ادب

نئی فلمی ہیروئن سے انٹرویو

انٹرویو شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو نئی اور پرانی ہیروئن کا فرق سمجھا دوں۔

پرانی ہیروئن عقل رکھتی تھی۔ نئی ہیروئن امپالا رکھتی ہے۔ پرانی ہیروئن ایکٹنگ کرتی تھی، نئی ہیروئن نخرہ کرتی ہے۔ نئی ہیروئن اپنے سر پر گھونسلہ بناتی ہے جس میں نہ کوئی بچہ پالتی ہے نہ کوئی دماغ رکھتی ہے۔ پرانی ہیروئن بیچاری ہر روز شوٹنگ سے دو گھنٹے پہلے اسٹوڈیو پہنچ جاتی تھی۔ اپنی ماں کے ساتھ۔ نئی ہیروئن دو گھنٹے بعد پہنچتی ہے اور اپنے عاشق کے ساتھ۔ آج کل ماں کو ساتھ لے جانے کا فیشن ختم ہوگیا ہے اور جو فیشن اب شروع ہوا ہے اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس لیے کہ عاشق اور آفت کبھی ٹالے سے نہیں ٹلتے۔

’’فلم شیئر ویکلی‘‘ کے ایڈیٹر نے مجھے نئی ہیروئن سے انٹرویو کا کام سونپا تھا۔ اس ویکلی کے ایڈیٹر اور مالک شری بی- ڈی- کھوکا ہیں۔ ان کا اصلی نام بھگوان داس کھوکا ہے۔ لیکن دراصل وہ کھلے عام ایک دھوکا ہیں۔ فلم ویکلی شروع کرنے سے پہلے وہ خالی کھوکے بیچتے تھے۔ پیشے کی مناسبت سے انہوں نے اپنا نام بھی کھوکا رکھ لیا ہے۔

شری کھوکا نے مجھے اپنے اخبار کا لیٹر پیڈ تھمایا اور نئی ہیروئن سے جلد سے جلد دیوالی نمبر کے لیے انٹرویو لینے کے لیے روانہ کردیا۔

میں نے جلدی سے ایک ٹیکسی پکڑی۔ ڈرائیور کو ہیروئن کے گھر کا اتا پتا بتایا۔ لیکن ڈرائیور نے کہا ’’یہ پتہ تو ایک دم کنڈم ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ پتہ تو گئے مہینے کا ہے۔ اس وقت اس چھوکری کے پاس کام نہیں تھا اور اچھا سا نام بھی نہ تھا۔ اب تو وہ گلفام بلڈنگ میں رہتی ہے۔ سولہویں سڑک پر۔ اب اس کے پاس کام بھی ہے اور نام بھی ہے۔‘‘ پھر ٹھہر کے بولا۔ ’’اور دام بھی!‘‘

میں نے دل ہی دل میں ڈرائیور کی اس موزونیِ طبع کی داد دی۔ ڈرائیور نے ایک لمبی سانس لی اور بولا۔ ’’کلجگ ہے۔ کلجگ!‘‘

میں نے کہا ’’نہیں نہیں، اس کی آنے والی فلم کا نام نیا یگ ہے، کلجگ نہیں ہے۔‘‘

ڈرائیور نے بیزاری سے کہا ’’ہم فلم کی بات نئیں کرتا ہے، ‘جمانے’ کی بات کرتا ہے۔‘‘

یہ تو زمانے کی بات کرتا ہے، میں نے سوچا اب غالباً اپنے پرانے زمانے کی بات چھیڑے گا، مگر ڈرائیور نے باتوں کا گیئر بدلتے ہوئے پوچھا۔

’’کِدر سے چلنا ہے؟ کنگ روڈ سے یا گھوڑ بندر روڈ سے؟‘‘

’’گھوڑ بندر روڈ سے‘‘ میں نے کہا اور خود سڑک کے شاعرانہ نام پر غور کرنے لگی۔ بمبئی کو عروس البلاد یعنی شہروں کی دلہن کہا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک یہاں کی سڑکوں اور گلیوں کے نام کا تعلق ہے انہیں خوبصورت دلہنوں جیسے نام نہیں، جانوروں کے نام دیے جاتے ہیں اور جانوروں میں بھی اہل بمبئی کو گھوڑے اور بندر سے بڑی الفت ہے۔ جیسے بوری بندر، گھوڑ بندر، کالا گھوڑا۔

