Column

یوم ِ پاکستان اور پُرامن پاکستان

سید اظہار مہدی بخاری

23مارچ قرار داد ِ پاکستان کا دن ہے یعنی یہ پاکستان کا دن ہے۔ جس دن پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہم گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے ہر سال یہ دن مناتے ہیں۔ اب تو قومی پریڈ ہی اسی دن سے وابستہ ہو چکی ہے۔ خوشی کے اظہار کے لیے پریڈ کرنا بجا۔ سرکاری غیر سرکاری میڈیا پر مختلف پروگرام نشر کرنا اور کرانا بجا۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اس حوالے سے تقاریب منعقد کرنا بجا۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے لوگوں کو ایوارڈ دینا بجا۔ عوام کی آگاہی کے لیے تشہیری مہم چلانا بجا۔ قومی شخصیات کے تعارف اور خراج عقیدت کے لیے محافل سجانا بجا۔ عسکری شہداء کا تذکرہ کرنا بجا۔ اسلام آباد میں غیر ملکی سفراء سفارتکاروں اور عالمی میڈیا کے نمائندگان کے سامنے اپنی عسکری قوت کا اظہار کرنا بجا۔ عام تعطیل کرکے عام لوگوں کو پکنک منانی کے مواقع مہیا کرنا بجا۔ مزار قائد و مزار اقبال پر گارڈ ز کی تبدیلی اور گارڈ آف آنر دینا بجا۔ مختلف صوبوں کے ثقافتی ٹریلر سجا کر یکجہتی کا پیغام دینے کی کوشش کرنا بجا۔
لیکن کیا اتنا کچھ کر دینا کافی ہے؟ کیا یہ سب یوم ِ پاکستان کے حقیقی تقاضے پورے کر دیتا ہے؟ کیا یہ سب قرارداد ِ پاکستان کی روح کے عین مطابق ہے؟ کیا یہ سب کرنے سے پاکستان کے وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو جاتے ہیں جو مصور پاکستان اور بانی پاکستان نے دیکھے تھے؟ کیا اس سب کچھ سے پاکستانیوں کی حالت زار پر کوئی اثر مرتب ہو تا ہے؟ کیا ہم ہر سال 23مارچ کے دن عوام کے لیے کوئی نوید یا خوش خبری دے پاتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس یوم پاکستان کے موقع پر عوام کی حالت بدلنے کے لیے کوئی پیغام یا پروگرام ہوتا ہے؟ کیا ہم ہر سال یوم پاکستان کے موقع پر مظلوم و محروم عوام کے لیے کوئی معاشی پیکیج دے پاتے ہیں؟ کیا ہم پاکستان کے دن پاکستانیوں کو یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ آج کے دن اور کچھ نہیں تو وہ کم از کم امن کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے؟ یقینا ایسا کچھ نہیں ہے۔
اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو غور کرنا ہماری ذمہ داری نہیں بنتی؟ اس مرتبہ اس دن کے موقع پر ہم صرف پاکستان میں امن اور ہم آہنگی کی صورت حال پر غور کر لیتے ہیں جو شاید سارے مسائل کی اساس ہے۔ یا ہماری دانست میں سارے معاملات کی کلید ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے بالخصوص اور چار دہائیوں سے بالعموم یوم ِ پاکستان سے کچھ دن یا کچھ عرصہ قبل پاکستان میں امن و امان کا پردہ چاک کرنے کے لیے ایک دو تین چار واقعات ہو جاتے ہیں یا کرا دئیے جاتے ہیں۔ کبھی مذاہب کے درمیان کشیدگی اختیار کر دی جاتی ہے اور بستیوں کی بستیاں راکھ کردی جاتی ہیں۔ کبھی اسلامی مسالک کے درمیان تصادم کروا کے گلیاں اور سرزمین خون سے رنگین کردی جاتی ہے۔ کبھی امن و امان کے ذمہ دار اداروں یعنی پولیس، رینجرز، ایف سی، لیویز اور پاک فوج کے جوانوں اور قیام گاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح جب یوم پاکستان آتا ہے تو پاکستانی ایک خوف کے ماحول میں ہوتے ہیں۔
دہشت گرد کارروائیاں تو اپنی جگہ ہیں جس کی توضیح اور توجیہہ ہم مختلف زاویوں سے کر سکتے ہیں۔ اسے بیرونی سازش بھی کہا جاتا ہے۔ اسے پراکسی وار کے ساتھ بھی جوڑا جا تا ہے۔ اسے عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے عالمی حالات کے تناظر میں بھی لیا جاتا ہے۔ اسے بعض اوقات ہمسایہ ممالک کی مداخلت کا سبب بھی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا جب اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہری امن و امان کو تہہ و بالا کر رہے ہوتے ہیں تب بھی یہی وجوہات ہوتی ہے؟ جب اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والے اقلیتی مذاہب کے پیروکاروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ جب اکثریتی مسلک کے حامل اقلیتی مسلک کے پیروکاروں کا خون جائز سمجھ کر بہاتے ہیں۔ جب امن کے لیے آواز اٹھانے والوں کو اذیت ناکیوں سے گزارا جاتا ہے۔ جب رواداری کی بات کرنے والوں کو اغیار کا آلہ کار کہا جاتا ہے۔ جب برداشت کا سبق دینے والے کو خارج از دین کہا جاتا ہے۔ جب مختلف مذاہب اور مختلف مکاتب کے شہریوں کو برابر حقوق دینے کا مطالبہ کرنے والوں کو پاکستان دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ جب وطن کے ارتقاء کے لیے مناسب اصلاحات کا مشورہ دینے والوں کو دین اور آئین کا باغی کہا جا تا ہے۔ جب نہتے شہریوں، سکول کے معصوم ، عبادت خانے کے عابدوں اور بچوں کا پیٹ پالنے والے مزدوروں کو خود کش حملہ آور موت کے گھاٹ سُلا دیتا ہے۔ تب ہمیں یوم ِ پاکستان منانے والے حضرات بھی نظر نہیں آتے اور جذبات بھی نظر نہیں آتے۔
