Editorial

دہشتگرد حملے میں لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن سمیت 7جوان شہید

پچھلے سال سوا سال سے دہشت گردی کا عفریت تباہی پھیلاتا دکھائی دیتا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختون خوا صوبوں میں تواتر کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ کبھی چیک پوسٹوں پر حملے کیے جاتے ہیں، کبھی سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمارے کئی افسران اور اہلکار جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ان مذموم حملوں کا خاتمہ یقینی بنانے اور ملک میں امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے سیکیورٹی فورسز متحرک ہیں اور متواتر دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے آپریشنز جاری ہیں۔ لاتعداد دہشت گردوں کو مارا اور گرفتار کیا جا چکا ہے۔ متعدد علاقوں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کیا جا چکا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا سلسلہ تھما نہیں، یہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک جاری رہیں گی اور جلد اس حوالے سے قوم کو خوش خبری ملے گی۔ پاکستان پہلے بھی تن تنہا پندرہ سال تک موجود رہنے والی دہشت گردی کا خاتمہ کر چکا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد دہشت گردوں کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوئے تھے۔ ان کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی تھی۔ ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہوئی تھی اور عوام نے سکون کا سانس لیا تھا۔ گزشتہ روز بھی شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی جانب سے چیک پوسٹ پر مذموم حملہ دیکھنے میں آیا، جس کے نتیجے میں لیفٹننٹ کرنل اور کیپٹن سمیت 7اہلکار شہید ہوگئے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشت گردوں کے حملے میں لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن سمیت 7فوجی جوان شہید ہوگئے جبکہ کلیئرنس آپریشن میں 6دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کردیا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی چیک پوسٹ پر حملہ کیا، دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چیک پوسٹ سے ٹکرا دی جبکہ گاڑی کی چیک پوسٹ کو ٹکر کے بعد متعدد خودکُش حملے کیے گئے، ان خودکُش حملوں کے نتیجے میں عمارت کا ایک حصہ گرگیا جس کے نتیجے میں 5جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق خودکُش حملوں کے بعد لیفٹیننٹ کرنل کاشف کی قیادت میں کلیئرنس آپریشن کیا گیا جس میں تمام 6دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا جبکہ آپریشن کے دوران فائرنگ کے شدید تبادلے میں لیفٹیننٹ کرنل کاشف اور کیپٹن احمد بدر شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق شہید ہونے والے 39سال کے لیفٹیننٹ کرنل کاشف کا تعلق کراچی سے ہے اور 23سال کے کیپٹن محمد احمد بدر کا تعلق تلہ گنگ سے ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دیگر شہدا میں حوالدار صابر، نائیک خورشید، سپاہی ناصر، سپاہی راجہ اور سپاہی سجاد شامل ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق شہید حوالدار صابرکا تعلق ضلع خیبر، شہید نائیک خورشید کا لکی مروت، شہید سپاہی ناصر کا پشاور، شہید راجہ کا کوہاٹ اور شہید سپاہی سجاد کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے دہشت گرد حملے میں شہید پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے قومی عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے شہداء کے لیے بلندی درجات، اہل خانہ کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے واقعے کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور سیکیورٹی فورسز کے افسران و جوانوں کی شہادت پر دکھ اور غم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو مٹی میں ملادیا، مجھ سمیت پوری قوم کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہید جوانوں پر فخر ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ قوم اپنے جوانوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی، غم اور دکھ کی مشکل گھڑی میں شہداء کے اہل خانہ کے غم میں برابر کا شریک ہوں، دہشت گرد دشمن کے ناپاک عزائم پر عمل پیرا ہیں، جس میں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ دہشت گردی کی یہ مذموم کارروائی ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ فوجی افسران اور اہلکاروں کی شہادت پر پوری قوم دُکھ کا شکار اور ان کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ پاک افواج کا ہر ایک افسر اور جوان قوم کے لیے قابل فخر ہے۔ یہ وطن کے وہ سپوت ہیں، جو ملک کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ شہدا اور ان کے اہل خانہ ہر لحاظ سے پوری قوم کے لیے قابل عزت و احترام ہیں۔ ان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان کو چُن چُن کر مارا اور گرفتار کیا جارہا ہے، ان کے ٹھکانوں کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے، ان شاء اللہ جلد اس حوالے سے اچھی اطلاعات سامنے آئیں گی اور ملک عزیز سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہوجائے گا۔ پوری قوم اپنی افواج کے شانہ بشانہ ہے اور ان کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
منشیات کا خاتمہ، سخت کریک ڈائون ناگزیر
وطن عزیز میں گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اندازاً ایک کروڑ سے زائد پاکستانی نشے کی لت میں مبتلا ہیں جب کہ ان میںلاکھوں خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وطن عزیز میں منشیات کی آزادانہ خرید و فروخت اور اس کی اسمگلنگ بتائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان کے قریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں مختلف فٹ پاتھوں پر بڑی تعداد میں لوگ نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف طریقوں سے اپنی موت کا سامان آپ کررہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس سے بھی کئی گنا بڑی تعداد میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو کسی نہ کسی نشے میں مبتلا ہیں اور جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ عام یا نارمل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آخرالذکر افراد چھپ کر نشہ کرتے ہیں۔ اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ اندازوں سے بھی کہیں گنا زیادہ تعداد میں پاکستانی نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ یہ بلاشبہ تشویش ناک امر ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز اینٹی نارکوٹکس فورس نے کراچی،کچلاک اور پسنی میں کارروائیوں کے دوران منشیات کی بھاری مقدار تحویل میں لے لی۔ ترجمان اے این ایف کے مطابق منشیات اسمگلنگ کے خلاف کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، کراچی ایئرپورٹ پر شارجہ بھیجے جانے والے پارسل سے 70گرام ہیروئن برآمد کی گئی۔ اس کے علاوہ طارق روڈ کراچی کے قریب کارروائی کے دوران گرفتار ملزم سے 1.5کلو آئس قبضے میں لی گئی۔ اے این ایف کے مطابق کچلاک کوئٹہ سے 75کلو گرام ہیروئن جبکہ کوسٹل ہائی وے پسنی کے قریب سے 55کلو گرام چرس برآمد کی گئی، گرفتار ملزمان کے خلاف انسدادِ منشیات ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔وطن عزیز کے طول و عرض میں اسء ژرغ وقتاً فوقتاً منشیات فروشوں اور اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں، لیکن یہ تب تک موثر ثابت نہیں ہوسکتیں جب تک تمام منشیات فروشوں اور اسمگلروں کا قلع قمع کرنے کا عزم مصمم نہ کرلیا جائے اور ان کے خلاف تواتر کے ساتھ سخت کریک ڈائون کا آغاز نہ کیا جائے۔ منشیات کی تجارت اور اس کی فروخت میں ملوث گروہوں کے ’’بااثر شخصیات’’ سے تعلقات ہوتے ہیں، جو انہیں اس گھنائونے دھندے میں مکمل سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ ایسے میں کیونکر اس مکروہ کاروبار کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس سے تحفظ فراہم کرنے کی خاطر راست اقدامات ناگزیر ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور متعلقہ محکمے اب اس برائی کے مکمل خاتمے کے لیے موثر کارروائیاں یقینی بنائیں، نا صرف منشیات فروشوں اور اسمگلروں بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے افراد کو بھی بے نقاب کیا جائے اور ان کے خلاف کڑی قانونی چارہ جوئی کی جائے، سب سے بڑھ کر ان کارروائیوں کو تسلسل کے ساتھ اُس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button