ٹیکسی پندرھویں سڑک پر پہنچی اور ہیروئن کا فلیٹ سولھویں سڑک پر تھا۔ بظاہر معمولی سی گنتی جاننے والے کے لیے بھی یہ فاصلہ برائے نام تھا۔ بچپن سے سنتے بلکہ گنتے آئے ہیں کہ پندرہ کے بعد ہمیشہ سولہ کا ہندسہ آتا ہے۔ لیکن بمبئی کی میونسپلٹی نے اس اتنی بڑی حقیقت کو جھٹلانے میں بڑی کام یابی حاصل کی ہے۔ غالباً بمبئی کی سڑکیں بعد میں بنی تھیں۔ ان کے نمبر پہلے رکھ لیے گئے تھے۔ اس میں سڑکوں یا سڑکوں پر چلنے والوں کی سہولت اتنی پیش نظر نہ تھی جتنی کہ نمبر ڈالنے والوں کی آسانی۔ پندرہویں سڑک کے بعد جب ہم اگلی سڑک پر مڑے جسے قاعدے سے سولھویں سڑک ہونا چاہیے تھا تو وہاں سڑک کا انیسواں نمبر لگا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے تو میں چکرا گئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایک ہی لمحے میں یہ کایا یعنی سڑک کیسے پلٹ گئی؟ بہت دنوں سے بمبئی میں کوئی زلزلہ بھی نہ آیا تھا۔ پھر اچانک خیال آیا کہ کہیں جلدی میں ہم بمبئی کے بجائے کوئنا تو نہیں پہنچ گئے ہیں۔

گھڑی دیکھی تو شام کے چھ بجنے والے تھے اور یہی وقت انٹرویو کے لیے بھی مقرر کیا گیا تھا۔ انیسویں سڑک پر کھڑے ہوکر سولھویں سڑک کاانتظار کرنے میں کوئی فائدہ نہ تھا۔ مشکل یوں آسان ہوئی کہ ہمارے برابر سے ایک بڑی سی شورلٹ گاڑی ٹیکسی کے قریب سے گزر گئی۔ شورَلٹ نے جس انداز سے ٹیکسی سے اپنا دامن بچایا تھا اس سے بخوبی اندازہ ہوتا تھا کہ یہ اعلیٰ حسب نسب کی گاڑی بے بس نہیں ناراض ہے۔ ضرور اس میں کوئی راز ہے یعنی اس کے اندر ایک عدد ہیرو اور اس کی دمساز ہے۔

اور جب ڈری سہمی ہوئی ہماری ٹیکسی اپنے حساب سے تیسویں سڑک پر مڑی تو سامنے سولھویں سڑک کا پتھر جڑا تھا اور بلڈنگ کے سامنے ایک کتا کھڑا تھا اور پھاٹک پر ایک دربان بیٹھا تھا۔

کتّے اور دربان کے تیور کو دیکھ کے آسانی سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ کتّا کب بولنے لگے گا اور دربان کب کاٹنے لگے گا۔ اسی لیے تو لوگ باگ فلمی ہیروئن کے کتے اور رنگ بھون کے دربان سے بہت گھبراتے ہیں۔

دربان اور کتّے سے اجازت لیتی ہوئی میں جلدی سے ہیروئن کے فلیٹ کے دروازے پر پہنچ گئی، دروازہ اندر سے بند تھا۔ میں نے دروازے میں بنی ہوئی جھری سے آنکھ لگائی تو ادھر سے بھی ایک آنکھ نظر آئی۔ گویا:

دونوں طرف تھی آنکھ برابر لگی ہوئی

گھنٹی بجائی تو پائل کی سی جھنکار بجتی ہی چلی گئی۔ یہ نئی گھنٹی کانغمہ تھا۔ نئی ہیروئن کی ابتدا نئی گھنٹی سے ہوئی تھی۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا۔ نام پوچھا گیا۔ کام پوچھا گیا۔ اور پھر اندر آنے کی اجازت ملی۔

میرے اندر جاتے ہی دروازہ پھر بند ہوگیا۔ نیا نیا فلیٹ تھا۔ نیا نیا فرنیچر تھا۔ نئی ہیروئن کی خوشبو کے بجائے فضا میں نئے وارنش کی مہک رچی ہوئی تھی، جیسے ہیروئن کی شہرت کا وارنش بھی نیا نیا تھا۔ میرے سامنے ایک سن رسیدہ خاتون اپنے سائز سے بڑا ہاؤس کوٹ پہنے کھڑی تھیں۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے اپنی دنیا دیکھی ہوئی آنکھ کے ایک کونے سے جس طرح کا اشارہ کیا اس سے میں یہ نہ سمجھ سکی کہ انہوں نے مجھے بیٹھنے کے لیے کہا یا کسی مکھی کو اڑایا ہے۔

