وہ ایک عام سا دن تھا اور میں معمول کی سی بیزاری سے فائلوں کو نمٹا رہا تھا۔ایسے میں کافی کی طلب ہوئی تو اٹھ کھڑا ہوا۔کافی لئے واپس آرہا تھا تو میری نظر اس ٹھگنے سے شخص پر پڑی۔وہ کسی بات پر ڈیسک کلرک سے الجھ رہا تھا۔وہ اگرچہ بہت معمولی سا انسان تھا۔ایسے لوگ آپ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے روز دیکھتے ہو۔اتنی تعدا دمیں دیکھتے ہو کہ پھر ہنری،جیمز اور کلارک کا فرق مٹ جاتا ہے۔پھر یہ ٹھگنے ،معمولی نقوش کے لوگ محض بیکا ر چیزوں کے ریفرنس سے ہی یاد رکھے جا سکتے ہیں۔
کلارک کون؟۔۔۔۔۔وہی چلتے ہوئے جس کا جوتا چرچراتا ہے۔
جیمس۔۔۔۔۔ارے وہی جس کی سفید بلی پچھلے سال بوڑھی مارتھا پر جھپٹ پڑی تھی اور
ہنری۔۔۔۔۔۔وہی بوڑھا جو بالوں کورنگتے ہوئے کنپٹیوں کے پاس سے سفید ہی چھوڑ دیتا ہے تاکہ ذرا قدرتی رنگ محسوس ہو۔
وہ ٹھگنا بھی انہی لوگوں میں سے تھا اور اسکا ریفرنس تھا خوف اور غصے سے بھری اسکی وہ موٹی موٹی آنکھیں۔وہ ہاتھ ہلا ہلا کر ڈیسک کلرک کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ڈیسک کلرک کے چہرے سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ اسکی باتوں میں قطعی دلچسپی نہیں لے رہا،بلکہ جان چھڑانے کی کوشش میں تھا۔پر اسکی باتوں میں کوئی وقفہ آتا تو وہ کچھ کہ سکتا۔
کبھی کبھی جب بوریت حد سے بڑھ جاتی ہے تو انسان عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔جیسے مجھے فلمیں دیکھنے کا شوق ہے اور جیسے بہت ساری فلمیں دیکھنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔میرا بھی اب ایک ٹیسٹ بن چکا ہے۔میں اب سطحی اور فارمولہ قسم کی چیزیں نہیں دیکھ پاتا۔پر کبھی کبھی انتہائے بوریت کی گھڑیوں میں کوئی نہایت فضول اور تھرڈ کلاس فلم اٹھا لاتا ہوں۔وہ جتنی بکواس اور فارمولہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے دیکھنے کا لطف آتا ہے۔ایسے ہی میں نے آج اس ٹھگنے بوڑھے کو ٹٹولنے کا فیصلہ کیا ۔میں خاموشی سے اسکے پیچھے جا کھڑا ہوا اور اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
”ہیلو۔۔۔۔۔میں سارجنٹ رسل ہوں۔آپ میرے ساتھ آئیں۔“
ڈیسک کلرک نے اپنی خلاصی ہونے پر مجھے تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھا اور ٹھگنا گردن اکڑائے میرے ساتھ چل پڑا۔غالبا ڈیسک کلرک کی بے توجہی کے بعد ایک سارجنٹ کی نظر کرم اس کی توقع سے کچھ زیادہ ہی تھی۔میں نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا
”اب بتایئے ،میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟“
بوڑھا ایک لمحہ کو خاموش رہا پھر آہستگی سے کہنے لگا
”شاید مجھے دوبارہ شروع سے سب کچھ کہنا چاہیے۔اس کلرک نے تو غالبا کچھ سنا ہی نہ ہو گا۔“
”بالکل ٹھیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شروع سے ہی بتایئے۔“
”دیکھیے جناب میں معاشرے کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی غیر معمولی چیز حکام کے نوٹس میں لاﺅں۔ اور اسی لئے میں اپنا وقت کھوٹا کر کر یہاں آیا اور آپ کا کلرک مجھے یوں دیکھتا تھا جیسے میں کوئی پاگل ہوں۔“
”میں آپ کے جذبے کی قد ر کرتا ہوں۔“میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”خیر سب لوگ آپ جیسے ہو جائیں تو پھر بھلا اور کیا چاہیے۔میں آپ کا زیادہ وقت ضائع نہیں کروں گا۔حقیقت یہ ہے کہ آج صبح میں نے ایک عجیب واقعہ دیکھا۔غالبا آپ یقین نہیں کریں گے ۔مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا ۔بلکہ شاید اب بھی نہیں ہے پر دال میں کچھ کالا ہے ضرور۔“
