ColumnTajamul Hussain Hashmi

11اگست1947ء : پاکستان کے ارکان اسمبلی سے خطاب

تجمل حسین ہاشمی
اس خطاب کو پاکستان کا پہلا منشور کہا جاتا ہے۔ اس خطاب میں قائد اعظمؒ نے ارکان اسمبلی سے کہا کہ حکومت کا بنیادی کام امن و امان قائم کرنا ہے۔ عوام کے جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کی مکمل حفاظت بھی حکومت ہی کام ہے۔ رشوت، بدعنوانی اور چور بازاری ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ ماضی اور باہمی تنازعات کو نظر انداز کرتے ہوئے باہمی تعاون کریں تو لازمی کامیابی ملے گی۔ آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہو یا آخری سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ اس کا کس فرقہ سے تعلق ہے اس کا رنگ، نسل اور عقیدہ کیا ہے۔
ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ 11اگست کی تاریخی تقریر میں قائد اعظمؒ نے فرقہ پرستی سے پاک ایک ایسے روشن خیال پاکستان کی بشارت دی تھی، جس کے شہری اپنے مذہبی، سیاسی اور مسلکی اختلاف کے باجود قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ 18اگست 1947ء کی پہلی عید کے موقع پر قائدؒ نے اپنے پیغام میں کہا کہ بلا شبہ ہم نے پاکستان حاصل کر لیا ہے۔ لیکن یہ صرف منزل کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے ان بھائیوں کو جو اب انڈیا میں اقلیت میں رہ گئے ہیں، نظرانداز کریں گے اور نہ ہی فراموش۔
3مارچ 2024: نو منتخب وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا ارکان اسمبلی سے خطاب
پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ موقع دوبارہ کبھی کسی سیاسی جماعت کو نہ مل سکے جو اس وقت مسلم لیگ ن کی قیادت کو مل چکا ہے۔ بڑا بھائی ملک کا تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہو اور قومی اسمبلی کا حصہ ہے۔ اس وقت چھوٹا بھائی وزیر اعظم منتخب ہو چکا ہے ۔ جناب منتخب وزیر اعظم صاحب بڑے صوبے کے تین دفعہ وزیر اعلیٰ اور اب دوسری دفعہ منتخب وزیر اعظم ہو چکے ہیں۔ خادم اعلیٰ کے نام سے مشہور شہباز شریف جن کے سر پرائز دورے اور سخت احکامات کی دھوم رہی، پورے ملک میں گھومتی رہی، لیکن 16ماہ کی وزارت میں ان کے سر پرائز دورے اور ایکشن بہت کم نظر آئے۔
میاں محمد شہباز شریف جو اعلیٰ اداروں کے ساتھ صلح جوئی کے ساتھ چلنے کا فن خوب جانتے ہیں ۔ اس لیے ان کا چہرہ دوسری بار پاکستان کی سکرین پر موجود ہے۔ جناب شہباز شریف 1988میں پہلی دفعہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے بعد 1990میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ، 1993سے 1996تک پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر رہے پھر 1997میں پہلی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو پنجاب میں لا اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال تھی ان کے وزیر اعلیٰ بنانے کے بعد صوبے میں امن بحال ہوا ۔ 2008میں دوبارہ پنجاب اسمبلی کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ تیسری مرتبہ 2013میں دوبارہ ن لیگی قیادت نے ان کو وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کیا اور وہ منتخب قرار پائے، قسمت کی دیوی ہر دور میں شریف برادران پر مہربان رہی پھر 2018میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپریل 2022میں تحریک عدم اعتماد کے پیش کے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کیا۔ وہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور آج 3مارچ 2024کو 201ووٹ لے کر دوسری بار وزیر اعظم پاکستان منتخب ہو کر پوری دنیا سے مبارک باد وصول کر رہے ہیں۔ قسمت کی دیوی شریف خاندان کے گرد گھومتی رہی، جمہوری پارٹی ہونے کے بعد بھی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کی فال اپنے کی خاندان میں نکلتا رہی۔ کئی رہنما جنہوں نے سالوں جیلوں میں گزارے، ماریں کھائیں لیکن فال ان کے حصہ میں نہ نکل سکی۔ قومی اسمبلی میں اس وقت دو بڑی سیاسی جماعت کے فیملی ( قائدین ) ممبر موجود ہیں اور پنجاب صوبائی اسمبلی میں بھی شریف خاندان براجمان ہے۔
دوسری بار منتخب وزیر اعظم نے قوم کو کیا نوید سنائی، وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم نے صبر و تحمل سے کام لیا، کبھی بدلے کی سیاست کا نہیں سوچا۔ نو منتخب وزیر اعظم نے اسمبلی فلور پر ایک گھنٹہ 22منٹ تقریر کی ۔ تقریر کے چند نقاط جو قابل غور رہے۔ 9مئی کو اداروں پر حملے کیے گئے، 9مئی کے مجرم قانون کا سامنا کریں گے، کھاد کمپنی کے بجائے کسانوں کو سبسڈی دیں گے، خواتین کو مردوں کے برابر تنخواہ اور حقوق دئیے جائیں گے، ٹیکس ریفنڈز میں تاخیر بڑا مسئلہ ہے، اعلان کرتا ہوں ایف بی آر ٹیکس ریفنڈز 10دن میں مہیا کرے، بجلی اور ٹیکس چوری قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، 5لاکھ نوجوانوں کو خصوصی تربیت دیں، وزیراعظم نے کہا کہ ایوان میں شور کے بجائے شعور کا راج ہونا چاہیے تھا، ہم آج تک 80ہزار ارب کے بیرونی اور اندرونی قرضے لے چکے ہیں، ہم مل کر پاکستان کو عظیم بنائیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ایک چیلنج بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے، بجلی کا گردشی قرضہ 2300 ارب روپے ہوگیا ہے، 3800 ارب کی بجلی ترسیل کی جاتی ہے اور 2800 ارب وصولی ہوتی ہے، بجلی کی پیداوار اور وصولی میں ایک ہزار ارب روپے کا فرق ہے۔ ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھیں گےاسرائیل نے ظلم اور تشدد کی انتہا کردی، وزیراعظم نے کہا کہ فلسطین، غزہ اور کشمیر میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے، دنیا ان کو روک نہیں سکی۔
