کئی برس ہوئے نئی دہلی میں کلکتہ کے ایک ہندو بنگالی کلرک تھے۔ تنخواہ ڈیڑھ دو سو روپیہ ماہوار کے قریب۔ ان کی بیوی مر چکیں تھیں۔ کوئی لڑکا نہ تھا اور صرف ایک لڑکی تھی جس کا نام شیلا تھا۔
اس زمانہ میں ہر شے ارزاں تھی اور ان بابو جی کے صرف ایک بچّی تھی۔ اس لیے آپ اس بچّی پر کافی روپیہ صرف کرتے اور آپ نے اس لڑکی کی تعلیم کا انتظام دہلی کے کوئین میری اسکول تیس ہزاری میں کیا تھا جہاں مصارف کی زیادتی کے باعث صرف امراء کی لڑکیاں ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ شیلا جب چودہ برس کی تھی تو ان کے والد انتقال کر گئے اور گھر میں (جو سرکاری کوارٹر تھا) کوئی نہ رہ گیا۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ایک نوعمر اور ناتجربہ کار لڑکی صرف اکیلی رہ جائے تو اس کے دل اور ذہن کی کیا کیفیت ہوگی۔ میرے پاس ایک خاتون کا پیغام پہنچا کہ لڑکی اکیلی رہ گئی ہے۔ اس کے رشتہ دار کلکتہ میں ہیں اور جب تک اس کے چچا اس کو لینے کے لیے نہ آجائیں۔ اس لڑکی کے رہنے کا انتظام کسی خاتون کے ہاں کر دیا جائے۔ لڑکی جوان تھی اور ذمہ داری کا بھی سوال تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ اس لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی ایک خاتون کے ہاں بھیجوا دیا جائے۔ یہ خاتون بہادر شاہ ظفر بادشاہ کے خاندان میں سے تھیں اور کوئین میری اسکول ہی کی تعلیم یافتہ تھیں۔ یہ "ریاست” اور اس کے ایڈیٹر کی مداح تھیں اور اس خاتون کا کبھی کبھی خط آیا کرتا تھا۔ میں نے ظفر احمد صاحب ( جو میرے اخبار ریاست کے پرنٹر و پبلشر تھے اور دفتر میں کام کرتے تھے) کو بھیج کر لڑکی کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں بھجوانے کا انتظام کر دیا اور اس خاتون نے اس لڑکی کے لیے اپنے مکان کی اوپر کی منزل میں ایک کمرہ دے دیا اور چوں کہ یہ لڑکی ہندو تھی، اس کے کھانے کا انتظام اس خاتون نے دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل میں کر دیا۔ جہاں سے ہوٹل کا ملازم دونوں وقت کھانا دے جاتا اور میں نے کلکتہ اس کے چچا کو تار بھجوایا کہ شیلا اکیلی ہے۔ اسے آکر لے جائے۔
دنیا میں زوال کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ملتا۔ شیلا کے چچا نے جب سنا کہ اس کے بھائی کا انتقال ہو چکا ہے اور شیلا دہلی میں اکیلی ہے تو اس نے بھی کچھ زیادہ پروا نہ کی اور لڑکی کو کلکتہ لا کر رکھنا ایک بوجھ سمجھا اور جب اسے بار بار لکھا گیا تو یہ کئی روز بعد دہلی پہنچا اور شیلا دو ہفتہ کے قریب کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے ہاں رہیں۔ اس دو ہفتہ کے قیام میں کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔ صرف ایک واقعہ دل چسپ ہے۔
