ColumnRoshan Lal

ورکنگ ویمن کے مسائل اور ضرورتیں

روشن لعل
عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ان کی زندگی سے جڑے استحصال، محرومیوں اور انہیں کم تر انسان سمجھنے جیسے موضوعات پر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش موجود ہوتی ہی مگر ایسے موضوعات کو زیر بحث لانے کی بجائے یہاں یہ دن میرا جسم میری مرضی جیسی باتیں کرنے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ بعض لوگوں کے لیے اس طرح کی باتوں کے حق یا مخالفت میں بولنا بہت اہم ہو سکتا ہے مگر ایک خاص دن پر صرف یہی کچھ کرنے سے عورتوں کے عالمی دن کی اصل اہمیت کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ عورتوں کا تعلق چاہے کسی بھی طبقے اور شعبہ زندگی سے کیوں نہ ہو، دور حاضر میں ان کے لیے سب سے اہم ان کی زندگی سے جڑے ہوئے کام ہیں لہذا ضروری ہے کہ ان سے موسوم عالمی دن پر دیگر موضوعات کے علاوہ اس موضوع پر بھی بات کی جائے کہ کام تو تمام عورتیں کرتی ہیں لیکن صرف چند ایک کو ہی ورکنگ ویمن کیوں کہا جاتا ہے اور ان ورکنگ ویمن کے کیا مسائل اور کونسی ضرورتیں ہیں۔
یاد رہے کہ معلوم تاریخ کا کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا جس میں عورتوں کے گھر یا گھر سے باہر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے شواہد نہ ملے ہوں۔ تاریخ میں درج، عورتوں کے اس ناقابل حذف کردار کی باوجودان کے درمیان ورکنگ ویمن(کام کرنے والی خواتین) اور ہائوس لیڈی(گھریلو خواتین) کے نام سے تفریق کی جاتی ہے۔ ورکنگ ویمن ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے جو گھر سے باہر معاوضہ لے کر کام کرتی ہیں اور ہائوس لیڈیز سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنے گھر میںایسیکام کرتی ہیں جنہیں اگر مرد گھر سے باہر کریں تو بدلے میں بھر پور معاوضہ وصول کرتے ہیں۔مثال کے طور پر اپنے گھر میں کپڑے دھونا اور کھانا پکانا صدیوں سے عورتوں کا معمول ہے، گھروں میں عورتوں کے ان کاموں کو نہ معاشی سرگرمی اور نہ ہی قابل معاوضہ عمل سمجھا جاتا ہے مگر یہی کام جب مرد گھروں سے باہر کرتے ہیں تو وہ ان کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
پتھر کے دور میں زندگی گزارنے والا انسان آج ترقی کی جس معراج کو پا چکا ہے اس کی بنیاد زراعت کو کہا جاتا ہے۔ زراعت جس انسانی ترقی کی بنیاد بنی کرہ ارض پر اس کا آغاز عورتوں نے کیا تھا۔ زراعت کا آغاز تو عورت ذات نے کیا مگر مردوں نے زرعی عمل کے ارتقا کے دوران اس کا کردار بتدریج محدود کرتے ہوئے اسے زرعی پیداوار کے مصارف سے لاتعلق کر دیا۔ اس کے بعد زرعی عوامل میں عورت کی محنت بیگار میں لیا گیا کام بن کر رہ گئی۔ عورت سے گھروں میں بیگار لیتے رہنی کے لیے اسے عزت و غیرت کے نام پر ہزاروں سال تک تعلیم کے حق سے محروم رکھا گیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جب دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت ہوئی تو عورت بھی اس نقل مکانی میں شامل ہوئی۔ دیہی سماج میں اگر عورت سے گھروں میں بیگار لی جاتی تھی تو صنعتوں میں ان سے کم اجرت پر وہ کام کروائے گئے جن کے لیے مردوں کو زیادہ معاوضہ دینا پڑتا تھا۔ اگرچہ عورتوں کو مردوں کی نسبت کم معاوضہ دے کر ان کا استحصال کیا گیا مگر کم اجرت لینے کے باوجود ان کا بیگار میں کام کرنے کا دور ختم ہوگیا۔ صنعتی انقلاب کے زیر اثر جو ارتقا ہوا اس کے نتیجے میں نہ صرف عورتوں کے لیے محنت کرنے کے نئے مواقع پیدا ہوئے بلکہ ان کے لیے علم حاصل کرنے اور جدید علوم سے بہرہ مند ہونے کے دروازے بھی کھلتے چلے گئے۔ عورتوں پر بند کیے گئے در جب کھلے تو انہوں نے ثابت کیا کہ جنسی تفریق کی بنیاد پر ان کو کام کرنے کے مواقع اور علوم سیکھنے سے محروم رکھا جانا کسی طرح بھی قابل جواز نہیں تھا۔ آج ترقی یافتہ ملکوں میں عورتیں ہر شعبہ زندگی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی نظر آرہی ہیں۔
