Editorial

پہلا کابینہ اجلاس: ملک کو مشکلات سے نکالنے کا عزم

ملک میں اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے کندھوں پر بھاری ذمے داری آن پڑی ہے۔ بہ حیثیت وزیراعلیٰ پنجاب اُن کا کردار مثالی رہا ہے۔ صوبے کی بہتری اور ترقی کے لیے اُن کی جانب سے کیے گئے اقدامات ہر جانب سے سراہے اور پسند کیے گئے ہیں۔ وہ گزشتہ مدت میں آخری کے 16ماہ اتحادی حکومت میں وزارت عظمیٰ پر متمکن رہے ہیں۔ اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد اُس وقت عنان اقتدار سنبھالی تھی، جب ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ عوام کی حالت انتہائی خراب تھی۔ معیشت برباد ہوچکی تھی۔ گو ان کے دور میں مہنگائی بڑھی، ڈالر بے قابو رہا، لیکن ملک پر ڈیفالٹ کی لٹکتی تلوار کو ٹالنے کے لیے اس حکومت نے شبانہ روز کاوشیں کیں اور اپنے مقصد میں کامیاب رہی۔ نگراں حکومت آئی اُس نے بھی راست کوششیں کیں۔ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کے فیصلے کے بھی مثبت اثرات ظاہر ہوئے۔ صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ملک اور قوم کو لاحق مشکلات اور مصائب سے گلوخلاصی مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن ہرگز نہیں۔ اگر نیک نیتی سے اقدامات کیے جائیں تو بڑے بڑے مسائل کو حل کرنا چنداں مشکل نہیں۔ مرکز میں گزشتہ روز 19 رکنی وفاقی کابینہ نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا۔ اس کا پہلا اجلاس گزشتہ روز ہوا اور پیر کو ہی تمام وفاقی وزرا کو اُن کی وزارتوں کے قلم دان سونپے گئے۔ خواجہ آصف وزیر دفاع ہوں گے، اس کے علاوہ دفاعی پیداوار اور ایوی ایشن کا اضافی چارج بھی ان کے پاس ہوگا۔ قیصر احمد شیخ کو وزارت میری ٹائم افیئرز اور ریاض پیرزادہ کو وزارت ہائوسنگ اینڈ ورکس دی گئی ہے۔ اسحاق ڈار وزیر خارجہ ہوں گے، احسن اقبال وزیر منصوبہ بندی اور ترقی، جام کمال خان وزیر تجارت اور اویس احمد خان لغاری کو وزیر ریلوے مقرر کیا گیا ہے۔ عبدالعلیم خان وزیر نجکاری، بورڈ آف انویسٹمنٹ کا اضافی چارج بھی علیم خان کے پاس ہوگا۔ عطا تارڑ وزیراطلاعات اور نشریات ہوں گے، رانا تنویر حسین وزیر صنعت و پیداوار، خالد مقبول صدیقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اعظم نذیر تارڑ وزیر قانون ہوں گے اور انہیں وزارت انسانی حقوق کا اضافی چارج بھی دیا گیا ہے۔ مصدق ملک وزیر پٹرولیم ہوں گے، وزارت پاور کا اضافی چارج بھی ان کے پاس ہوگا۔ چودھری سالک حسین کو وزارت سمندر پار پاکستانیز و انسانی ترقی تفویض کی گئی ہے جبکہ امیر مقام سیفران کے وزیر ہوں گے اور وزارت قومی ورثہ و ثقافت کا اضافی چارج بھی ان کے پاس ہوگا۔ محمد اورنگزیب وزیر خزانہ ہوں گے جبکہ ریونیو کا اضافی چارج بھی انہی کے پاس ہوگا۔ احمد چیمہ کو وزارت اقتصادی امور کا قلمدان سونپ دیا گیا، اسٹیبلشمنٹ کا اضافی چارج بھی احد چیمہ کے پاس ہوگا جبکہ سید محسن نقوی کو وزارت داخلہ کا قلم دان تفویض کیا گیا، وزارت انسداد منشیات کا اضافی چارج بھی ان کو دیا گیا ہے۔ قبل ازیں شہباز شریف کے زیرصدارت وفاقی کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا، جس میں کابینہ ارکان کو معاشی چیلنجز سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس میں کابینہ ارکان کو وزیراعظم نے مبارک باد دی اور کہا کہ مشکل حالات میں مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیم میں تجربہ اور بھرپور انرجی کا امتزاج ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کی بحالی ہمارا اولین ایجنڈا ہے، ٹیکس چوروں اور ان سے ملی بھگت کرنے والے افسروں دونوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اداروں میں کالی بھیڑوں کی نشاندہی کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں گے، ٹیکس میں اضافہ نہیں کریں گے بلکہ ٹیکس بیس کو بڑھائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ غریب عوام کو پیسنے والی مہنگائی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ غریب آدمی مہنگائی کے بوجھ تلے پس گیا ہے، اشرافیہ کو سبسڈی دینے کا کوئی جواز نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری گزشتہ حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا تھا، رمضان میں وفاقی حکومت نے 12ارب روپے کا ریلیف پیکیج دیا ہے، موبائل یوٹیلیٹی اسٹورز کو دوبارہ شروع کررہے ہیں، بی آئی ایس پی کے تحت اضافی کیش دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا تو اس کے بعد معاملات زیادہ خراب نہیں ہوئے، 16ماہ کی ہماری حکومت کی کارکردگی پوری قوم نے دیکھی، 8فروری کے الیکشن میں قوم نے منقسم مینڈیٹ دیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافی رقم دی جارہی ہے، قوم کو درپیش سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے، مہنگائی کو کم کرنا ہمارا پہلا امتحان ہے، غریب آدمی کو ریلیف دلوانے کیلئے پوری کوشش کرنی ہے، صوبوں کے ساتھ مل کر اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کریں گے۔ مٹھی بھر اشرافیہ 90فیصد وسائل پر قابض ہیں، اشرافیہ کو سبسڈی جتنی جلد ختم کریں گے قوم کا بھلا ہوگاوزیراعظم نے کابینہ شرکا سے گفتگو میں نئی منتخب حکومت کا روڈمیپ واضح کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے، اشرافیہ کی سبسڈی کے خاتمے کے حوالے سے حکومت کو اقدام کرنے چاہئیں۔ غیر ضروری اخراجات سے گریز کیا جائے۔ کفایت شعاری اختیار کی جائے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہوا جائے۔ حکومتی اخراجات کو محدود کیا جائے۔ ملک اور قوم کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ملک میں وسائل کی کمی نہیں۔ ان شاء اللہ نئی قائم ہونے والی اتحادی حکومت ملک اور قوم کے مصائب میں کمی لائے گی اور جلد ہی وطن عزیز ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوگا۔ بس اس کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہی۔
بھارت میں مسلمان مخالف متنازع قانون کا نفاذ
بھارت کی جانب سے شائننگ انڈیا کا ڈھول تواتر کے ساتھ پیٹا جاتا ہے، پروپیگنڈا گھڑا جاتا ہے کہ بھارت تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ملک ہے، جہاں سب کو آزادی کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے۔ اس امر میں ذرا سی بھی حقیقت نہیں، کیونکہ مودی کے دس سالہ دور حکومت میں بھارت کو مکمل طور پر ہندو انتہا پسند ریاست میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ گو مودی سے پہلے بھی بھارت میں ہندوئوں کا زور تھا اور مسلمانوں کی زندگیاں یہ اجیرن بناتے رہتے تھے، لیکن مودی دور حکومت میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی زندگیوں کو شدید ترین عذاب سے دوچار کر دیا گیا۔ ہندو انتہاپسندوں کا جتھہ جب دل چاہتا، کسی مسلمان پر ہلہ بول دیتا اور اُس سے حقِ زیست چھین لیتا۔ مسلمان لڑکیوں کے پیچھے پڑ کر شدّت پسند ہندو گروہ اُن کی عصمتیں تار تار کرتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کو بھارت میں بدترین تعصب کا سامنا ہے۔ اُنہیں ہندو اکثریت اپنا دشمن تصور کرتی ہے۔ دُنیا کو دِکھاوے کے لیے میڈیا پر مسلمانوں کے ساتھ اچھے سلوک کے چند ایک واقعات پیش کر دئیے جاتے ہیں، درحقیقت بھارت میں مسلمان انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ تعلیمی شعبے میں بھی ان کی ساتھ بدترین تعصب برتا جاتا ہے۔ مسلمان بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کے کئی واقعات میڈیا کے ذریعے سامنے آچکے ہیں۔ اسی طرح ملازمتوں کے حوالے سے بھی مسلمانوں کے ساتھ بدترین تعصب برتا جاتا ہے، انہیں کلیدی عہدے نہیں دیے جاتے اور نچلے عہدوں پر انہیں رکھا جاتا ہے۔ بھارت میں بسنے والے مسلمان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ اب پھر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بدترین نفرت پر مبنی متنازع قانون نافذ کردیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی حکومت نے ملک میں شہریت کا متنازع قانون ’’ سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ’’ نافذ کر دیا۔ بھارتی حکومت کا یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب چند ہفتے بعد ملک میں انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی پارلیمنٹ نے مذہب کو شہریت کی بنیاد بنانے والے اس قانون کی منظوری دسمبر 2019میں دی تھی، جس کے بعد ملک میں اس قانون کے خلاف پُرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں 100سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس قانون کے مطابق مرکزی حکومت 31دسمبر 2014سے قبل بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندوئوں، پارسیوں، سِکھوں، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں اور مسیحیوں کو شہریت دے سکتی ہے۔ اس قانون کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی جانب سے ’’ مسلمان مخالف’’ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ مسلمانوں کو اس قانون کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن ( این آر سی) بھارت کے 20کروڑ سے زائد مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کا سبب بن سکتا ہے۔ متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصّہ بن گیا ہے اور اب یہ باقاعدہ نافذ ہوگیا۔ بھارت اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جہنم کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ مودی دور میں مسلمانوں پر مظالم میں ہولناک حد تک شدّت آئی ہے۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں کو بھارت کے اس متنازع قانون کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے۔ آخر یہ جانوروں کی تکلیف پر درد سے تڑپ اُٹھتے ہیں تو ایک مذہب کے ماننے والوں کے خلاف متنازع ترین قانون کے خلاف بھی اُنہیں پوری شدّت کے ساتھ آواز اُٹھانی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button