میں بیٹھ گئی تو وہ بھی بیٹھ گئی۔ میں نے پوچھا ’’مس گلنار کب تک مل سکیں گی؟‘‘

وہ بولیں۔ ’’بی بی کو فرصت کہاں ہے۔ آپ سے ملنے کے لیے اس وقت اس نے سات پروڈیوسروں کو اور سات ہیروؤں کو ٹالا ہے۔

’’بڑی مہربانی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ سامنے کا پردہ ہلا اور مس گلنار ہماری نئی ہیروئن کسی نئے پوسٹر کی طرح چمکتی دمکتی تشریف لے آئیں۔

میں نے اپنی نوٹ بک سنبھالی، انھوں نے اپنے بالوں کی لٹ سنبھالی۔ میں نے قلم نکالا، انہوں نے رومال نکالا۔

میں نے پوچھا ’’مس گلنار آپ کو فلم لائن میں لانے کا سہرا کس کے سر بندھنا چاہیے؟‘‘ پتہ نہیں انہوں نے میرا سوال سمجھا کہ نہیں سمجھا۔ لیکن سہرے کے نام پر بہت شرمائیں، کہنے لگیں:

’’ابھی تو میری شادی ہوئی نہیں ہے۔ مجھے کیا پتہ سہرا کس کے سر بندھے گا۔‘‘

میرا دوسرا سوال تھا۔ ’’آپ کی خوبصورتی کا راز کیا ہے؟‘‘

بولی: ’’پنٹو اور سندرم‘‘

میں نے حیرت سے پوچھا ’’پنٹو اور سندرم کون ہیں؟‘‘

وہ بولیں ’’ایک پالش والا ہے، ایک مالش والا ہے۔ پنٹو میک اپ کرتا ہے۔ سندرم مالش کرتا ہے، وہی دونوں میری خوبصورتی کا راز جانتے ہیں۔‘‘

اگلا سوال تھا۔ ’’آپ کب پیدا ہوئی تھیں؟‘‘

اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہیروئن نے اپنی ماں سے پوچھا ’’ممی۔ میں کب پیدا ہوئی تھی؟‘‘

ممی بولیں: ’’پیدا…پیدا تو تم ہوئی تھیں، بیشک پیدا ہوئی تھیں۔‘‘

میں نے پوچھا ’’مس گلنار جب یہ ثابت ہو ہی چکی ہے کہ آپ بیشک پیدا ہوئی تھیں تو یہ بھی بتا دیجیے کس دن اور کس تاریخ کو آپ کا جنم ہوا تھا۔‘‘

اس کا جواب بھی مس گلنار کی بجائے ان کی والدہ نے دیا۔ بڑے بھروسے سے بولیں:

’’دن میں کیا رکھا ہے جی۔ سب دن ایک سے ہوتے ہیں۔ ویسے برسات کا دن تھا شاید اور تاریخ۔۔۔ تو میرا خیال ہے کہ تاریخ بھی ضرور کوئی تھی!‘‘ کسی ماہر سیاست داں کی طرح وہ بولیں۔

’’اجی تاریخیں بھی کون سی سو دو سو ہوتی ہیں۔ وہی تیس اکتیس کے دن ہوتے ہیں۔ اسی میں سے کوئی تاریخ سمجھ لیجیے۔ ہاں فروری کے دو دن گھٹا دیجیے گا۔‘‘

یوم پیدائش اور تاریخ پوچھنے کے بعد میں نے پوچھا:

’’آپ کہاں کی رہنے والی ہیں؟‘‘

مس گلنار نے کہا ’’میں تو زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتی ہوں۔‘‘

’’ٹھیک ہے، اس سے بہتر جگہ رہنے کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے۔ آپ کس طرح کے گیمز پسند کرتی ہیں آوٹ ڈور یا اِن ڈور؟‘‘

بولیں۔ ’’اب گیمز کے لیے وقت ہی کہاں ملتا ہے۔ ویسے شوٹنگ آوٹ ڈور ہی پسند کرتی ہوں۔‘‘

’’اچھا مس گلنار یہ بتائیے کہ آپ کا پسندیدہ رنگ کون سا ہے؟‘‘

مسکرا کر بولیں ’’پہلے تو بہت سارے رنگ پسند تھے، اب تو بس سارنگ پسند ہے۔‘‘

جی، میں نے گھبرا کے پوچھا ’’سارنگ، یہ کس طرح کا رنگ ہے۔‘‘

’’جی یہ میری نئی فلم کا پروڈیوسر ہے۔ اپنا سارنگ!‘‘

’’ٹھیک ہے ٹھیک! اور مس گلنار! آپ کو کھانے پینے میں کیا کیا چیزیں پسند ہیں اور کیا کیا چیزیں ناپسند ہیں؟‘‘