”کیا دیکھا تھا آپ نے؟“
”کچھ عجیب سی بات ہے۔وہ ایک کتا تھا۔سیاہ رنگ کا بڑا سا کتا۔میں نے اسے صبح گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا۔“
”کیا؟“
”میں نے کہا تھا نہ کہ عجیب سی بات ہے۔پر میں نے اسکے گھر تک اسکا پیچھا بھی کیا۔وہ کتا ہی تھا۔“
”کیسا کتا تھا؟“میں نے پوچھا
”سچ پوچھیے تو ان کتوں کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔اسلئے اسکی نسل کے بارے میں تو شاید کچھ نہ کہ سکوں مگر اس میں عام کتوں کی سی بے اطمینانی نہیں تھی۔آپ سمجھ رہے ہیں نہ کہ میں کیا کہ رہا ہوں؟اب گاڑی میں گھسا کوئی کتا دیکھ لیں ،وہ ضرور نہایت چھچھورے انداز میں کھڑکی سے باہر جھانکتا نظر آئے گا،یا پھر پچھلی نشست سے اگلی پر آنے کی بے معنی کوشِشیں کرتا دکھائی دے گا۔آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا۔اس کمبخت کو واک کروانے بھی لے جاﺅ تو دوڑتا ہوا آگے نکل جائے گا،پھر واپس دوڑتا چلا آئے گا۔یوں اگرچہ واک کے بعد وہ پہنچتا تو گھر پر ہی ہے مگر دس گنا زیادہ فاصلہ طے کر کے۔پر اس کتے میںیہ عادتیں آپ کو نہیں ملیں گی۔ارے آپ یقینا سوچ رہے ہو گے کہ اس کتے کے بارے میں بھلا میں ایسی قطعیت سے کیسے بات کر سکتا ہوں۔آخر میں نے تو اسکو بس تھوڑی دیر کو دیکھا ہے۔تو سیدھا سا جواب یہی ہے کہ جو سنجیدگی اور متانت میں نے اس کے چہرے پر دیکھی ہے اسکا تو یہی منطقی نتیجہ ہے۔آپ میرے سے لکھوا لیجئے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہو گا۔اسکے چہرے پر پہلی مرتبہ والی کوئی سنسنی ،کوئی تحیر موجود نہیں تھا۔“
”ہوں ۔۔۔۔آپ بڑی حیران کن بات کہ رہے ہو۔کیا میں آپ سے ایک سوال کر سکتا ہوں؟۔۔۔برا مت مانئے گا یہ معمول کے سوال ہیں جو ہم سب سے پوچھتے ہیں۔“میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
اسنے اثبات میں سر ہلا دیا۔ویسے وہ خاصے دھیان سے میری بات سننے کی کوشش کر رہا تھا۔
”آپ کوئی دوا تو استعمال نہیں کر رہے؟“
وہ تلملا گیا
”دیکھیے ایک تو میں حکومت کی مدد کر رہا ہوں اور اوپر سے ایسے سوالات۔۔۔۔خیر آپ کی تسلی کے لئے ایسا کچھ نہیں ہے۔کوئی دوا ،کوئی نشہ ور چیز ،کچھ نہیں۔میری نظر بھی بالکل ٹھیک ہے اور سب سے تیز ہے میرا مشاہدہ۔دیکھیے میری چھوٹی سی ایک دکان ہے سکول کے پاس۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ یہ سکول کے بچے کیسے ہوتے ہیں؟ایسے میں اگر آپ کا مشاہدہ تیز نہ ہو تو یہ بچے آپ کی پوری دکان چرا کر لے جائیں۔سو آپ اس پہلو کی طرف سے بالکل ہی بے فکر ہو جائیں۔جارج کو اپنے مشاہدے پر بہت ناز ہے جو کبھی غلط ثابت نہیں ہوا۔“اسنے جذباتی انداز میں کہا۔
میں نے اس کی ڈھارس بندھائی اور اس واقعہ اور اس کے متعلق کئی سوالات پوچھے۔وہ ایک چھوٹا موٹا دکاندار تھا۔گھر میں بیوی،بچے،بلیاں،پھولوں کا باغیچہ سب موجود تھے۔یعنی وہ ہر لحاظ سے ایک نارمل زندگی گذار رہا تھا۔آج صبح دکان پر جاتے ہوئے اسکا دعوی تھا کہ اسنے ایک بڑے سیاہ رنگ کے کتے کوگاڑی چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔یہ گاڑی سیاہ کرولا تھی۔اسنے تعاقب کر کر گھر بھی دیکھ لیا تھا۔اب ظاہر ہے کہ یہ چاہتا تھا کہ میں سارے معاملے کی تحقیقات کروں۔
