Column

بنارسی ٹھگ

تحریر : رفیع صحرائی
پہلے دور میں ٹھگ باز نوسر بازی کے مختلف طریقوں سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انہیں ان کی پونجی سے محروم کر دیا کرتے تھے۔ آج کل جدید دور آ گیا ہے۔ فیس بک، واٹس اپ، ٹک ٹاک اور یوٹیوب نے لوگوں کو اس سلسلے میں بہت باخبر کر دیا ہے۔ اب جلدی سے کوئی بندہ نوسربازوں کے ہتھے نہیں چڑھتا۔ وہ حالات کو بھانپ لیتا ہے۔
جہاں لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نوسربازوں کے مخصوص ہتھکنڈوں سے آگاہی ہوئی ہے وہیں پر نوسربازوں نے بھی اپنے طریقہ واردات میں بہت سی تبدیلیاں کر لی ہیں۔ اب وہ بھی جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر اور سامنے آئے بغیر لوگوں کو مختلف قسم کے لالچ دے کر انہیں ان کے سرمائے سے محروم کر دیتے ہیں۔ انسان پھنستا تب ہی ہے جب وہ لالچ کا شکار ہو جاتا ہے۔ البتہ کبھی کبھار انسانی ہمدردی کا جذبہ بھی اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو جاتا ہے۔گزشتہ چند سالوں سے سادہ لوح عوام کے علاوہ ’’ سیانے افراد‘‘ کو بھی فیس بک پر لوٹنے کا ایک طریقہ جاری ہے جس کا شکار اکثر لوگ ہو جاتے ہیں۔ اور لُٹنے کے بعد شرم کے مارے کسی کو بتاتے بھی نہیں۔ حالانکہ اگر وہ اپنا تجربہ شیئر کر دیا کریں تو دوسرے بہت سے افراد لٹنی سے بچ سکتے ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ فیس بک پر کسی نہایت ہی خوب صورت غیرملکی لڑکی کی فرینڈ ریکوئسٹ موصول ہوتی ہے۔ ہم پاکستانیوں کے نزدیک تو یہ بھی ایک طرح کی لاٹری نکلنے والی بات ہوتی ہے۔ ایسی ریکوئسٹ کو پہلے قبول کیا جاتا ہے اور بعد میں موصوفہ کی پروفائل چیک کی جاتی ہے۔ پتا چلتا ہے کہ خاتون امریکی فوج میں سارجنٹ ہیں اور کسی افریقی ملک میں امن قائم کرنے والے دستے کے ساتھ موجود ہیں۔ دوستی کی قبولیت کے ایک گھنٹے کے اندر خاتون کی طرف سے میسنجر پر میسج موصول ہو گا کہ اس نے آپ کی پروفائل دیکھی ہے اور آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئی ہے۔ آپ کو بتانے کے لیے اس کے پاس بہت کچھ ہے لہٰذا آپ دئیے گئے ای میل ایڈریس پر اس سے رابطہ کریں۔ کیونکہ اسے فیس بک استعمال کرنے کا موقع بہت کم ملتا ہے۔ ساتھ ہی وردی میں ایک دو تصویریں بھی ہوں گی تاکہ آپ کو یقین ہو جائے کہ موصوفہ ’’ اصلی‘‘ ہیں۔ بعض اوقات واٹس اپ نمبر دے دیا جاتا ہے۔ آپ یہ میسج پا کر پھولے نہیں سماتے اور فوراً دیے گئے ایڈریس یا نمبر پر رابطہ کرتے ہیں۔ جواباً آپ کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ اپنے متعلق مختصر تفصیل بتائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی تین چار ہیجان خیز تصویریں بھی ارسال کی جاتی ہیں جو انتہائی مختصر لباس میں ہوتی ہیں۔ آپ فوراً ہی خود کو اس حسینہ کے عاشقِ صادق کے مرتبے پر فائز کر دیتے ہیں۔ جواباً اپنی تصویریں بھیجتے ہیں اور اپنے بارے میں بڑھا چڑھا کر بیان کر دیتے ہیں۔ تب حسینہ کی طرف سے آپ کو بتایا جاتا ہے کہ باغیوں کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے ہاتھ ایک موٹی رقم لگی ہے جو کئی ملین ڈالر پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ خاتون راز داری کے ساتھ رقم آپ کو منتقل کرنا چاہتی ہے اور اس میں سے آپ کو آدھے کا حصہ دار بنا دیتی ہے۔ وہ آپ کو شادی کی پیشکش بھی کرتی ہے۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو آپ کی دوسری بیوی بننے کو بھی تیار ہو جاتی ہے۔ اگر آپ اس پیشکش کے بعد خود کو ہوائوں میں اڑتا اور رنگین نظاروں کے سپنے دیکھتا ہوا پاتے ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔ آپ یہ نہیں سوچیں گے کہ یہ انجان خاتون آپ پر اندھا اعتماد کیوں کر رہی ہے۔ آپ خود کو اس کے خوابوں کا شہزادہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ عشق اندھا ہوتا ہے۔ آپ خود اندھے ہو چکے ہوتے ہیں مگر اس خاتون کو اندھا سمجھنے لگتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں یہ بات بھی ذہن میں ہوتی ہے کہ رقم کی وصولی کے بعد آپ اسے شناخت کرنے سے ہی انکار کر دیں گے۔ اس کے بعد آپ دونوں کے مابین معاملات طے پا جاتے ہیں۔ چونکہ رقم کی ملکیت کا محترمہ کے پاس ثبوت نہیں ہوتا لہٰذا قانونی طریقے سے یہ رقم منتقل نہیں ہو سکتی۔ طے یہ پاتا ہے کہ اسے کسی سفارت کار کے ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے محترمہ کا کوئی رازدار یا وکیل بھیجنے کا بندوبست کرے گا اور آپ اس سفارت کار سے ایئرپورٹ پر وہ بیگ وصول کر لیں گے جس میں لگ بھگ ایک کروڑ ڈالر ہوں گے۔ سفارت کار کا انتخاب اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان کے سامان کی چیکنگ نہیں ہوتی۔ چونکہ اس دوران آپ سے کسی بھی قسم کی رقم یا کسی اور چیز کا کوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا اس لیے آپ مطمئن ہوتے ہیں۔ طے شدہ وقت پر آپ مقررہ ایئرپورٹ پر پہنچتے ہیں اور بتائی گئی فلائٹ کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ فلائٹ لینڈ کرتی ہے۔ مسافر نکلنا شروع ہوتے ہیں اور تبھی آپ بتائے گئے حلیے والے ایک غیر ملکی کو ادھر ادھر کسی کو تلاش کرتا پاتے ہیں۔ اس کے ہاتھ میں نہایت نفیس بیگ ہوتا ہے۔ آپ فوراً اس کے پاس پہنچتے ہیں اور اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ وہ آپ کو بتاتا ہے کہ یہ بیگ آپ کی امانت ہے۔ اس کے سفارت کار ہونے کی وجہ سے بیگ کی چیکنگ تو نہیں کی گئی مگر ایک لاکھ روپے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں دینا پڑے ہیں۔ وہ ادا کر کے بیگ لے لیں۔ اگر آپ متذبذب ہوں تو ذرا سا بیگ کھول کر آپ کو ڈالروں کی گڈیوں کا دیدار بھی کروا دیا جاتا ہے۔ آپ مطمئن ہو کر ایک لاکھ روپے ادا کرتے ہیں اور بیگ لے کر خوشی خوشی گھر آ جاتے ہیں۔ گھر آ کر بیگ کھولتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آپ کو ڈالروں کی فوٹو کاپیاں اور ردی کاغذ تھما دیا گیا ہے۔ آپ اپنا سر تو پیٹتے ہی ہیں مگر اس ڈر سے کسی کے سامنے ذکر نہیں کرتے کہ لوگ آپ کو بیوقوف سمجھیں گے۔ضروری نہیں کہ واردات کرنے والی خود کو فوجی افسر ہی ظاہر کرے۔ وہ کسی مقبوضہ ملک کے شاہی خاندان کی ریفیوجی کیمپ میں پناہ گزیں شہزادی بھی ہو سکتی ہے جس کے پاس بہت بڑا ترکہ ہے اور وہ آپ کو منتقل کرنا چاہتی ہے۔ یہ کوئی اور دولت مند خاتون بھی ہو سکتی ہے۔
دراصل یہ ایک منظم پاکستانی گروہ ہوتا ہے جو فیس بک پر غیرملکی لڑکیوں کے نام سے فیک اکائونٹ بنا کر لوگوں کو لوٹنے کا دھندا کرتا ہے۔ پاکستان میں ایسے بہت سے گروہ موجود ہیں جو اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ ان سے خود بھی ہوشیار رہیں اور دوسرے جاننے والوں کو بھی خبردار کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button