Columnمحمد مبشر انوار

نج کاری کی فنکاری

محمد مبشر انوار (ریاض)
قارئین کرام کبھی کبھار ماضی کی تحاریر دیکھتا ہوں تو دکھ ہوتا ہے کہ آج اتنے برس گزر جانے کے باوجود ہم اسی جگہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں کہ جہاں دہائیاں پہلے ہم کھڑے، ایک ہی نوحہ سنا رہے تھے۔ زیر نظر تحریر اگست 2002ء کی ہے جب پاکستان ٹیلی کمیونیکشن ادارے کی نجکاری زیر بحث تھی، اس وقت راقم کے احساسات بعنوان ’’ نجکاری یا پائوں پر کلہاڑی‘‘ شائع ہوئے تھے، جو من و عن آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
پاکستان میں 70ء کی دہائی میں بھٹو سے شروع ہو نے والا سوشلزم اس کے دور کے ساتھ ہی ختم ہو چکا اور دنیا نے کمیونزم کے بانی ملک کا حال بھی دیکھ لیا کہ کس طرح نا انصافی کے ساتھ ’’ نافذ‘‘ ہو نے والا نظام دم توڑ چکا۔ کسی بھی نظام کی تھیوری اس کی پریکٹیکل سے قدرے مختلف ہو تی ہے خصوصاً جب نظام قوموں سے متعلق ہو تو اس نظام کو نافذ کرنے والے ہی اس کو کامیاب یا ناکام بناتے ہیں نہ کہ اس نظام کو پیش کرنے والے۔
اگر سیاست کی بات کریں تو امریکی صدارتی نظام اس کے نافذ کرنے والوں کی وجہ سے آج تک کامیاب ہے اگر اس کے نفاذ کے ابتدائی ادوار میں امریکہ کی عدالت عظمیٰ ’’ نظریہ ضرورت ‘‘ کے تحت صدر کو ماورائے آئین کام کرنے کی اجازت دے دیتی تو آج شائد امریکہ اس قدر طاقتور نہ ہو تا اور اس کا صدارتی نظام بھی اپنی موت آپ مر چکا ہو تا۔ انگلینڈ کا پارلیمانی نظام اپنی کامیابی کے پیچھے صدیوں کی طویل جدوجہد رکھتا ہے اور یہ سب نظام کو نافذ کرنے والوں کا اپنے نظام سے خلوص اور دیانتداری تھی کہ ان کے اختیار کردہ نظام کامیاب ہو ئے اور ان اقوام کو دنیا میں عروج نصیب ہوا۔ اسی طرح ملت اسلامیہ کا شرعی نظام جب تک مخلص دین داروں کے ہاتھ رہا کامیاب ترین نظام رہا مگر جیسے ہی یہ نظام دنی اداروں ، ابن الوقتوں اور موقع پرستوں کے ہاتھ آیا ، اس کے ثمرات زائل ہو نا شروع ہو گئے۔
پاکستان میں قومیائے گئے اداروں کی نجکاری آج کا اہم ترین مسئلہ بن چکی ہے ۔ حکومت دھڑا دھڑ سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں دینے کی کوششوں میں مصروف ہے تا کہ کسی طرح ان اخراجات سے چھٹکارا پایا جا سکے جو ان اداروں کے حکومتی تحویل میں ہو نے کے باعث حکومت کو اٹھانے پڑتے ہیں۔ لازمی بات ہے کوئی بھی سرمایہ دار اگر ان اداروں میں سے کسی ادارے کو خریدنا چاہتا ہے تو اس ادارے کے اثاثہ جات کو چیک کرنا اس کا حق ہے تا کہ ادارے کی اندرونی صورتحال کو دیکھ کر ان اداروں کی بو لی دی جائے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ دار بھی ان اداروں کو خریدنے کے خواہشمند ہیں جو منافع کما رہے ہیں، ان کی نظریں چلتے ہوئے کاروبار اور اداروں پر مرکوز ہیں۔ جن میں اس وقت، تمام تر لوٹ کھسوٹ کے باوجود ، پاکستان کا سب سے زیادہ منافع بخش ادارہ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کا ہے یہ غالباً وہ واحد ادارہ ہے جو ملکی خزانے کو سب سے زیادہ ریونیو دے رہا ہے۔ اس کے بعد پاکستان ریلوے ایک اور بڑا ، مگر خسارے کا مارا ہوا، ادارہ ہے جس کی نج کاری سیکٹر وائز کرنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں۔ ٹرین میں سفر کریں تو محسوس ہو گا جیسے سارا پاکستان ریلوے میں سفر کرتا ہے اور ریلوے قومی خزانے میں ایک بڑے حصہ دار کا کردار ادا کر رہا ہے مگر حیرت ہو تی ہے جب پتہ چلتا ہے کہ ریلوے ہمیشہ کی طرح خسارے میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستان کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ریلوے ملازمین اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی مفاد میں سوچیں مگر ہو تا اس کے بر عکس ہے اور ریونیو کا بڑا حصہ بندر بانٹ کے نتیجے میں بجائے قومی خزانے میں جانے کے ذاتی جیبوں میں چلا جاتا ہے اور ادارہ غریب یا خسارے میں چلا جاتا ہے ۔ اسی طرح کی ایک مثال آج سے پندرہ سال پہلے بننے والے ٹرانسپورٹ کے ادارے کی ہے جس میں کسی بھی وقت کوئی بس خالی نہیں ملتی تھی مگر بندر بانٹ اور ذاتی مفادات نے اس ادارے کو آج بالکل ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ان حالات میں حکومت کی مجبوریاں بھی سمجھ آتی ہیں کہ ایسے ادارے کو چلانے کا کیا فائدہ جب سراسر نقصان ہو۔ لیکن بندر بانٹ کرنے والے احباب ( معذرت کے ساتھ کہ اس کے علاوہ ان کو کیا کہا جائے) یہ بھول جاتے ہیں کہ جب حکومت مجبور ہو کر کوئی ایسا قدم اٹھائے گی تو پھر نقصان صرف حکومت کا نہیں بلکہ ان ہزاروں ملازمین کا بھی ہو گا جو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مشغول ہیں ۔ ریلوے کو خریدنے والا کوئی بھی سرمایہ دار فوری طور پر ایسے ملازمین کو ملازمت سے فارغ کرنے میں حق بجانب ہو گا جو اس کو ادارے پر بوجھ نظر آئیں گے۔
کچھ ایسا ہی حال واپڈا کا اور پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کا ہے کہ یہ دونوں ادارے بھی ملکی معیشت پر ایک بار گراں تصور ہو رہے ہیں اور ان کی نجکاری کے متعلق بھی تجاویز مانگی جا رہی ہیں گو کہ ان تمام اداروں میں مصروف عمل ٹریڈ یونینز ایسے کسی بھی قدم کیخلاف بھرپور احتجاج کریں گی مگر جب تک حکومت کو ان اداروں سے کچھ منافع حاصل نہ ہو گا ان اداروں کا وجود حکومتی خزانے پر بوجھ ہی رہے گا اور آخر کار ان اداروں کو نجی تحویل میں جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
ایک طرف حکومت ان اداروں کی نج کاری سے قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف ایک طرح سے اپنے ہی وسائل آمدنی بھی کم کر رہی ہے ۔ کیا اس طرح حکومت یا ارباب اختیار قومی معیشت پر پڑے ہوئے بوجھ کو کم یا ختم کر پائیں گے؟؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سال میں کئی مرتبہ ٹیکس اہداف پر نظر ثانی ہو تی ہو ، جہاں پر ٹیکس دینے والا طبقہ اپنے تمام اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ٹیکس دینے سے گریز کرے، جہاں پر محکمے میں موجود سرکاری ملازمین ٹیکس دینے والوں کو ٹیکس ہضم کرنے کے گر بتا کر اپنی جیبیں بھرتے ہوں۔ ان حالات میں نج کاری کا عمل کس کو فائدہ دے گا اور کس کو نقصان؟؟؟؟؟
ان سب چیزوں کے علاوہ پاکستان اور پاکستانی معیشت جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل میں پھنسی ہو ئی ہے۔ آنیوالی نسلیں تک ان اداروں کے ہاتھوں گروی ہیں ۔ کیا ان اداروں کی نج کاری اور اس سے حاصل ہو نیوالی رقم سے پاکستان ان اداروں کی رقوم واپس کرنے کے قابل ہو جائیگا ؟؟؟ کیا پاکستان اپنی آئندہ نسلوں کو ان اداروں کے رہن سے آزاد کروا لے گا؟؟؟ اگر یہ سب نہیں ہو سکے گا اور ماضی کی طرح نج کاری اور قرض اتارو ملک سنوارو سے حاصل ہو نے والی رقم ایک مرتبہ پھر صدر، اراکین پارلیمنٹ اور اراکین سینٹ کی تنخواہیں بڑھانے کا سبب ہی بنے گی تو پھر ان اداروں کی نج کاری اور ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کا کیا قصور ہے ؟؟؟ ایسے حالات میں اکثر ارباب اختیار کا سوال ہو تا ہے کہ پھر حالات کو کیسے کنٹرول کیا جائے اور عموماً جواب بھی ایک ہی ہو تا ہے کہ ’’ چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہئیں‘‘ اپنی ضروریات کو کم سے کم کر کے ، اپنے اخراجات کو کم کر کے۔ جو کوئی بھی کم کرنے پر تیار نہیں بلکہ الٹا اخراجات بڑھتے ہی نظر آتے ہیں۔ با ایں حالات ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین میں خصوصاً اور عام آدمی میں عموماً یہ احساس پیدا کرے کہ قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں ورنہ نجکاری کا یہ عمل جہاں حکومت سے اچھے اداروں کو چھین لے گا وہیں یہ عمل ان اداروں میں کام کرنے والوں کی لاپرواہی اور غیر مخلصانہ طرز عمل سے ان کے اپنے پائوں پر کلہاڑی ثابت ہو گا لہذا اس وقت سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو سنبھالنا ہو گا لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے!!!! ( جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button