ColumnQadir Khan

مولانا کو شراکت اقتدار میں غیبی مدد ؟

قادر خان یوسف زئی
مولانا فضل الرحمان، بزرگ پاکستانی سیاست دان اور جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے رہنما، ایک ایسی شخصیت ہیں جو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں توجہ اور اثر و رسوخ کے حامل ہیں۔ خاص طور پر احتجاجی سیاست کے ذریعے حامیوں کی خاصی تعداد کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت کو اتحادی اور مخالفین دونوں یکساں طور پر تسلیم کرتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان کی سیاسی حرکیات کے حوالے سے حالیہ مشاہدات نے پاکستان کے سیاسی میدان میں طاقت اور اثر و رسوخ کے نازک توازن پر روشنی ڈالی۔ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ جب مولانا فضل الرحمان اقتدار کی راہداریوں میں رہتے ہیں، تو وہ قابل قبول پیرامیٹرز کے اندر کام کرتے ہیں، سیاسی منظر نامے پر ایک خاص حد تک عملیت پسندی کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ تاہم، جب احتجاجی سیاست کرتے ہیں تو مولانا فضل الرحمان کی مزاحمت خاص طور پر نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کے پیروکاروں کے متحرک ہونے اور سڑکوں پر آنے کی صلاحیت نوزائیدہ حکومت کے لئے اہم رکاوٹیں پیدا کر سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں ، واضح رہے کہ جب جب مولانا نے احتجاج و مظاہرے کئے تو ان کے پیروکاروں کی جانب سے بے امنی دیکھنے میں نہیں آئی تاہم ایسے مواقعوں سے تیسرے فریق کا فائدہ اٹھانے کے خدشات عموماََ برقرار رہتے ہیں۔
یہ حقیقت مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کے ساتھ منسلک ہونے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے تاکہ اس طرح کے منظر ناموں کے سامنے آنے کے خطرے کو کم کیا جا سکے، احتجاجی تحریک کا غیر رسمی اعلان تو کیا گیا ہے لیکن انتخابات میں دھاندلی کے مبینہ الزامات عائد کرنے والے دیگر جماعتوں کے ساتھ اگر الائنس بنا تو نئی حکومت کو سخت سیاسی مزاحمت اپنے پی ڈی ایم کے سربراہ کا سامنا ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کے حامیوں کو قائل کرنے کی حکمران جماعت کی کوششیں اختلاف رائے کو بغیر کسی جانچ کے بڑھنے کی اجازت دینے کے ممکنہ نتائج کو تسلیم کرنے کی عکاسی کرتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی نچلی سطح کی حمایت اور تنظیمی صلاحیت کے ساتھ، حکمران جماعت عوامی جذبات کو ابھارنے اور احتجاج کو متحرک کرنے کی ان کی صلاحیت سے درپیش چیلنجوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ اگرچہ مولانا کا احتجاجی سیاست کی طرف جھکائو تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی نوٹ کیا جاتا ہے کہ ان کے اقدامات عام طور پر اس دائرے میں آتے ہیں جسے پاکستان کے سیاسی فریم ورک میں قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ احتجاجی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے لیے ان کی رضامندی کے باوجود، یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ مرکزی دھارے کی سیاست میں ان کی واپسی کا امکان باقی ہے، جو سیاسی منظر نامے کے اندر ایک حد تک لچک کی نشاندہی کرتا ہے۔ مولانا کو شکوہ ہے کہ جب ن لیگ انتخابات سے قبل دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہی تھی تو انہوں نے انہیں نظر انداز کیا ۔ عام انتخابات میں انہیں اپنے صوبے میں ناکامی کا سامنا ہوا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ نے کامیابی حاصل کیں ، تاہم اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے سے خیبر پختوانخوا کی چھوٹی جماعتوں کو بڑا فائدہ ملا۔ تاہم یہ امر ایک انتخابی نظام کا حصہ ہے، جس میں پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل میں انضمام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
