خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کے دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کی سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
شاعر مشرق علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں، بلکہ عظیم مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔اقبال ایک ایسے مفکر ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف اور متنوع مسائل پر برسوں مسلسل غور وفکر کے بعد اپنے کلام اور نثری مقالہ جات کے ذریعے ایسے پرازحکمت اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔جنہوں نے دنیا کے لوگوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ علامہ اقبال نے انسان کو خودی کے درس میں خود شناسی کا پیغام دیاہے یعنی آدمی خود کو پہچانے، اپنی معرفت حاصل کرے اور یہ سوچے کہ اسے اللہ نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے ،اس نے کہاں جانا ہے؟اور یہ کس لئے آیا ہے، اس لئے اقبال کی خودی خود شناسی ہے، معرفت نفس ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا بھی ایک خاص پس منظر ہے، یورپ میں قیام کے زمانے میں انھوں نے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ایران کی مختلف ادبی اور لسانی تحریکوں اور لٹریچر کو بادقت نظر دیکھا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اسلامی تہذیب کی ابتری خصوصا جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی تباہی کی ذمہ دار وہ فارسی شاعری بھی ہے جس نے افلاطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں کو خشک کر دیا، اس کے بعد بے عملی اور کاہلی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا، افراد میں خودی اور خود داری ختم ہوکر رہ گئی اور ذلت و شکست موجب عار نہ رہی اور بے عملی،کاہلی ایک روگ کی شکل اختیار کر گئی اور یہ روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرتا گیا۔ علامہ اقبال اس روگ سے اپنی قوم کو نجات دلانا چاہتے تھے اور اس روگ سے نجات دلانے کا واحد ذریعہ’ فلسفہ خودی‘ مختلف انداز میں جگہ جگہ بیان کیا ۔کہیں یہ بتایا کہ لااِلٰہ کا اصل راز خودی ہے، توحید خودی کی تلوار کو تابدار بناتی ہے اور خودی عقیدہ توحید کی محافظ ہے
خودی کا سرِّ نہاں لااِلٰہ اِللہ
خودی ہے تیغ فساں لااِلٰہ اِللہ
بعض مقامات پر فلسفہ خودی اس انداز میں بتایا گیا کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے۔علامہ اقبال کے مجموعہ کلام کو بغور دیکھا جاے تو اس میں اْن کا فلسفہ خودی غالب ہے۔آپ نے مختلف انداز میں خودی کا مفہوم قوم کے سامنے رکھا۔ اقبال سے پہلے‘‘خودی ’’کے معانی غرور،تکبر اور عز و ناز کے لیے جاتے تھے،لیکن اقبال نے پہلی مرتبہ اْسے ایک فصیح و بلیغ مفہوم عطا کیا۔اقبال نے بتایا کہ خودی کے معنیٰ‘‘قرب’’کے لیے ہیں۔خودی یقین کی گہرائی ہے،سوزِ حیات ہے،ذوقِ تخلیق ہے،خود آگاہی ہے،عبادت ہے۔اسی لیے اقبال تربیتِ خودی کو تعلیم کا پہلا زینہ قرار دیتے ہیں۔ جو نوجوان اس سے نا آشنا ہے اس کی تربیت نا مکمل اور زندگی بے کار ہے۔
علامہ اقبالؒکے فلسفہ خودی کو سمجھنے کیلئے ان کی شاعری کے ابتدائی دور کی کئی نظمیں اس لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ ان میں اقبال نے فلسفہ خودی کے کئی عناصر کو اپنی ابتدائی اور خام انداز میں ذکر کیا ہے۔بعض ماہرین اقبالیات کا یہ کہنا ہے کہ فلسفہ خودی اقبال کی شاعری کے آخری دور میںواضح ہوا لیکن کلام اقبال کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ فلسفہ خودی اقبال کے کلام کے ہردور کا حصہ رہا ہے البتہ اسکا انداز ہر دور میں مختلف نظر آتاہے۔ ان ہی ابتدائی اجزاء نے آگے چل کر اپنی صورت واضح کی اور اس کا نام فلسفہ خودی قرار پایا۔اقبال کے اس فلسفہ خودی کے درج ذیل عناصر ہیں۔
1:اقبال کے فلسفہ خودی میں بندہ مومن کی فضیلت، اسکی استعداد اور اعلی صلاحیتوں پر بڑا زور دیا گیا ہے۔اور بتایا گیا ہے کہ بندہ مومن کے اجزا ترکیبی میں اگر خودی کا عنصر شامل نہ ہو تو وہ بندہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔
2:فلسفہ خودی کا دوسرا بڑا عنصر عشق اور عقل کی معرکہ آرائی ہے اور اقبال نے ہمیشہ عشق کی برتری کا اظہار ہے۔
3:فلسفہ خودی کا ایک اور عنصر خیر و شر کی کشمکش ہے جو کائنات میں ہر آن جاری ہے۔
4 :علامہ ؒ فلسفہ خودی میں زندگی کی جہد مسلسل کو بھی ایک عنصرخیال کرتے ہیں۔
5:فلسفہ خودی کا ایک بہت بڑا عنصر حیاتِ جاودانی اور بقائے دوام کا تصور ہے۔چنانچہ علامہ اقبال کے فلسفہ خودی سے آگہی کیلئے ضروری ہے کہ نصاب میں کلام اقبال کے وہ حصے شامل کیے جائیں جو آدمی کو خود شناسی اور خدا شناسی کا درس دیتے ہوں۔