ظاہر ہے کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جیسے ہمیں روزانہ نمٹنے کو ملتے ہیں اسلئے میں کچھ دلچسپی لے رہا تھا۔پر حقیقت یہی ہے کہ اس قسم کی رپورٹس ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوا کرتی تھیں۔پر اسکا جوش دیکھ کر میں نے اس گھر کو چیک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔جارج میرے ساتھ ہی چل پڑا۔جگہ زیادہ دور نہیں تھی۔
وہ ایک عام سا گھر تھا۔گیراج کا دروازہ بند تھا اسلئے میں گاڑی کی جھلک تو نہ دیکھ سکا۔البتہ گھر کے سلیقے سے سجائے ہوئے لان کو دیکھ کر مجھے گھر والوں کے ذوق کی داد دینا پڑی۔گھر میں ایسے آثار نظر نہیں آ رہے تھے جو بچوں کی موجودگی کا پتہ دے سکیں اسلئے میں نے اندازہ لگایا کہ میرا سامنا کسی اکیلے شخص سے ہونے کو ہے۔
دروازہ کھٹکھٹانے پر ایک سنجیدہ صورت نظر آئی۔یہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جس کی کنپٹیوں کے بال سفید ہو رہے تھے۔ایسے میں کالے رنگ کے گاﺅن میں لپٹا یہ شخص خاصا پر وقار نظر آ رہا تھا۔مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ ابھی میں اس پروقارشخص سے بیکار سوالات کر کے اسکا دماغ کھاﺅں گا۔یہ بھی ہماری نوکری کا خاصا ناپسندیدہ پہلو ہے کہ ہمیں لوگوں کے احساسات سے قطع نظراپنا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔
”جناب ۔۔مجھے آپ سے کچھ سوالات کرنے ہیں۔امید ہے کہ آپ تعاون کریں گے۔“
وہ ہلکا سا متفکر نظر آیا پر اتنا تو کوئی بھی شریف آدمی اپنے دروازے پر پولیس کو دیکھ کر ہو ہی جاتا ہے۔اسنے مجھے اندر آنے کو کہا۔پیسیج سے گذرتے ہوئے میری نظر دیواروں پر لگی خوبصورت چھوٹی چھوٹی پینٹنگز پر پڑی ۔وہ بہت خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ایک لمحے کو خیال آیا کہ میں بھی اپنے پیسیج کو ایسے ہی سجاﺅں گا۔ڈرائینگ روم بھی خاصے نفیس انداز میں آراستہ تھا۔ اب تک میں اپنے ذہن کے کونوں سے موہوم سے موہوم شک بھی نکال چکا تھا کہ میری نظر کمرے کے وسط میں پڑے چھوٹے سے قالین پر پڑی جس پر ایک سیاہ رنگ کا بڑا سا کتا سراگلی ٹانگوں پر ٹکائے پڑا تھا۔جارج کا بیان کم از کم کتے کی حد تک تو صحیح تھا۔کتے نے ہمارے کمرے میں داخل ہونے کے بعد ایک لمحے کو تھوتھنی اٹھائی اور پھر دوبارہ آنکھوں کو بند کر لیا۔
”آپ اکیلے رہتے ہیں مسٹر۔۔۔۔۔۔۔؟“
”میں ہارڈی ہوں۔۔۔۔گھر میں ہم دونوں ہی ہوتے ہیں۔“ایسا کہتے ہوئے اسنے اپنے کتے کی طرف دیکھا۔
میں شاید صحیح طور پر وضاحت نہ کر سکوں کہ میں نے اس لمحہ کیا محسوس کیا۔جانوروں سے محبت وشفقت تو اس معاشرے کا خاصہ تھا پر جن نظروں سے اسنے کتے کی طرف دیکھا وہ عام محبت کی نظر نہ تھی۔اس نظر میں بے پناہ محبت کے ساتھ ایک طرح کی عقیدت،ایک طرح کا والہانہ پن تھا۔۔۔۔۔۔جیسی کہ اگرپالتو جانوروں کے چہرے پر تاثرات ہم دیکھ سکتے تو شاید اپنے مالکوں کو دیکھ کر ہوتی۔میں جانتا ہوں کہ یہ خاصا فضول خیال تھا مگر میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ معاملہ اہم ضرور ہے۔
”آپ صبح قریبا آٹھ بجے کہاں تھے؟“
میرے اس جملے پر حیرت ناک ردعمل دیکھنے کو آیا۔جہاں تک رسل کا سوال تھا تو اسکے چہرے پر ہلکی سی تفکر کی لہریں اٹھیں اور اسنے ایک اچٹتی سی نظر لیٹے ہوئے کتے پر ڈالی۔۔۔ پر زیادہ واضح ردعمل اس کتے کا تھا جو تقریبا اٹھ کھڑا ہوا۔ہارڈی نے کچھ سوچ کر کہا کہ وہ اس وقت سو رہا تھا۔اور یہ کہ وہ ذرا دیر سے ہی اٹھتا ہے۔
”سارجنٹ معاملہ کیا ہے؟“
”کوئی خاص بات نہیں ہے۔پر میں سمجھ نہیں پا رہا کہ اگر آپ آٹھ بجے سو رہے تھے تو پھر آپ کی کار اس وقت سڑک پر کیسے آ سکتی ہے؟“
