ColumnRoshan Lal

آئی ایم ایف، پاکستانی آئین اور این ایف سی

تحریر : روشن لعل
یہ بات پوری دنیا پر واضح ہے کہ جو ملک بھی آئی ایم ایف کے پاس قرض کے لیے جاتا ہے وہ اپنی مالیاتی پالیسیاں بنانے میں خود مختار نہیں رہتا۔ جو بات پوری دنیا پر واضح ہے وہ پاکستانیوں پر زیادہ عیاں ہونی چاہیے، کیوں کہ وطن عزیز اپنے قیام کے بعد سے اب تک 23مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض کے لیے رجوع کر چکا ہے ۔ پاکستان نے عمران خان کے دور حکومت میں سخت ترین شرائط مان کر آئی ایم ایف سے 6بلین ڈالر کا جو قرض لیا اس کی آخری قسط ادا کرنے سے قبل آئی ایم ایف ٹیم قرض کے لیے عائد کی گئیں سابقہ شرائط پر عمل درآمد اور نئی شرائط عائد کرنے کی غرض سے مذاکرات کرنے پاکستان آئی ہوئی ہے۔ پاکستان ، آئی ایم ایف کے ساتھ نہ صرف پہلے سے منظور شدہ قرض کی آخری قسط لینے بلکہ 6بلین ڈالر مزید قرض کے لیے بات چیت کرنے کا بھی خواہاں ہے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آئی ایم ایف کا ادارہ اپنے دیئے ہوئے قرض کی واپسی کے لیے ایسی شرائط عائد کرتا ہے جس سے اس ملک کے عوام پر چاہے جیسے بھی اثرات مرتب ہوں مگر اس کے قرض کی واپسی ہر صورت میں یقینی ہوجائے۔ اس مرتبہ آئی ایم ایف نے اپنے قرض کی واپسی یقینی بنانے کے لیے پاکستان سے مرکز اور صوبوں میں فنڈز کی تقسیم کے لیے جاری کیے گئے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا۔ جب این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کا آئی ایف کا مطالبہ منظر عام پر آیا تو اس پر سب سے پہلے اور سخت ترین رد عمل موجودہ شہباز شریف حکومت کی اہم ترین اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے ظاہر کیا ۔ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کو ہر صورت ناقابل قبول قرار دینے کے پیپلز پارٹی کے سخت موقف کے اظہار کے بعد حکومت کو بھی یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ این ایف سی ایوارڈ کو کیونکہ یہاں آئینی تحفظ حاصل ہے، لہذا آئی ایم ایف کی کوئی ایسی تجویز نہیں مانی جائے گی جو آئین سے متصادم ہو۔ موجودہ اتحادی حکومت جس کا قائم رہنا یا نہ رہنا اس وقت پیپلز پارٹی کی حمایت پر منحصر ہے نے این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کو فی الحال تو غیر آئینی قرار دے دیا لیکن مسلم لیگ ن کی اس حکومت کو این ایف سی ایوارڈ کے لیے پیپلز پارٹی کی طرح حساس نہیں سمجھا جا سکتا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے تو غالبا ً پہلی مرتبہ یہ مطالبہ سامنے آیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کی جائے مگر پاکستان کے اندر سے بہت پہلے سے ساتویں این ایف سی ایوارڈ حملی
جاری ہیں۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے این ایف سی ایوارڈ پر موجودہ مطالبے سے کچھ ماہ قبل 20نومبر 2023کو اس وقت کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے مشیر خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان نے اسلام آباد میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کی جائے ۔ ڈاکٹر وقار مسعود کے اس بیان پر اس وقت کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے سخت رد عمل کا ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ نگران حکومت یا اس کے کسی نمائندے کو یہ اختیار ہر گز حاصل نہیں کہ وہ طے شدہ آئینی معاملات پر کوئی بات کرے۔ انوارالحق کاکڑ کی نگران حکومت کے دور میں اس کے نمائندے این ایف سی ایوارڈ پر جو باتیں کرتے رہے انہیں مد نظر رکھ کر یہ سوچنے کوئی حرج نہیں کہ ہوسکتا ہے آئی ایم ایف کو این ایف سی ایوارڈ ٹارگٹ کرنے پر سابقہ نگران حکومت کے لوگوں نے ہی مائل کیا ہو۔ این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی کرنے کے آئی ایم ایف کے مطالبے پر پیپلز پارٹی اور حکومت کے سامنے آنے والے رد عمل کے بعد اب یہ ممکن نہیں لگتا کہ اس معاملے میں آئی ایم ایف حکومت پر کوئی فوری دبائو ڈالے مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ این ایف سی ایوارڈ کو ٹارگٹ کرنے کا معاملہ ہمیشہ کے لیے دب گیا ہے۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ آئی ایم ایف کا ادارہ جب بھی کسی ملک کو قرض دیتا ہے تو سود سمیت قرض کی واپسی کے لیے ایسی شرائط عائد کرتا ہے جس سے قرض کی واپسی ہر صورت میں یقینی ہو جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے کوئی بھی نیا قرض منظور کرتے ہوئے اور منظور شدہ قرض کی ہر نئی قسط جاری کرتے وقت آئی ایم ایف اپنی سابقہ شرطوں سے زیادہ کڑی نئی شرطیں عائد کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ہر مرتبہ زیادہ کڑی شرطیں عائد کیے جانے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی حکام نے تسلیم کی گئی سابقہ شرطوں پر اپنے وعدوں کے مطابق عمل نہیں کیا ہوتا جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کو پہلے سے زیادہ کڑی شرطیں عائد کرنا پڑتی ہیں۔ کڑی سے کڑی شرطیں عائد کرنے کے باوجود بھی جب طے شدہ اہداف حاصل نہیں ہورہے تو شاید ریاست پاکستان کے اندر سے کسی نی آئی ایم ایف کی توجہ صوبوں کے آئینی طور پر طے شدہ مالی حصے پر ہاتھ صاف کرنے کی طرف مبذول کرائی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صوبوں کو ان کے آئین میں طے شدہ حصے سے محروم کرکے بھی پاکستان کے معاشی مسائل جوں کے توں رہے تو کیا پھر بھی وہ سب کچھ کرنے سے احتراز کیا جائے گا جن کے کرنے سے ابھی تک گریز کیا جاتا رہاہے۔ مالیاتی ماہرین کے مطابق یہ بات طے شدہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک قرض کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے تو اس کے فنڈ پروگرام کے مطابق اس ملک کو ایسی اصلاحات نافذ کرنی پڑتی ہیں جن کے نتائج کا سو فیصد درست اندازہ لگانا ممکن نہ ہونی کے باوجود ان اصلاحات کے نفاذ سے انکار ممکن نہیں ہوتا۔ کوئی بھی ملک جب قرض کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتا ہے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی جیسے مسائل کو اپنے وسائل پر انحصار کر کے حل کرنا ممکن نہیں رہا ۔ قرض دینے والے آئی ایم ایف کا پاکستان سے دیرینہ مطالبہ ہے کہ اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کا دائرہ محدود سے محدود تر یا ختم ہوجائے ۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے پرچون فروشوں اور رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے اور ملک کی معیشت کو دستاویزی اور ڈیجیٹلائز کرنے کا کہا گیا تھا ۔ ہمارے پالیسی سازوں نے ہر مرتبہ گردشی کم کرنے کی بجائے عوام پر بوجھ ڈالتے ہوئے پاور سیکٹر کے ٹیرف میں اضافہ کیا ، اس کے علاوہ پرچون فروشوں اور رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بجائے اپنی ترجیح این ایف سی ایوارڈ پر حملے کو بنا لیا گیا۔ یاد رہے کہ ملک کے ندر اور باہر کے جو ناعاقبت اندیش لوگ ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھانے کی بجائے این ایف سی ایوارڈ پر حملے کا سوچ رہے ہیں وہ دراصل اس ملک کی سالمیت سے کھیل رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button