موجودہ تناظر میں، جہاں پاکستان سماجی، اقتصادی اور سیاسی چیلنجز سے نبرد آزما ہے، استحکام اور بات چیت کو برقرار رکھنا سب سے اہم ہے۔ اس طرح، مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مشغول ہونے اور ان کے خدشات کو تعمیری بات چیت کے ذریعے دور کرنے کی کوششیں سیاسی گفتگو کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں کہ اختلاف رائے کو پرامن اور نتیجہ خیز انداز میں پیش کیا جائے۔ آصف علی زرداری اپنی معروف مفاہمانہ سیاست سے مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے اور ان سے ووٹ لینے کے لئے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے ، ممکن ہے کہ خیبر پختونخوا کی گورنر شپ کا تسلسل برقرار رہے یا پھر نئے گورنر کا نام آئے جو آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان مفاہمت طے پانے سے مشروط ہو۔ مولانا صاحب پی پی پی سے اتنا خفا نہیں ہیں جتنا انہیں پاکستان مسلم لیگ ن سے ناراضگی ہے کیونکہ بلوچستان کے لئے حکومت سازی میں مولانا عبدالغفور حیدری کو سخت جواب ملا کہ ان حالات کہ تقسیم اقتدار کا فارمولا طے ہوچکا ہے ، اب ممکن نہیں ہے ، تاہم اس امر پر قیاس کیا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری، صدر بننے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں، نیز نمبرز گیم بھی پورا ہوچکا۔
پاکستانی سیاست میں مولانا فضل الرحمان کا کردار ملک کے سیاسی منظر نامے میں موجود پیچیدگیوں اور باریکیوں کو ابھارتا ہے۔ اگرچہ احتجاجی سیاست کے لیے ان کی صلاحیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن شکایات کو دور کرنے اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے بات چیت اور مشغولیت کو جاری رکھنا چاہیے۔ جیسا کہ پاکستان اپنے راستے پر گامزن ہے، اختلاف رائے اور استحکام کے درمیان توازن تلاش کرنا ایک متحرک اور جامع جمہوری عمل کو یقینی بنانے کے لیے کلید ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان کے لئے گو کہ ، پنجاب ، وفاق اور سندھ میں کوئی آئینی عہدہ نہیں بچا لیکن ان کے لئے اب بھی بلوچستان میں وزارتوں اور خیبر پختونخوا میں گورنر کا عہدہ مل سکتا ہے۔ غالب امکان تو یہی ہے کہ مولانا بھی اس امر کا ادراک رکھتے ہیں کہ اگر ان کا احتجاج اور مظاہرے تحریک انصاف یا دوسری چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر ہوئے تو ان کے کارکنان کو مایوسی ہوسکتی ہے ، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح ان کی ذات کو انتہائی تضحیک آمیز رویئے کا نشانہ بنایا ، اس کی کسک وہ اب بھی محسوس ہوں گے، تاہم سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا۔
میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی باہم کوششوں سے مولانا کو کچھ لو کچھ دو کے فارمولے کے تحت رضا مند کر سکتے ہیں ، میاں نواز شریف کی جانب سے بھی انہیں راضی کرنے کے آپشن موجود ہیں اور ان کی زنبیل میں بھی بہت کچھ ہے اور اس حوالے سے مولانا کافی خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ انہیں دونوں جماعتوں کی جانب سے بیک وقت’’ غائبانہ امداد‘‘ مل سکتی ہے۔ دھرنے اور احتجاجوں کا موسم ابھی تک تغیرات کا شکار ہے ، ان حالات میں مولانا کے سیاسی دبائو کا مقصد تحریک انصاف کو تقویت دینا یقیناََ نہیں ہوگا کہ وہ عرصہ دراز سے لگائے زخموں کو فوراََ بھول جائیں۔ تاہم اتحادی حکومت سازی میں ان کا کردار ختم نہیں ہوا۔ انتخابات کے بعد جتنے عرصے کے لئے جو کچھ حاصل اور دیا جاسکتا ہی کہ اتحادی حکومت کی لچک پر منحصر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button