”کیا؟۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا۔ گاڑی تو کل سے گیراج سے ہی نہیں نکلی۔“
”خیر ہمیں اطلاع ملی تھی کہ صبح آٹھ بجے آپ کی گاڑی خاصی غیر ذمہ داری سے چلتی ہوئی بینتھم سٹریٹ سے گذری۔اب آپ کا کہنا ہے کہ گاڑی گیراج سے ہی نہیں نکلی۔اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں ایک نظر گاڑی پر ڈال لوں۔“میں نے نوٹ کیا کہ جب میں نے لفظ غیر ذمہ داری استعمال کیا تو کتا کافی جزبز سا نظر آیا۔
ہارڈی ان لوگوں میں سے معلوم ہوتا تھا جو کافی متحمل مزاج ہوتے ہیں۔اسنے میری بات پر کندھے ضرور اچکائے جیسے وہ اسے جھوٹ سمجھتا ہو مگر ساتھ میں مکمل تعاون کے اندازمیں مجھے لے کر اپنے گیراج کی طرف چلا۔میری نظر کتے پر ہی تھی۔وہ بھی سر جھکائے،دم ہلاتا ہمارے پیچھے ہی آ رہا تھا۔جارج نے میرے پہلو میں کہنی ماری۔میں نے آنکھوں ہی آنکھوںمیں اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
ہارڈی نے ریموٹ کنٹرول سے دروازہ کھولا(غالبا کتے نے بھی گیراج کا دروازہ کھولنے کے لئے ایسا ہی بٹن استعمال کیا ہو گا۔۔۔۔۔اس خیال کے ساتھ مجھے ہنسی بھی آئی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھے جارج کی باتوں کا یقین ہوتا جا رہا تھا)۔کالے رنگ کی کرولا عین بیچ میں پارک کی گئی تھی۔گاڑی پر گرد کا ایک ذرہ بھی نہ تھا۔میں نے ڈرائیونگ سائیڈ کے ہینڈل کے گرد دیکھا کہ شاید کچھ پنجوں کے نشانا ت وغیرہ مل جائیں۔مگر مجھے کچھ نہ مل سکا۔گاڑی کا انجن البتہ ابھی تک ہلکا سا گرم تھا۔ سو ہارڈی مجھ سے بالکل سچ نہیں بول رہا تھا۔کتا اس دوران بے خیالی کے اندازمیں اڑتی تتلیوں کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔مگر نجانے کیوں مجھے لگ رہا تھا جیسے اس کے کان ہماری طرف ہی لگے ہوئے ہیں،جیسے وہ کن اکھیوں سے مجھے دیکھ رہا ہو۔میں نے نظریں اس پر جما دیں اور بڑی دھیمی آواز میں ہارڈی کو اپنے پاس بلایا۔اس بار میں بڑی سرگوشی کے انداز میں بول رہا تھا تاکہ کتے کو میری بات سننے میں دشواری ہو۔میں نے دیکھا کہ کتے کہ کان کھڑے ہو گئے تھے۔
”بس یہی کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ رپورٹ غلط ہی تھی۔میں اب اجازت چاہوں گا۔“میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میری بات سن کر کتے کی آنکھوں میں بے اعتباری اور شرمندگی کا رنگ آ گیا۔وہ شاید سمجھ گیا تھا کہ میں اب اسکی حقیقت جانتا ہوں۔وہ ایک بار پھر پارک میں جا کر تتلیوں سے کھیلنے میں مشغول ہو گیا۔
ہم باہر آئے تو جارج نے پر جوش طریقے سے پوچھا۔
”تو پھر آپ نے کیا محسوس کیا؟دیکھا وہ بدمعاش کتا کس طرح ہمارے اردگرد گھوم رہا تھا؟“
اب وقت آ گیا تھا کہ جارج سے بھی پیچھا چھڑوا لیا جاتا۔
”نہیں جناب۔۔۔آپ کو غلطی ہی ہوئی ہے۔کئی دفعہ ایسا ہو جاتا ہے۔روشنی اور سایوں کے امتزاج سے عجیب وغریب شکلیں بنتی ہیں۔پھر متحرک گاڑی میں یہ اندازہ لگانا کئی دفعہ مشکل ہو جاتا ہے کہ کتا سائیڈ والی نشست پر تھا یا مالک کی گود میں گھسا ہوا تھا۔میں نے اچھی طرح دیکھا ہے کہ گاڑی پر کہیں پنجوں کے کوئی نشان نہیں تھے،گاڑی کا انجن بالکل سرد تھا۔“
پہلی بار میں نے جارج کا اعتماد متزلزل ہوتے دیکھا۔
”پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”لیکن میں پولیس کی مدد کرنے کیلئے آپ کا شکریہ ضرور ادا کروں گا۔اب چلتا ہوں۔ویسے آپ کہیں تو میں آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کر سکتا ہوں؟“