’’کھانے کی چیزوں میں مجھے چِیز پسند ہے اور پینے کی چیزوں میں بس پانی کو ناپسند کرتی ہوں۔‘‘

’’آپ کس طرح کے رول پسند کرتی ہیں، ٹریجک یا کامیڈی کے؟‘‘

بہت سوچ کے مس گلنار بولیں: ’’مجھے وہ ٹریجڈی اچھی لگتی ہے جو آخر میں کامیڈی بن جائے۔‘‘

ہیروئن کی ماں، بیٹی کے اس جواب سے بہت متاثر ہوئیں اور بڑے فخر سے اس کی جانب دیکھ کے مجھ سے بولیں:

’’یہ بچپن سے بڑی انٹیلیجنٹ ہے جی، بالکل مجھ پر پڑی ہے۔‘‘

’’بیشک آپ کی بیٹی کا شمار ہیروئن میں بھی ہوسکتا ہے۔ اور انٹلکچوئلز میں بھی۔‘‘ میں نے کہا ’’اور بات جب انٹلکٹ پر پہنچ گئی ہے تو کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ مرزا غالبؔ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔‘‘

مس گلنار مسکرا کر بولیں ’’غالب تو اس کا قلمی نام تھا۔ اصلی نام تو بھارت بھوشن تھا جی اس کا۔‘‘

’’جی؟‘‘

’’جی ہاں، میں نے بہت بچپن میں یہ پکچر دیکھی تھی، اب تو اس کی اسٹوری ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔‘‘

’’آئیے! اب کچھ شعر و ادب کے بارے میں بات ہو جائے۔‘‘

مس گلنار بولیں: ’’شیر تو مدھیہ پردیش کے فارسٹ میں بہت ملتا ہے۔ کوئی کوئی لوگ ہاتھی کا شکار بھی کرتا ہے۔ پر ‘عجب’ کا شکار ہم نے کبھی نہیں سنا۔‘‘

’’عجب نہیں مِس گلنار! ادب! ساہتیہ! لٹریچر۔‘‘

’’اچھا اچھا وہ ادب جو ڈائیلاگ رائٹر لکھتا ہے؟‘‘

’’جی ہاں، میرا مطلب اسی ادب سے ہے!‘‘ میں نے کہا: غالبؔ کا یہ شعر آپ کو کیسا لگتا ہے۔

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو

نہ ہو جب دل ہی پہلو میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

مس گلنار بہت حیران ہوکے بول اٹھیں۔

’’نوا سنجے؟ سنجے تو جونا اسٹار ہے۔ وہ نوا تو نہیں ہے۔‘‘ اس جواب پر میں جھوم اٹھی۔ پھر میں نے پوچھا:

’’اور مس گلنار! آرٹ کے متعلق بھی ہمارے پاٹھک آپ کی رائے جاننا چاہیں گے۔‘‘

’’اوہ آرٹ۔۔۔ سچ ۔۔۔آرٹ بہت گریٹ ہوتا ہے۔‘‘

’’آپ کو کون سا آرٹ پسند ہے؟‘‘

’’اجنتا آرٹس۔ وہاں تو میں اکثر جاتی رہتی ہوں۔ نرگس اور سنیل دت سے ملنے۔‘‘

ہیروئن نے جواب دیا اور اب میرے ضبط نے بھی جواب دے دیا تھا خاموشی سے میں نے کاغذ سنبھالے اور ہیروئن کاشکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوگئی۔

واپسی پر جب ٹیکسی آدھا فاصلہ طے کرچکی تو میں نے گھبراکر ڈرائیور سے کہا ’’ٹیکسی واپس لے چلو! میں ہیروئن کے فوٹو لانا بھول ہی گئی ہوں۔‘‘

’’تو اتنی دیر تک آپ کیا کرتی رہیں۔‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے کہا: ’’ہیروئن سے تو بس فوٹو ہی لیے جاتے ہیں۔ باقی سب کچھ تو اخبار والے خود ہی لکھتے ہیں۔‘‘

’’ایں؟ تمہیں کیسے پتہ۔؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔

ڈرائیور نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولا ’’پہلے میں بھی فلم کا ہیرو تھا۔‘‘

(بھارتی افسانہ نگار سلمیٰ صدیقی کی فکاہیہ تحریر)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button