کے بل میں سوائے بجلی کی قیمت کے کوئی بھی ٹیکس شامل نہ کیا جائے اور موجودہ عائد کردہ ٹیکسوں کو فوری ختم کیا جائے۔ بجلی یونٹس کی قیمت کرنٹ بل میں ہی وصول کی جائے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اگلے مہینوں میں پچھلے مہینوں کا ظلم پھر سے نہ کیا جائے۔ میٹر ریڈنگ والی ایپ کو بل کے ساتھ ڈائریکٹ کنیکٹ کیا جائے تاکہ جس وقت اور تاریخ کی ریڈنگ کی تصویر ہو وہی بل پر بھی نظر آئے۔ جان بوجھ کر لیٹ کرنے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ ایک دو یونٹ اوپر کر کے بل بڑھانے کا سلسلہ ختم ہو سکے اور یہ مظالم ختم نہیں کئے جاتے تو ہر بل پر یہ نوٹ بھی لکھ کر بھیجا جائے کہ پاکستان میں بجلی کا صارف ہونا ایک سنگین جرم ہے جس کی سزا کا تعین بجلی کی کمپنیاں خود کرتی ہیں اور ان کو کوئی مائی کا لال پوچھنے یا روکنے کا حق نہیں رکھتا۔ آپس کی بات ہے کہ حکومتی ریکارڈ اور ہمارے عوامی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے اگر کل کلاں ہمارے بجلی کے بلوں پر یہ نوٹ لکھا ہوا آ بھی گیا تو کسی کو کچھ اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ یہاں تو یہ کہاوت بھی عام سنی جاتی ہے کہ ٹیکس جتنا مرضی لگا لو لیکن ساتھ میں جوتے مارنے والے بندے بھی بڑھا دو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button