”نہیں میں قریب ہی رہتا ہوں۔‘ ‘جارج نے بے خیالی سے کہا۔
میں نے سرکاری گاڑی دفتر چھوڑی اور اپنی پرائیویٹ گاڑی لے کر پھر اس سٹریٹ پر آ گیا۔مجھے وہاں کھڑے کوئی دو گھنٹے گذرے ہوں گے کہ میں نے وہ کرولا باہر نکلتی دیکھی۔میں نے احتیاط سے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔گاڑی ہارڈی ہی چلا رہا تھا۔جبکہ کتا بے پروائی سے کھڑکی سے منہ نکالے ہوا سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔وہ لوگ وال مارٹ جا کر رکے۔ہارڈی نے کتے کو گاڑی میں ہی چھوڑ دیا اور سٹور کا رخ کیا۔کتا شیشے سے سر لگائے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔شاید کچھ اداس تھا کہ اسکا بھید کھل گیا یا پھر ویسے ہی بس دھوپ سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔میں نے فیصلہ کیا کہ کتے کو یہیں چھوڑ کر ذرا ایک نظر ہارڈی پر بھی ڈال لی جائے۔
اتنے بڑے سٹور میں اسے ڈھونڈنا ذرا مشکل کام لگتا تھا پر پتہ نہیں کیوں میرے دل نے کہا کہ وہ ضرور کتوں کی خوراک کے سیکشن میں ہو گا۔ اور وہ وہیں تھا۔میں نے ایک طائرانہ نظر اس پر ڈالی۔اسکی ٹرالی مختلف اقسام کی ڈاگ فوڈز سے بھری ہوئی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ یہاں اپنے لئے نہیں بلکہ اس کتے کے لئے شاپنگ کرنے آیا ہو۔
میں اسکے پیچھے پیچھے چلتا باہر آ گیا۔واپسی کے سفر میں بھی کتا بے نیازی سے گردن نکالے باہر دیکھتا رہا۔گھر پہنچ کر ہارڈی اور کتا تو اندر چلے گئے اور میں کئی گھنٹے اپنی گاڑی میں بیٹھا میوزک سنتا رہا۔اگرچہ میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے مگر برسوں کے بعد پہلی مرتبہ مجھے کوئی کام کرنے کا مزا آ رہا تھا۔یہ ان شروع کے دنوں کی طرح تھا جب اس پیشے سے وابستہ سنسنی اور نیا پن میرے لئے بہت اہمیت رکھتا تھا،جب میری آنکھوں میں لاتعداد خواب تیرتے تھے اور اب تو میں گویا بوڑھا ہو گیا تھا۔
شام ہونے پر میں نے روشن کھڑکی سے اندر جھانکے کا فیصلہ کیا۔ٹیلی ویژن چل رہا تھا اور کوئی سنجیدہ سی فلم آ رہی تھی۔وہ کتا بڑی آرام دہ کرسی پر بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا اور ہارڈی کا کچھ پتہ نہ تھا۔غالبا وہ کچن میں تھا۔
میں اس رات گھر نہیں گیا۔اور گھر میں تھا بھی کون جس کے پاس جاتا۔میرے گھر میں تو کوئی کتا،بلی بھی نہیں تھے کہ جن کی دیکھ بھال کیلئے مجھے وقت پر پہنچنا پڑتا۔اس لئے اکثر ایسا ہوتا کہ دفتر کے بعد میں گھنٹوں بے معنی طور پر خاموش سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہتا،یا پھر پیدل چلنا شروع کر دیتا۔میں تمام شہر کا اپنے سامنے آہستہ آہستہ بند ہونا دیکھتا۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ میں اتنا تھک جاتا کہ مجھے سونے کیلئے بس اپنے بستر کی ضرورت رہتی۔
مگر آج مختلف تھا۔آج میرے ذہن میں بہت سے سوالا ت تھے۔اتنے کہ شاید میں بے انتہا تھک کر بھی نہیں سو پاتا۔سو میں اپنے آفس چلا گیا۔رات کے اس پہر وہاں گنتی کے چند لوگ تھے۔یہ ایک دو لوگ وہی تھے جو شاید روزانہ ہی رات گئے تک اپنے کام میں مصروف رہتے۔میری طرح غالبا ان کے پاس بھی کوئی ایسا گھر نہیں تھا جہاں جا کر یہ سکون محسوس کر سکیں۔مگر میرے برعکس انہوں نے خالی سڑکوں پرپھرنے کی بجائے خود کو کام کے انبار میں ڈبو لیا تھا۔میں ایسا نہیں تھا مگر آج انہی کے بیچ موجود تھا۔انہوں نے بڑی حیرانی سے مجھے دیکھا۔ہیلوہائے کے بعد میں اپنی ڈیسک پر پہنچ گیا۔گھنٹوں کے بعد اٹھا تو ہارڈی اور کتے کے بارے میں چند ضروری معلومات حاصل کر چکا تھا۔