میرے پاس اطلاع پہنچی کہ شیلا کو بخار ہے۔ میں نے ظفر صاحب کو بھیجا کہ وہ کسی ڈاکٹر کو دکھا کر دوا کا انتظام کر دیں۔ ظفر صاحب کوچۂ چیلاں گئے ۔ شیلا کو اس وقت بخار نہ تھا۔ ظفر صاحب نے کہا کہ وہ ڈاکٹر کو بُلا کر دکھا دیتے ہیں تو شیلا نے کہا کہ ڈاکٹر کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ خود ڈاکٹر کے ہاں جا کر نبض دکھا کر دوا لے آئے گی۔ ظفر صاحب نے ڈولی منگائی (اس زمانہ میں دہلی میں ڈولیوں کا رواج بہت تھا اور عورتیں ڈولیوں میں ہی جایا کرتی تھیں)۔ شیلا جب ڈولی میں سوار ہونے لگی تو کمزوری کے باعث یہ کچھ لڑکھڑا سی گئی۔ ظفر صاحب نے جب دیکھا کہ یہ کمزور ہیں تو چاہا کو سہارا دے کر ڈولی میں بٹھا دیں۔ مگر جب ظفر صاحب سہارا دینے لگے تو اس نے بے اختیاری کے عالم میں کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔”
شیلا ڈولی میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے ہاں گئیں۔ ظفر صاحب ساتھ تھے۔ ڈاکٹر کو نبض دکھائی گئی اور شیلا دوا لے کر واپس کوچۂ چیلاں پہنچ گئی۔ ظفر صاحب جب دفتر میں واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ جب وہ سہارا دینے والے تھے تو شیلا نے کہا: ” بھائی صاحب! مجھے ہاتھ نہ لگانا میں خود بیٹھ جاؤں گی۔” یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو نکل گئے اور مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب آج سے چالیس پچاس برس پہلے ہر ہندو عورت کسی غیر مرد کو چھونا بھی پاپ اور گناہ سمجھتی تھی۔ شیلا کو کوچۂ چیلاں کی اس خاتون کے گھر قیام کیے دو ہفتے ہو گئے تھے کہ اس کے چچا اس کو لینے دہلی پہنچے۔ پہلے اپنے بھائی کے کوارٹر میں گئے۔ وہاں پڑوسیوں نے بتایا کہ شیلا کوچۂ چیلاں فلاں مسلمان خاندان کے گھر رہتی ہے۔ شیلا کے چچا نے جب یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے یہ سمجھ لیا کہ شیلا مسلمان ہوگئی ہے۔ وہ کوچۂ چیلاں میں اس خاتون کے یہاں پہنچا اور دروازہ پر شور پیدا کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ ایک معصوم لڑکی کو اغوا کر کے لائے ہو۔ شیلا اوپر کے کمرے میں تھی۔ جب اس نے یہ شور سنا تو نیچے آئی اور چچا کو دیکھا، کہ وہ غصہ کی حالت میں دشنام طرازی کر رہا ہے۔ شیلا نے جب یہ کیفیت دیکھی تو اس نے اپنے چچا کو تمام اصل حالات بتائے اور کہا کہ دریا گنج کے ایک ہندو ہوٹل سے کھانا آتا ہے، صرف ازراہِ ہمدردی اسے یہاں رکھا گیا ہے۔ شیلا کے چچا کو جب اصل حالات معلوم ہوئے تو بے حد شرمندہ ہوا، اس نے معافی چاہی اور وہ شیلا کو لے کر رات کی گاڑی سے کلکتہ روانہ ہو گیا۔
شیلا جب کلکتہ پہنچی تو خاندان میں اس کی شادی کا سوال پیدا ہوا اور لڑکے کی تلاش شروع ہوئی۔ بنگالی ہندوؤں میں بغیر جہیز کے لڑکی کی شادی کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ لڑکے والے دس دس پندرہ پندرہ اور بیس تیس ہزار روپیہ طلب کرتے ہیں اور اگر کسی کے پانچ لڑکے ہوں تو اس کا خاندان امیر ہو جاتا ہے۔ شیلا کا باپ معمولی کلرک تھا۔ جو اپنی بیٹی پر فراخ دلی کے ساتھ روپیہ صرف کرتا رہا۔ شیلا کے چچا کے پاس بھی روپیہ نہ تھا اور اگر ہوتا تو شاید وہ پھر بھی شیلا کے جہیز میں ہزار ہا روپیہ نہ دیتا۔ جہیز کے لیے روپیہ نہ ہونے کے باعث شیلا کے چچا نے اس کی سگائی ایک معمر بنگالی کے ساتھ کر دی جو انبالہ چھاؤنی میں گڈس کلرک تھا۔ شیلا کی شادی ہونے کے چھ ماہ بعد شیلا کا شوہر جگر کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ یہ رخصت لے کر علاج کے لیے کلکتہ گیا۔ وہاں اسپتال میں داخل ہوا اور اسپتال میں ایک ماہ زیرِ علاج رہنے کے بعد انتقال کر گیا۔
شیلا کے بیوہ ہوتے ہی گھر کے لوگوں نے اس کو مجبور کیا کہ یہ رواج کے مطابق اپنے بال کٹوا دے تا کہ بدصورت نظر آئے۔ شیلا کوئین میری اسکول کی اچھے گھرانے کی لڑکیوں کے ساتھ پڑھی ہوئی تعلیم یافتہ خوب صورت اور نو عمر لڑکی تھی۔ اس نے خواہش ظاہر کی کہ اس کے بال نہ کاٹے جائیں۔ (بنگالی عورتوں کے بال بے حد حسین ہوتے ہیں اور بنگالی عورتیں اپنے بالوں کو لمبے چمکیلے اور خوب صورت بنانے پر کافی محنت کرتی ہیں) مگر گھر والوں نے خاندان کے وقار کے خیال سے شیلا کے بال کاٹ دیے۔ شیلا کو ایک کمرے میں بند رہنے پر مجبور کیا گیا۔ تا کہ اس کی منحوس صورت شادی شدہ عورتیں نہ دیکھیں اور ان کا سہاگ قائم رہے۔ کیوں کہ بنگالیوں کے خیال کے مطابق سہاگن عورتوں کو صبح ہی صبح بیوہ عورتوں کی صورت نہ دیکھنی چاہیے۔ شیلا کی جب یہ کیفیت ہوئی تو اس نے مجھے انگریزی میں ایک خط لکھا کیوں کہ وہ اُردو نہیں جانتی تھیں اور میں بنگالی زبان سے واقف نہ تھا جس میں اس کے شادی ہونے اور بیوہ ہونے کے تمام حالات تفصیل سے درج تھے اور لکھا تھا کہ ظفر صاحب کو کلکتہ بھیج دو تا کہ وہ دہلی چلی آئے۔ کیوں کہ اس کی موجودہ زندگی ناقابلِ برداشت حد تک اذیت میں ہے۔
جب یہ خط پہنچا تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ میں نے ظفر صاحب کو کلکتہ بھیجا کہ وہ شیلا کو دہلی لے آئیں اور یہاں اس کا کوئی انتظام کیا جائے ظفر صاحب کلکتہ گئے تو وہاں ان کے پہنچنے سے ایک روز پہلے شیلا زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کر چکی تھی۔ ظفر صاحب نے بتایا کہ اس بے گناہ اور معصوم لڑکی کی شادی معمر اور بیمار شخص کے ساتھ کر کے سوسائٹی نے اس پر بہت بڑا ظلم کیا۔ کیوں کہ جہیز کے لیے روپیہ نہ تھا اور جہیز بغیر کوئی اچھا لڑکا شادی کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے اس ظلم کے مقابلہ پر موت کو ترجیح دی۔ یہ دن رات کمرہ میں پڑی رہتی۔ جب اس کی موت ہوئی تو اس کے پاس کوئی نہ تھا اور صبح گھر والوں نے دیکھا کہ اس کی لاش چارپائی پر پڑی ہوئی ہے۔ ظفر صاحب یہ حالات سن کر واپس آگئے۔ مجھے حالات سن کر بے حد تکلیف ہوئی۔ مگر سوائے اخبار میں غم و غصہ اور اظہار افسوس کے کر ہی کیا سکتا تھا۔ چناں چہ اسی ہفتہ شیلا کی موت پر ریاست میں ایک درد ناک نوٹ لکھا گیا۔ جس میں جہیز کی لعنت پر آنسو بہائے گئے۔
(از قلم دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر "ریاست” اخبار)