ترقی پذیر ملکوں کے درمیان پچھلی صف پر کھڑے پاکستان جیسے ملکوں میں اگرچہ عورتوں کو ترقی یافتہ ملکوں کی خواتین جیسی شخصی آزادی اور حقوق حاصل نہیں ہو سکے مگر ماضی کی نسبت ان کی زندگیوں اور کردار میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ پاکستان میں برسر روزگار مردوں کی نسبت اگرچہ ورکنگ ویمن کی تعداد انتہائی کم ہے مگر گھروں سے باہر نکل کر دفاتر اور صنعتوں میں کام کرنے والی عورتوں کے حجم میں ہر برس اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں سکیل 01تا 15کی سرکاری ملازمتوں کے لیے عورتوں کا کوٹہ 5فیصد تھا جو 2012میں بڑھا کر 15فیصد کر دیا گیا۔ اگرچہ عورتوں کے لیے صرف 15فیصد کوٹہ مختص ہے مگر وہ مخصوص کوٹے کے علاوہ بھی اوپن میرٹ پر مردوں کا مقابلہ کر کے ملازمتیں حاصل کر لیتی ہیں۔ سرکاری ملازمتوں کے برعکس ، پرائیویٹ شعبہ میں عورتوں کے لیے کوئی کوٹہ مخصوص نہ ہونے کے باوجود اگر پرائیویٹ شعبہ میں عورتیں عام دفتری کارکنوں کی حیثیت سے کام کرنے کے علاوہ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز نظر آتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اوپن میرٹ پر نہ صرف خود کو اپنے جیسی خواتین بلکہ مردوں سے بھی بہتر ثابت کر کے ملازمتیں حاصل کی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ جس پرائیویٹ سیکٹر میں سب سے زیادہ ترجیح کاروباری مفادات کو دی جاتی ہے وہاں اگر خواتین اعلیٰ ترین عہدوں پر کام کرتی نظر آتی ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہاں کسی بھی خاتون کو ترس کھا کر نہیں بلکہ اس کی اہلیت کی بنیاد پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری شعبوں میں ورکنگ ویمن کے لیے کام کرنے کے مواقع تو پیدا ہو رہے ہیں مگر کہیں بھی عورتوں کے کام کرنے کی فضا سازگار اور بہتر بنانے کے لیے ضروری کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ جن اداروں میں عورتوں کے لیے کام کرنے مواقع پیدا ہورہے ہیں ، ان اداروں کا جب آغاز ہوا تو وہاں کا سیٹ اپ یہ بات نظر انداز کر کے تیار کیا گیا تھا کہ کبھی ان میں خواتین کے کام کرنے کا بھی امکان پیدا ہو سکتا ۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے جو سیٹ اپ صرف مردوں کے کام کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا اس کی فضا جوں کی توں ہونے کی وجہ سے کارکن عورتوں کے لیے سازگار نہیں سمجھی جاسکتی۔ کام کرنے کی جگہ اور بیرونی فضا ساز گار نہ ہونے کی وجہ سے ورکنگ ویمن کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ورکنگ ویمن کا مردوں کی نسبت ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مردوں کے سامنے گھر اور دفتر کے کام میں توازن رکھنے کا سوال نہیں ہوتا کیونکہ ان پر گھر کے کام کی عورتوں کی طرح کی ذمہ داریاں نہیں ہوتیں جبکہ عورت چاہے ماتحت ہو یا باس اسے ہر حال میں اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عورتوں کو یہاں جنسی امتیاز اور جنسی حراسگی جیسے واقعات کا کسی بھی وقت سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں کم تنخواہ، دفاتر کے مرد ساتھیوں کے منفی جملے دفتر میں آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی کمی جیسے مسائل کا سامنا صرف ورکنگ ویمن کو کرنا پڑتا ہے ۔ آج کے تبدیل شدہ دور میں جب عورتوں کا کام کرنا ناگزیر ہو چکا ہے تو ضروری ہے کہ کام کرنے کی جگہوں پر انہیں ہر حال میں سازگار ماحول فراہم کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button