ہارڈی سٹاک مارکیٹ میں کام کرتا تھا۔شاید کام کے دباﺅ کی وجہ سے اسے دل کا دورہ پڑا اور اسنے خاصی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا۔بچت اسنے غالبا بلو چپس کمپنیوں میں انوسٹ کر دی ۔بیوی بچے تو تھے نہیں سو اب ایک پرسکون زندگی گذارتا تھا۔میں نے کتوں کی عادات کے بارے میں بھی کافی معلومات اکھٹی کرنے کی کوشش کی مگر کہیں سے بھی ایسے رویے کے بارے میں کچھ پتہ نہ چل سکا جسے میں آج دیکھ کر آ رہا تھا۔رات دو بجے میں گھر پہنچا۔بستر پر گر کر بہت دیر اس کیس کے بارے میں سوچتا رہا۔ہارڈی اور اس کتے میں کچھ ایسا تھا جس کی نہ تو میں وضاحت کر سکتا تھا اور نہ ہی جسے ہضم کر سکتا تھا۔میں بس لیٹے سوچتا رہا اور نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
صبح الارم کی تیز آواز نے مجھے اٹھا دیا۔جسم میں کسلمندی سی تھی۔بلیک کافی کے دو کپ لینے کے بعد میں اس قابل ہوا کہ دفتر جا سکوں۔وہاں بیکار قسم کی فائلوں کا انبار اکھٹا ہو رہا تھا۔میرے کیپٹن نے مجھے بلا کر کل کی مصروفیت کے بارے میں پوچھا تو میں ٹال گیا۔پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا تھا جیسے دوسرے لوگ اس کیس کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکیں گے۔چند ضروری فائلوں کو نمٹانے کے بعد میں ہارڈی کے گھر چلا گیا۔وہ اپنے صحن میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا اور کتا تیزی سے صحن کے چکر لگا رہا تھا۔
میں کتوں کی نفسیات کے بارے میں کچھ زیادہ تو نہیں جانتا تھا مگر مجھے لگ رہا تھا جیسے یہ سب وہ حرکتیں ہیں جو ایک نارمل کتا کرتا ہے۔آپ سمجھے نہ میں کیا کہ رہا ہوں؟شاید نہیں۔۔۔میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔یہ کتا بالکل ایسے کر رہا تھا جیسے کوئی انسان ایک عام سے کتے سے expectکر سکتا ہے۔جب کہ حقیقی کتے نارمل کتے کے اس تصور سے ذرا مختلف ہی ہوتے ہیں۔ہر کتے کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے۔پر اسنے جیسے کوئی خول اپنے اوپر چڑھا رکھا ہو۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جب خول چڑھایا جاتا ہے تو وہ حقیقت نہیں بلکہ تصور کے قریب ہوتاہے۔
ہارڈی کے بارے میں البتہ میں الجھن کا شکار تھا۔کبھی لگتا تھا جیسے وہ کچھ بھی نہیں جانتا(جیسے اب وہ بڑی لاپروائی سے اخبار پڑھ رہا تھا) اور کبھی لگتا جیسے وہ کوئی قیدی ہو ؟ میں کئی گھنٹے انہیں دیکھتا رہا۔اس دوران میں وہ اندر چلے گئے۔کبھی کبھار ڈرائنگ روم اور کچن کی کھڑکیوں سے ان کی جھلک دکھائی دے جاتی۔مجھے لگا کہ میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔اور میں واپس دفتر جانے کو ہی تھا کہ میں نے دونوں کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ہارڈی نے گاف بیگ اٹھایا ہوا تھا۔میں نے انکا پیچھا کرنے کی بجائے گھر کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا۔اگرچہ یہ خاصا غیر قانونی سا کام تھا مگر قانون کے ساتھ یہ تھوڑی بہت ہیرا پھیری تو ہم پولیس والوں کو کرنا ہی پڑتی تھی۔گھر کا ڈرائنگ روم تو میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔کچن،باتھ روم اور بیڈ روم سے بھی نفاست کا اظہار ہو رہا تھا۔ان میں ایسا کچھ نہیں تھا جو غیر معمولی ہوتا۔