چینی مصنفہ یانگ مو کا یہ ناول ایک صحافی دوست نے مجھے کئی ماہ پہلے تجویز کیا تھا۔ 1958 میں لکھے جانے والے اس ناول ‘The Song of Youth’ کا اردو ترجمہ آر بی پبلشرز کراچی نے ‘نوجوانوں کا گیت’ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ بعد میں پاکستانی حکام کو لگا کہ کمیونزم کی حمایت کرنے والی یہ کتاب ہماری نظریاتی سرحدوں پر حملہ ہے، شاید اس لیے اس پر غیراعلانیہ پابندی لگا دی گئی اور یوں یہ کتاب مارکیٹ سے غائب ہو گئی۔ صحیح کہا کسی نے، ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ میں فیس بک پر ایک گروپ میں شامل ہوں اور وہاں سے یہ سیکنڈ ہینڈ کتاب میں نے ایک دوست سے خریدی۔ کافی ضخیم ناول ہے اس لیے پچھلے دس یا پندرہ دنوں میں وقفے وقفے سے پڑھ کر ختم کر چکا ہوں۔ میں کتابوں پر پابندی کا بالکل مخالف ہوں لیکن اس کتاب میں مجھے ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی جس کے باعث اس پر پابندی لگائی جائے
ناول ‘نوجوانوں کا گیت’ 1930 کے عشرے میں پیکنگ کے طلبہ کی حب الوطنی پر مبنی تحریک کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ 1931 میں جاپان نے شمال مشرقی چین پر قبضہ کیا اور 1935 میں وہاں جاپان کے خلاف مزاحمت شروع ہو گئی۔ یہ اسی دور کی کہانی ہے اور ان واقعات اور حالات کا احاطہ کرتی ہے۔ یکم اگست 1927 کو چین میں چیانگ کائی شیک کی کومنتاگ حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی جو 7 دسمبر 1949 کو کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار سنھبالنے پر اختتام پذیر ہوئی۔
‘نوجوانوں کا گیت’ ان نوجوان دانشوروں کی داستان ہے جنہوں نے کمیونسٹ پارٹی کی زیر قیادت جاپانی سامراج کی جارحیت اور حکومت کرنے والے چیانگ کائی شیک کی حکمران نیشنلسٹ جماعت کومنتانگ کی جاپان سے متعلق اطاعت پسندانہ پالیسی کی مخالفت کی تھی۔
یہ کتاب اس وقت کے چین کے ترقی پسندوں اور رجعت پسندوں کے مابین ہونے والی جدوجہد کی کہانی ہے جس میں ہر فریق یہ کوشش کرتا ہے کہ درمیان میں رہنے والے کو قائل کر کے اپنے ساتھ ملائے۔
ناول کومنتانگ خفیہ پولیس اور طلبہ کے درمیان ہونے والی سیاسی آنکھ مچولی کی داستان ہے جس میں بالآخر کومنتاگ خفیہ پولیس کو ریاستی وسائل کے باوجود شکست ہو جاتی ہے جبکہ محب وطن طلبہ جو چین کی خودمختاری اور آزادی کی بات کرتے ہیں، جیت جاتے ہیں۔
ناول کی ہیروئن لین تاؤ چھینگ ایک نوجوان کومل سی لڑکی ہے جو ذاتی زندگی کے مصائب اور تکالیف سہہ کر آسودہ حال معاشرے کی خاطر ایک پختہ کار انقلابی بن جاتی ہے۔ لین تاؤ چھینگ انقلاب کی خاطر اپنی ذاتی زندگی تک بھول جاتی ہے۔ لیکن بالآخر اپنے حصے کی جدوجہد اور طلبہ کی بیداری میں کامیاب ہو جاتی ہے۔
اس ناول میں اس وقت کے چینی معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے۔ خواتین، مزدوروں، طلبہ اور مزارعوں کے مسائل بیان کیے گئے ہیں جو تقریباً دنیا کے ہر کونے میں ایک جیسے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس کتاب نے کمیونزم کے حوالے سے مجھے کئی باتیں سمجھائیں۔ کمیونزم طبقاتی جدوجہد کا نام ہے جس میں کمزور طبقوں کی خاطر طاقتور استحصالی طبقوں کو للکارا جاتا ہے۔ کمیونزم میں ذاتی اغراض اور ذاتی آسائشوں کو اجتماعی مفاد اور آسودگی کی خاطر قربان کیا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر کمیونسٹ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کمیونزم کا نعرہ لگاتے ہیں جو کہ خود کمیونزم کی نفی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے کمیونسٹ اپنے ذاتی مقاصد اور بورژوا لائف سٹائل کے لیے پرولتاریہ کے حقوق کے نعرے لگاتے ہیں۔
وہ طبقہ جو محنت مشقت کر کے مصنوعات تیار کرے یا پیداوار بڑھائے اور اس کی تیار کردہ مصنوعات سے حاصل ہونے والی دولت زردار سمیٹ لے، پرولتاری کہلاتا ہے جبکہ بورژوا، پرولتاری کی متضاد اصطلاح ہے اور وہ زردار ہے جو محنت کش طبقوں کی محنت کی کمائی استحصالی ہتھکنڈوں سے ہتھیا لیتا ہے۔
پاکستان میں کمیونزم کو جتنا نقصان دیسی سرخوں نے پہنچایا شاید ہی کسی اور نے پہنچایا ہو کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ مذہب کو گالی دینا کمیونزم ہے۔ یہ بیچارے دیسی سرخے خود کمیونزم کو سمجھ سکے اور نہ ہی کسی اور کو سمجھا سکتے ہیں البتہ ان کی دکانداری خوب چل رہی ہے۔
دوسری جانب کمیونزم سے بے خبر وہ لوگ ہیں جو کمیونزم کومذہب کا رد اور مخالف سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک اقتصادی اور سماجی نظریہ ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ کسی دور میں ریاستی سرپرستی میں اس کو اسلام مخالف بنا کر پیش کیا گیا تھا۔
کمیونزم طبقاتی نظام کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ معاشرے میں طبقات نہیں ہونے چاہئیں، بھلے وہ طبقات مذہب کی بنیاد پر ہوں، نسل یا جنس کی بنیاد پر۔
میں اکثر کہتا ہوں پاکستانی دو انتہاؤں کے بیچ پھنس چکے ہیں۔ ایک وہ طبقہ ہے جو مذہب کے نام پر قتل کرنے کے لیے تو تیار ہے لیکن مذہب پر چل نہیں سکتا اور مذہب کو ذاتی زندگی میں لا نہیں سکتا۔ دوسرا وہ مذہب بیزار طبقہ ہے جنہیں ہر برائی کی وجہ مذہب ہی نظر آتی ہے اور جن کے نزدیک جدیدیت یہ ہے کہ آپ مذہب کو گالی دو۔ کیا ہم بیچ کا کوئی راستہ نہیں نکال سکتے؟
میں تو اس دین اسلام کا ماننے والا ہوں جو عبادات میں بھی اعتدال کا درس دیتا ہے لہٰذا میں ان انتہاؤں میں رہنے والے رجعت پسندوں اور ترقی پسندوں کے بیچ اعتدال سے رہنا چاہتا ہوں اور اعتدال پسند کہلانا پسند کروں گا۔
بشکریہ : بخت منیر