Editorial

وزیراعظم کی مراعات پر مبنی ٹیکس نظام کی خواہش

ملک عزیز اس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اتنے زیادہ مسائل اور مصائب سے ملک و قوم کو کبھی بھی واسطہ نہیں پڑا۔ اتنی زیادہ تاریخی مہنگائی پہلے کبھی نہ تھی جتنی اب نظر آتی ہے۔ اتنے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایسا پہلے نہ تھا۔ غربت میں ہولناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ غربت کے آسیب میں گھر گئے ہیں۔ ملک اور قوم کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں۔ معاشی بہتری کا چیلنج سرفہرست نظر آتا ہے کہ اس کے بغیر خوش حالی اور ترقی کی معراج کو نہیں پہنچا جاسکتا۔ ملک و قوم کی مشکلات کی بنیادی وجہ پاکستانی روپے کی تاریخی بے وقعتی کو ٹھہرایا جائے تو چنداں غلط نہ ہوگا۔ پچھلے پانچ چھ سال میں ڈالر پاکستانی روپے کو بُری طرح چت کرتا نظر آتا اور تاریخ کی بلند ترین سطح 330پر جا پہنچا۔ اگر نگراں حکومت ڈالر، گندم، چینی، سونا، کھاد اور دیگر اشیاء کے سمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کریک ڈائون کا آغاز نہ کرتی تو شاید یہ اب تک چار سو کی حد تک پہنچ کر مزید حشر سامانیاں بپا کر رہا ہوتا، لیکن قدرت کے فضل سے راست اقدامات کی بدولت ڈالر کے نرخ میں کمی اور پاکستانی روپے میں استحکام کا سلسلہ شروع ہوا اور آگے چل کر مزید بہتری کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اگر پاکستانی کرنسی کو اُس کا کھویا ہوا مقام اور وقار واپس دلادیا جائے تو ستر فیصد سے زائد مشکلات خود بخود حل ہوسکتی ہیں۔ مائونٹ ایورسٹ سر کرتی مہنگائی زمین بوس ہوسکتی ہے۔ بجلی، گیس کے نرخ مناسب سطح پر واپس آسکتے ہیں۔ کاروبار کی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔ بے روزگاری کے مسئلے کا حل نکل سکتا اور روزگار کے مواقع کشید ہوسکتے ہیں۔ چیلنجز بہت ہیں، لیکن یہ مشکلات حل ہوسکتی ہیں، بس ان کے لیے انتہائی سنجیدہ اقدامات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے، وسیع پیمانے پر اصلاحات ناگزیر ہیں، ملک و قوم کے مفاد میں قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے، وسائل بہت ہیں، انہیں درست خطوط پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے، غلطیوں کی چنداں گنجائش نہیں، اب صرف اور صرف تسلسل کے ساتھ اصلاحات کی داغ بیل ڈالتے ہوئے آگے بڑھنا ناگزیر ہے۔ گزشتہ ماہ عام انتخابات کے نتیجے میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے، اس کو سنگین مسائل سے نبردآزما ہونا پڑے گا، اسے حکومتی اخراجات کو محدود کرتے ہوئے کفایت شعاری سے امور مملکت چلانے ہوں گے۔ کابینہ کی تشکیل کا عمل باقی ہے، نومنتخب وزیراعظم منصب سنبھالتے ہی معیشت کی بہتری اور بحالی کے مشن پر لگ گئے ہیں اور اس حوالے سے خاصا فعال کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف نے قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ( پی آئی اے) کی نج کاری پر عمل درآمد کے لیے حتمی شیڈول طلب کرلیا۔ ایوان وزیراعظم سے بدھ کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ وزارت نجکاری ضروری اقدامات کے بعد آئندہ دو روز میں شیڈول پیش کرے۔ بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے سختی سے ہدایت کی کہ اس عمل میں کسی قسم کی سستی اور لاپروائی برداشت نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ تمام مراحل میں شفافیت کو 100فیصد یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت پی آئی اے کی نج کاری اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کی تنظیم نو سے متعلق گزشتہ روز اعلیٰ سطح کے اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کی اب تک کی پیش رفت اور اس ضمن میں آئندہ کے مراحل پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کی آٹو میشن، نظام میں شفافیت کو یقینی بنانے، عالمی معیار کے مطابق ڈھانچہ جاتی اصلاحات، مراعات کے ذریعے ٹیکس میں اضافے، کرپشن و اسمگلنگ کے خاتمے، ان لینڈ ریونیو اور کسٹم کے شعبے الگ کرنے اور ٹیکس ریٹ میں کمی پر پیش کردہ تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایف بی آر کی آٹو میشن کے نظام کے مجوزہ لائحہ عمل کی اصولی منظوری دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اب اس روڈمیپ پر وقت کے واضح تعین کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے۔ اجلاس میں ہدایات دی گئیں کہ اہداف کا تعین نہ صرف حقیقت پسندانہ ہو بلکہ عمل درآمد کی رفتار کے لحاظ سے خطے میں تیز ترین بھی ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں 24گھنٹے مسلسل محنت سے یہ ہدف حاصل کرنا ہے۔ ہمارے پاس ضائع کرنے کے لیے مزید ایک لمحہ بھی نہیں۔ یہ پاکستان کے روشن مستقبل اور معاشی بحالی کا سوال ہے۔ وزیراعظم نے وزارت قانون کو ہدایت کی کہ ٹیکس وصولیوں اور ریونیو سے متعلق عدالتوں میں زیر التواء مقدمات اور قانونی تنازعات کے حل کے لیے فی الفور سفارشات پیش کرے تاکہ انہیں حل کرکے قومی خزانے کو 1.7کھرب روپے کی فراہمی کے راستے میں حائل رکاوٹیں دُور ہوسکیں۔ وزیراعظم نے وزارت قانون کو ایف بی آر میں قانونی شعبہ کے قیام، ڈرافٹنگ کو قانون کے مطابق بنانے اور وکلا کی خدمات لینے کے حوالے سے تجاویز پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اصلاحات پر عمل درآمد کے نتیجے میں ہی چھ سے سات فیصد قومی شرح ترقی کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں اپنے ریونیو اور ٹیکس کے نظام کو جدید بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ مراعات پر مبنی ٹیکس نظام لانا چاہتے ہیں۔ ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کی پوری خواہش ہے لیکن عوام کی ترقی اور سماجی خدمت میں کاروباری برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرکے مدد کرنا ہوگی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ تمام ٹیکسوں پر دیے جانے والے استثنیٰ کی مکمل جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ قوم کو اُن سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں، اُمید ہے وہ ان پر پورا اُتریں گے۔ معاشی بحالی کے چیلنج سمیت دیگر مسائل سے احسن انداز میں نبردآزما ہوں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ملکی خزانے پر بہت سے سرکاری ادارے عرصہ دراز سے بھاری بھر کم بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ ان کے خسارے میں رہنے کے باعث حکومت کی مشکلات بڑھتی ہیں۔ ان کو چلانے کی بارہا کوششیں کی جا چکیں، لیکن بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ ایسے اداروں کی نج کاری کے سوا اور کوئی راہ نہیں بچتی۔ اس لیے ان کی نج کاری کے معاملات کو جلد از جلد طے کرنے کی ضرورت ہے۔ مراعات پر مبنی ٹیکس نظام بہتری کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں معاملات کو جلد از جلد حتمی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ نومنتخب حکومت کے لیے اقتدار کانٹوں سے پُر راہ ہے، جس پر ہر ہر قدم انتہائی احتیاط سے اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نگراں دور سے قبل سولہ ماہ تک وزارت عظمیٰ پر متمکن رہے ہیں، اُنہیں حکومت کا نظام چلانے کا تجربہ ہے، پنجاب کے کافی سال تک وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور ان کے دور میں پنجاب کے تمام شہروں اور عوام کی زندگیوں میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ ان شاء اللہ وزارت عظمیٰ کے منصب کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہوئے میاں شہباز شریف حقیقی خادم پاکستان ہونے کا بھرپور مظاہرہ کریں گے اور ملک و قوم کی تمام مشکلات اور مسائل کو حل کرکے سرخرو ہوں گے۔
غزہ کا نوحہ، تیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید
فلسطین پر ناجائز دہشت گرد ریاست اسرائیل کے حملوں کو پانچ ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔ ان پانچ مہینوں میں دُنیا کے اُن تمام مہذب ممالک کا فاش چہرہ سامنے آچکا ہے جو
انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔ اُن کا دوغلا چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔ اب چاہے وہ خود کو کتنا ہی مہذب گردان لیں، تاریخ میں اُن کے مذموم کردار کو کسی طور پوشیدہ نہیں رکھا جاسکے گا۔ تیس ہزار سات سو سے زائد فلسطینیوں کو اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں شہید کیا جاچکا ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ غزہ کا پورا انفرا سٹرکچر برباد ہوچکا ہے۔ عمارتیں ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ ان ملبوں تلے کتنے زندہ ہیں اور کتنے داعی اجل کو لبیک کہہ چکے، کوئی شمار نہیں۔ کہیں اولادیں اپنے والدین کی موت پر غم میں ڈوبی ہوئی ہیں تو کہیں ماں باپ اپنے بچوں کی شہادت پر ماتم کناں ہیں۔ انسانیت سوز مظالم جاری ہیں۔ جنگی اصولوں کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی گئی ہیں۔ اسپتالوں پر حملے ہورہے ہیں، اسکولوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، مساجد محفوظ ہیں نہ امدادی اداروں کے مراکز۔ امراض اور وبائیں پھوٹ پڑی ہیں۔ بچے خاص طور پر متاثر ہیں۔ خوراک کا بدترین بحران اور قلت ہے۔ مجال ہے نام نہاد مہذب دُنیا میں سے کسی نے اسرائیل کے خلاف ایک بھی اقدام کیا ہو کہ وہ اس سے باز آسکے۔ اسرائیل نے جب غزہ پر حملوں کا آغاز کیا تو بعض ملک اُس کی پیٹھ تھپتھپاتے دکھائی دئیے اور وہ تواتر سے اُسے مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم ٹھہراتے نہیں تھک رہے تھے۔ پانچ ماہ قبل اس قضیے کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب حماس نے اسرائیل پر پانچ ہزار راکٹ فائر کیے۔ فلسطینی مسلمان آخر کب تک اسرائیلی مظالم کو برداشت کرتے رہتے۔ برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصے سے اسرائیل نے فلسطین میں کیا کیا مظالم کے پہاڑ نہیں توڑ رکھے۔ بے شمار لوگوں کو بے گناہ موت کے گھاٹ اُتارا جاتا رہتا ہے۔ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد الاقصیٰ کے تقدس کی پامالی کی ڈھیروں مثالیں ہیں۔ فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ کوئی اسرائیل کے خلاف کچھ نہیں کرتا۔ بیانات سے کام چلایا جاتا ہے۔ اس پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں نہ اس کا ناطقہ بند کیا جاتا ہے۔ اسرائیل اور شیر ہوتا اور مظالم میں تیزی لاتا ہے۔ اسی لیے فلسطینیوں نے اپنی جنگ خود لڑنے کا فیصلہ کیا اور ظالم کے خلاف کم طاقت رکھنے کے باوجود اُٹھ کھڑے ہوئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے 150دن مکمل ہوگئے، صیہونی دہشت گردی سے غزہ کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی حملوں میں مزید 86فلسطینی شہید اور 113زخمی ہوگئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 7اکتوبر سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب تک تیس ہزار 717فلسطینی شہید اور 72ہزار 156زخمی ہوچکے ہیں جبکہ غزہ میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے ایک ہفتے میں تیسرا حملہ کیا، حملے میں متعدد فلسطینی شہید جب کہ کئی زخمی ہوگئے۔ پوری دُنیا اسرائیل سے جنگ بندی کے مطالبات کرتے کرتے تھک گئی ہے۔ اقوام متحدہ بھی بارہا مطالبات کے سلسلے جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن ڈھیٹ اسرائیل پر کسی کی کوئی بات اثر نہیں کر رہی۔ ظالم جب بربادی کی کھائی میں گرنے والا ہوتا ہے تو اس کا یہی طرز عمل ہوتا ہے۔ اسرائیل کا بھی وقت اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ اسی لیے اس کے مظالم میں شدت آگئی ہے۔ وہ خود کو زمین پر خدا تصور کرنے لگا ہے، تاریخ انسانی میں ایسے ہزاروں زمینی فرعون مٹ چکے ہیں، اسرائیل بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا، اس کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ مظلوموں کی پکار رائیگاں نہیں جائے گی، رب العزت کی مدد شامل حال ہوگی اور ان شاء اللہ فلسطینی اسرائیل پر فتح حاصل کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button