اوپر کی منزل پر غالبا دو بیڈ روم تھے۔میں نے جب دروازہ کھولاتو تھوڑا پریشان ہو گیا۔ ایک کمرے میں فرنیچر بالکل نہیں تھا۔کمرے میں البتہ میوزک سسٹم اور چند ایک سٹول موجود تھے۔عجیب چیز دیواروں پر ٹنگی تصویریں تھیں جو سب کی سب اس کتے کی تھیں۔تصویروں میں بعض جگہ وہ کپڑے پہنے بھی دکھائی دیا۔دوسرا کمرہ البتہ ایک سٹور ثابت ہوا۔میں گھر سے نکلنے کو ہی تھا کہ مجھے گیراج میں گاڑی رکنے کی آواز آئی۔میں گھبرا گیا۔یقینا کسی وجہ سے گالف کا پروگرام کینسل ہو چکا تھا۔مجھے گاڑی کا دروازہ بند ہونے کی آواز کے ساتھ کتے کے بھونکے کی ہلکی سی آواز بھی آئی۔کچن سے پیچھے گارڈن میں کھلنے والی کھڑکی میرے فرار کا واحد راستہ ثابت ہو سکتی تھی۔میں نے تیزی سے اسکے پٹ کھولنے کی کوشش کی پر وہ شاید جام ہو چکی تھی۔ایسے میں مجھے دروازے میں چابی کی آواز آئی۔میں کھڑکی کھولنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔اور پھر دروازہ کھلا۔اسکے ساتھ ہی ایک جھٹکے سے کھڑکی بھی کھل گئی۔میں نے خود کو باہر الٹ دیا۔اور جب میں کھڑکی بند کر رہا تھا تو اس لمحے مجھے لگا کہ جیسے وہ کتا کچن میں داخل ہو گیا ہو۔مجھے اسکے بھونکنے کی آواز بھی آئی۔مگر میں اب جھک کر چلتا ہوا انکی باڑ کراس کر گیا۔مجھے لگا کہ شاید کتے نے مجھے دیکھ لیا تھا۔سیکنڈ کے ہزارویں حصے کیلئے میری نظریں اس سے ٹکرائیں تھیں اور مجھے اس آنکھوں سے شعلے نکلتے نظر آئے تھے۔
اسکے بعد میں وہاں نہیں رکا بلکہ آفس چلا گیا۔باقی دن آفس میں بالکل بھی دل نہیں لگا۔بس بڑی بے دلی سے روزمرہ کے کام نمٹاتا رہا۔سہ پہر کو ہارڈی کی کال موصول ہوئی۔موصوف نے میرے کیپٹن سے بات کی اور الزام لگایا کہ میں غیر قانونی طور میں ان کے گھر میں گھسا رہا اور یہ کہ بھاگتے ہوئے انہوں نے میری جھلک دیکھی تھی(مجھے یقین ہے کہ وہ جھلک انہوں نے نہیں بلکہ کتے نے دیکھی تھی)۔ظاہر ہے کہ اس فون کال میں انہوں نے اپنے کل کے بھرپور تعاون کا بھی ذکر کیا تھا۔
میں وہاں موجود تو نہیں تھا پر جانتا تھا کہ کیپٹن نے بڑے ڈیپلومیٹک انداز میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی ہو گی اور یقین دلایا ہو گا کہ ایسا پھر نہیں ہو گا وغیرہ۔اسکے بعد مجھے انہوں نے اپنے کمرے میں بلایا اور سخت سست کہا۔میرے پاس ان واقعات کی صحت سے مکمل انکار کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔پر مجھے لگا کہ انہیں میری وضاحتوں پر یقین نہیں آیا ہے۔
میں چھٹی کے بعد بہت دیر تک آفس میں ہی بیٹھا رہا۔جب شام گہری ہو گئی تو بھی گھر جانے کی بجائے ایک بار میں جا بیٹھا۔میں شاید ایک گھنٹے تک کونے میں بیٹھا پیتا رہا جب کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا کر مجھے متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
”سارجنٹ اجازت دو تومیں یہاں بیٹھ جاﺅں؟“
وہ جارج تھا۔
”ہاں ضرور“میں نے ملائمت سے کہا۔
”مجھے بس معذرت کرنا تھی۔اس دن اتنا وقت جو ضائع کیا آپ کا۔یقین کیجئے کہ میں ایسا ہرگز نہیں تھا۔ہمیشہ بہت واضح دیکھ سکتا تھا۔“وہ کافی نشے میں لگ رہا تھا۔میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی مگر وہ جذباتی ہو کر بولنے لگا۔