کاش ہم یوم ِ پاکستان منانے سے پہلے پاکستان پر بھی تھوڑی سی نظر ڈال لیں۔ درج بالا مسائل کی طرف دیکھ لیں جو سارے کے سارے امن کے قیام سے مربوط ہیں۔ کیا یوم پاکستان کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ملک میں بسنے والے ہر شہری کو بلا تفریق تحفظ فراہم کریں؟ کیا یوم پاکستان کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اکثریتی مذہب کے لوگوں کی طرف اقلیتی مذہب کے لوگوں تک پہنچنے والی نفرت کم کریں؟ کیا یوم ِ پاکستان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ہر شہری کو اجازت دیں کہ وہ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دوسرے شہری سے اختلاف کا اظہار کر سکے؟ کیا یوم پاکستان کا یہ مطلب نہیں ہے بطور شہری کسی مسلمان کو کسی مسیحی یا ہندو یا سکھ وغیرہ پر فوقیت حاصل نہیں۔؟ کیا یوم پاکستان کا یہ مطلب نہیں کہ کسی سُنی کو کسی شیعہ پر یا کسی بریلوی کو کسی دیو بندی پر یا کسی اہل حدیث کو کسی جماعت اسلامی پر برتری حاصل نہیں؟ کیا یوم پاکستان کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے عقائد و نظریات کا احترام کریں اور انہیں اتنا ہی مقام دیں جتنا اپنے عقائد و نظریات کو دیتے ہیں؟
یہ بات مسلّم اور اظہر من الشمس ہے کہ یوم پاکستان تب ہی اپنی حقیقی افادیت حاصل کر پائے گا جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ’’ پرامن پاکستان‘‘ کے طور پر اُبھرے گا۔ مگر یوم ِ پاکستان سے پُرامن پاکستان کا سفر کون کرے گا؟ اس سفر میں بہت ساری اصلی قربانیاں دینا پڑیں گی مصنوعی نہیں۔ اس سفر میں اپنی منفی اور خود ساختہ انا قربان کرنا پڑے گی۔ اس سفر میں شہریوں کو برابر حقوق دینا پڑیں گے۔ اس سفر میں اقلیتوں کا احترام کرنا پڑے گا۔ اس سفر میں رواداری کا سبق یاد کرنا پڑے گا۔ اس سفر میں تحمل سے رہنمائی لینا پڑے گی۔ اس سفر میں برداشت کا دامن تھامنا پڑے گا۔ اس سفر میں مسلکی تفریق ختم کرنا پڑے گی۔ اس سفر میں احتساب کا آئینہ مسلسل سامنے رکھنا پڑے گا۔ اس سفر میں انتہا پسندی کو دفن کرکے چلنا پڑے گا۔ اس سفر میں شدت پسندی کو خدا حافظ کہنا پڑے گا۔ اس سفر میں دہشت گردی کو ترک کرنا پڑے گا۔ اس سفر میں رائے کا احترام پلّے باندھنا پڑے گا۔ اس سفر میں اختلاف رائے، اختلاف نظر، اختلاف عقیدہ اور اختلاف مذہب و مسلک کو پس پشت ڈالنا پڑے گا۔ اس سفر میں منفی رویوں، منفی سوچوں، منفی کردار اور منفی اعمال سے توبہ کرنا پڑے گی۔ اس سفر میں اپنے تمام ہم سفروں کی جان و مال کو محترم سمجھنا پڑے گا۔ اس سفر میں سیاست نہیں بلکہ ریاست کو ترجیح میں رکھنا ہوگا۔ اس سفر میں تنوع جیسی روشن حقیقت کو بطور قانون ماننا ہوگا۔ اس سفر میں صنفی امتیازات کے سارے فارمولے ترک کرنا پڑیں گے۔ اس سفر میں صبر اور حوصلے کی باگ تھامنا پڑے گی۔ اس سفر میں علم و بصیرت اور شعور و آگہی کو ہم رکاب کرنا پڑے گا۔ اس سفر میں شدت نہیں بلکہ جدت سے استفادہ کرنا پڑے گا۔ اس سفر میں کج فکری یا کم فکری کو نہیں بلکہ روشن فکری کو ہم سفر بنانا پڑے گا۔ اس سفر میں اختلاف او ر رخنے پر نہیں بلکہ اتفاق اور اتحاد پر گامزن ہونا پڑے گا۔ اس سفر میں ذات پر نہیں بلکہ نظام پر یقین رکھنا پڑے گا۔ اس سفر میں انتقام نہیں بلکہ قربانی کا فلسفہ مدنظر رکھنا پڑے گا۔ اس سفر میں عدل، انصاف، مساوات، محبت، اخوت، برابری اور اخلاقیات کو بنیادیں بنانا ہوگا۔
یوم ِ پاکستان کے موقع پر آئیے اس حسین سفر کا آغاز کریں۔ پاکستان کو پُرامن پاکستان کی طرف منتقل کرنے کے لیے اپنا ذاتی اور اجتماعی کردار ادا کریں۔ پاکستان کو دنیا کی پُرامن ترین سرزمین بنائیں۔ جہاں سے پوری دنیا کے لوگ امن کی خوشبو اور امن کا درس ہی نہ لیں بلکہ امن کے فارمولے حاصل کریں۔ یاد رکھیں امن ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو ہم بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button