کیا ن لیگ قیادت مہنگائی کو کنٹرول کر پائے گی
چند دن بعد ماہ رمضان ہے اور مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے پریشان لوگ منتخب حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن نو منتخب وزیر اعظم کے حلف لینے سے پہلے ہی غریبوں کو سخت فیصلہ سنا دیا گیا۔
ساڑھے 7ارب کے رمضان پیکیج میں 3بنیادی اشیاء ( آٹا چینی گھی ) پر شہری ریلیف سے محروم بجٹ 2023۔2024سیاسی نعرے بازی کا شکار رہا کوئی عوامی فیصلے نظر نہیں آئے۔ پاکستان کے کئی بڑے شہر اور خاص کر کراچی کھنڈر بن چکا ہے۔ کوئی تعمیراتی کام یا معاشی ریلیف نظر نہیں آیا۔ حکومت کی تشکیل کے دن میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے حکمران جماعت اور ان کے اتحادیوں کا کہنا تھا کہ ان حالات سے نکلنے کے لیے کم از کم ایک سال درکار ہو گا یہ بیانات وہ شخصیات دے رہی تھیں جو کئی کئی بار حکومتوں کا حصہ رہیں لیکن ملکی حالات میں چونی بھر کا بھی فرق نہیں آیا۔ آج میں فی کس آمدنی ادھر کھری ہے جہاں گزشتہ ادوار میں تھی، 16ماہ کی اتحادی حکومت کے دور میں ڈالر کی سمگلنگ کی خبریں مارکیٹ کی زینت رہی، چینی کی سمگلنگ اپنے عروج پر رہی۔ محکمہ فوڈ کے سیکرٹری زمان وٹو کو اینکر رئوف کلاسرا صاحب کے پروگرام میں سچ بولنے کی سزا دی گئی کیوں کہ شوگر انڈسٹری کے مالکان کے مفادات کو دھچکا لگا تھا۔ سابقہ سیکرٹری زمان وٹو کو قائد اعظمؒ کے فرمان کی پاسداری کی سزا دی گئی ۔ اس ملک میں طاقتوروں کی خوشنودی کے لیے جو کام کرے گا وہی سکون سے ملازمت کر پائے گا ورنہ سارا سال تبادلوں اور انکوائری کا سامنا کرتا رہے گا۔
مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کا سفر ؟
جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سابقہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے عوام سے اپیل کی تھی اور عوام کا فیصلہ تسلیم کرلیا ہے۔ سابقہ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر اتحادی مخلص ہوئے تو شہباز شریف میں قابلیت ہے کہ ملک کو دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتیں خلوص نیت سے شہباز شریف کا ساتھ دیں، ان کو سپورٹ کریں کیونکہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے والی قوتیں بھی لگی ہوئی ہیں۔ ن لیگی رہنما نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے تحریری معاہدہ نہیں ہوا، سپورٹ کی یقین دہانی کرائی ہے۔ 2022میں پاکستان تحریک انصاف کو سلیکٹڈ اور مہنگائی کی بنیاد پر 12سیاسی جماعتوں نے چلاتا کیا اور اس وقت پی ڈی ایم کے ایکٹو قائد مولانا فضل الرحمان تھے جو آج اس نو منتخب حکومت کے اپوزیشن ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے اور پارلیمنٹ اہمیت کھو رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو راضی کرنے کی کوششیں جاری ہیں میرے مطابق مولانا فضل الرحمان آنے والے مہینوں میں حکومت وقت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔
کیا اپوزیشن کوئی بڑا اتحاد بن سکتی ہے
ملکی معیشت اور انٹر نیشنل حالات کے پیش نظر کم از کم وقت قریب میں ایسا کوئی اتحاد بنتا ہوا نظر نہیں آ رہا لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگر نو منتخب حکومت عوام کو ریلیف نہ دے سکی تو حالات یکسر مختلف ہوں گے، الیکشن 2024 کے نتائج کو لے کر اس وقت تمام سیاسی جماعیوں ما سوائے ن لیگ کے سب کو خدشات ہیں اور زیادہ سیٹوں کا دعویٰ کرنے والی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ اور سابقہ وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط میں 30حلقوں کی پڑتال کے لیے کہا۔ لیکن بظاہر ایسے خطوط کی کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی کیوں کہ آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ ہے وہ کسی بھی ملک کے سیاسی معاملات پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔ آنے والے مہینوں میں کسی اتحاد سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت دوسری بار عوام کے سامنے کھڑی ہے لیکن 16ماہ میں سب سیاسی جماعتیں اقتدار اور وزارتوں کی حصہ دار تھیں لیکن گیم اس دفعہ تھوڑی مختلف ہے، ملکی حالات کو بہتری کی طرف گامزن کرنا آسان نہیں ہو گا لیکن ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی سمت سیدھی کر لے گی اور مہنگائی کو کنٹرول کر لے گی، وقت اور حالات سب کے سامنے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button