”ارے جناب !!نجانے کیا ہو گیا تھا اس دن مجھے۔صبح میں نے اس شریف آدمی پر الزام لگایا اور پھر گھر گیا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے میری بیوی کے ساتھ بیڈ روم میں کوئی اور بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔آپ یقین کریں کہ میں ایسا انسان نہیں ہوں جو بلاوجہ شک کرتا پھرے۔میں تو اس سے بڑی محبت کرتا ہوں۔۔۔۔پر مجھے تو ایسا ہی لگا تھا۔شاید میں نے کھڑکی سے اس کا سراپا بھی دیکھا تھا۔پر جب میری بیوی نے بھی وہی بات کی جو آپ نے کی تھی کہ ضرور مجھے وہم ہوا ہو گا۔تو مجھے یقین ہو گیا کہ میں ہی غلط تھا۔آپ مجھے معاف کر دیجیئے گا اور اگر ہو سکے تو مسٹر ہارڈی سے بھی میری طرف سے معافی مانگ لیجئے گا۔“
وہ یونہی بڑبڑاتا ہوا میرے قریب سے چلا گیا۔میں بہت دکھی ہو گیا تھا۔اس رات سونے سے قبل میں نے خود سے عہد کیا کہ میں اس خرافات سلسلے کو ابھی یہاں ختم کرتا ہوں۔میں اس تحقیق میں اور آگے نہیں جاﺅں گا۔کل صبح ایک نئے عزم سے اپنی جاب پر واپس جاﺅں گا۔ اور روزمرہ کی فائلوں پر بڑی محنت سے کام کروں گا۔آخر یہ روزمرہ کا معمول ہی تھا جس نے اب تک مجھے پاگل ہونے سے بچا رکھا تھا۔اس فیصلے کے بعد میرے اندر اطمینان کی ایک گہری لہر دوڑ گئی۔ اور میں بہت دنوں کے بعد پرسکون طریقے سے سو گیا۔
مگر اگلے دن جو ہوا اس میں میرے لیئے ممکن نہیں رہا کہ میں اپنے پلان پر عمل کر سکتا۔ہوا یوں کہ بینتھم سٹریٹ پر ایک حادثہ ہو گیا جس کی وجہہ سے پولیس کو سڑک عارضی طور پر بند کرنا پڑی۔صبح کے رش کی وجہہ سے یہاں سڑک بلاک ہو گئی۔ٹریفک میں پھنسنے والی گاڑیوں میں ایک کالی کرولا بھی تھی۔جس میں۔۔۔۔۔۔۔۔خیر اب مجھے بتانے کی ضرورت تو نہیں۔یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی۔ہارڈی نے مجھے معذرت کا فون بھی کیا۔وہ یہی ظاہر کر رہا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں وہ خود حیران ہے۔میں جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے پر میں نے منافقانہ انداز میں اسے سمجھایا کہ کوئی بات نہیں۔میں نے کل والی بات کا بالکل بھی برا نہیں مانا۔
باقی سارا دن میں معمول کے کامو ں میں مصروف رہا اور مجھے خوشی ہوئی کہ میں ایک نارمل انسان کی طرح کام کرکے خوش رہ سکتا ہوں۔واپسی پر گھر جاتے ہوئے میں نے جارج کو سڑک پر جاتے دیکھا۔ وہ کچھ کھویا ہوا سا لگ رہا تھا۔
”مسٹر جارج۔۔۔۔کیا آپ نے وہ خبر سنی؟آپ کا مشاہدہ بالکل بھی غلط نہیں تھا۔“
جارج نے میری طرف دیکھا مگر اسنے کچھ خاص خوشی کا اظہار نہیں کیا۔بس دہراتا رہا کہ
”ہاں ۔۔۔مشاہدہ غلط نہیں تھا۔“
میرے لیئے اسکا رویہ بڑا حیران کن تھا۔پر اب ایسی چیزوں کے بارے میں سوچنا میرے جیسے عملی انسان کیلئے بیکار تھا۔اسلئے سر جھٹک کر میں گھر کی طرف چل دیا۔میرا ارادہ تھا کہ کپڑے بدل کر کلب جاﺅں۔سوچ رہا تھا کہ پھرسے ٹینس کھیلنا شروع کر دوں۔ میں تیار ہو کر نکلنے کو ہی تھا کہ فون پر پیغام ملا کہ ایک خون ہو گیا ہے اور مجھے فورا پہنچنا تھا۔ ڈسپیچر کہ رہا تھا کہ کسی جارج نامی آدمی نے اپنی بیوی کا خون کر دیا ہے۔جارج کو پکڑ لیا گیا تھا اور اسکی ذہنی حالت صحیح نہیں لگ رہی تھی۔
”میں ابھی پہنچتا ہوں۔“میں نے مختصر سا جواب دیا اور فون رکھ دیا۔میں جانتا تھا کہ مجھے اب جارج سے کیا سوالات کرنا ہوں گا؟ اس سے بھی بڑھ کر یہ بھی جانتا تھا کہ وہ کیا جواب دے گا؟ مگر پھر بھی مجھے اس شریف آدمی کو ان سوالوں سے پریشان کرنا تھا۔اسی وجہ سے میں اپنی اس نوکری کو پسند نہیں کرتا۔شاید اسی وجہ سے میں راتوں کو سو نہیں پاتا۔مگر خیر یہ تو بڑا لمبا قصہ ہے۔ابھی تو مجھے پولیس سٹیشن چلنا چاہیئے جہاں میرا انتظار ہو رہا تھا۔