Editorial

اسرائیلی حملوں میں 29 ہزار فلسطینی شہید

فلسطین لہو لہو ہے، پچھلے سوا چار ماہ سے مسلسل اسرائیلی حملے جاری ہیں، غزہ پر آتش و آہن برس رہا ہے، ناجائز ریاست اسرائیل نے تمام جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنایا، عبادت گاہوں کو بھی نہیں چھوڑا، وہاں بھی بم برسائے، امدادی اداروں کے مراکز پر بھی حملے کیے، پوری دُنیا اُس سے حملے بند کرنے کے مطالبات کر چکی ہے، اقوام متحدہ چیخ چیخ کر اسرائیل سے حملے روکنے کا مطالبہ کر رہا ہے، عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو مہینہ پہلے حملے بند کرنے کا حکم صادر کر چکی ہے، لیکن اسرائیل کسی کو بھی خاطر میں نہیں لایا، اب تو اسرائیل کے حامی ممالک بھی جنگ بندی کی بات کر رہے ہیں، جو پہلے حملوں کی ابتدا میں اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپارہے تھے، یہ نام نہاد مہذب ممالک ابتدا میں فلسطینیوں کو ظالم اور اسرائیل کو مظلوم گردانتے نہیں تھک رہے تھے، اب جب کہ سوا چار ماہ سے اسرائیل وحشیانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کے نتیجے میں اب تک 29ہزار کے قریب فلسطینی مسلمان جام شہادت نوش کر چکے ہیں، جن میں بہت بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے، خواتین بھی بہت بڑی تعداد میں شہید کی جاچکی ہیں، لاکھ کے قریب لوگ زخمی ہیں، جن میں ایسے بھی لوگ شامل ہیں جو زندگی بھر کے لیے معذوری کا شکار ہوچکے ہیں، وبائی امراض جنم لے رہے ہیں، بچے خاص طور پر متاثر دِکھائی دیتے ہیں، خوراک کی رسائی کے راستے مسدود ہیں، بدترین انسانی المیہ جنم لے چکا ہے تو اس ’’مہذب دُنیا’’ کی جانب سے محض اسرائیل سے حملے روکنے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں، عملاً اُسے روکا نہیں جارہا۔ غزہ پر چار ماہ سے مسلسل فضائی، زمینی اور بحری حملوں کے نتیجے میں پورا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ ہر سُو عمارتوں کے ملبوں کے ڈھیر کے ڈھیر ہیں، ان ڈھیروں کے نیچے کتنے زندہ ہیں اور کتنے شہید ہوچکے، کوئی شمار نہیں۔ کہیں والدین اپنے بچوں کی موت پر نوحہ کناں ہیں تو کہیں اولادیں اپنے ماں باپ کی موت کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ فلسطین میں سسکتی انسانیت کے نوحے جابجا بکھرے پڑے ہیں اور مُردہ عالمی ضمیر کو منہ چڑارہے ہیں۔ دُنیا محض مطالبات تک محدود ہے۔ ظالم اسرائیل کا آگے بڑھ کر ہاتھ روکنے اور اُسے ظلم سے باز رکھنے کی کسی میں اخلاقی جرأت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی مظالم اور حملوں میں شدّت آتی جارہی ہے۔ گزشتہ روز بھی 150 فلسطینی شہید کردیے گئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، 24گھنٹے کے دوران مزید 150 فلسطینی شہید کردیے گئے۔ سفّاک اسرائیلی فوج نے نصر اسپتال پر دھاوا بول کر عملے کو گرفتار کرلیا اور سرجری آلات توڑ دیے۔ سربراہ حماس اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کے معاہدے میں تاخیری حربے استعمال کررہا ہے۔ ادھر جنگ بندی کا معاہدہ نہ کرنے پر اسرائیلی دارالحکومت میں احتجاج جاری ہے۔ مظاہرین نے تل ابیب میں سڑکوں پر نکل کر امریکا اور اسرائیلی حکومت کے خلاف شدید نعرے بلند کیے۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ تمام مقاصد حاصل ہونے تک غزہ میں جنگ جاری رکھیں گے۔ حماس کے مطالبات تبدیل ہونے تک جنگ بندی پر بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ادھر جنوبی لبنان میں شہریوں پر بھی اسرائیل کے حملے ہوئے، اس حوالے سے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا کہنا ہے اسرائیل اب ہمارے شہریوں کے خون بہانے کی قیمت ادا کرے گا۔ دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی اوّلین ترجیح جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیل کی واپسی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے میونخ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں مکمل جنگ بندی کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے، غزہ میں انسانی المیے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہنگامی بنیادوں پر غزہ میں امداد کی رسائی کو یقینی بنایا جائے، شورش زدہ علاقے میں امداد نہ پہنچانا انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ تمام ممالک کو بین الاقوامی امور اور امن و سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے کثیرالجہتی عمل کو آگے بڑھانے کے طریقوں پر غور اور مذاکرات کے دروازے کھولنا ہوں گے۔ سعودی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ امریکیوں پر یہ واضح کردیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے غزہ کی پٹی میں درپیش انسانی المیے کا حل جنگ بندی ہے، اس پر عمل کرنے کے بعد ہی اسرائیل کے ساتھ بات چیت شروع ہوسکتی ہے۔ فیصل بن فرحان نے اس بات پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت میں اہم ترین پہلو آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا ہی ہو گا۔ادھر قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے قاہرہ میں چار ملکی حکام کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ زیادہ حوصلہ افزائی کا ذریعہ نہیں تھے۔ اس قضیے کا آغاز اکتوبر میں اسرائیل پر حماس کے پانچ ہزار راکٹ فائر کرنے سے ہوا تھا۔ آخر کب تک ظلم و جبر کو برداشت کیا جاتا۔ اسرائیلی مظالم کی انتہا ہوچکی تھی۔ نصف صدی سے زائد عرصے سے اسرائیل فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں پر بدترین ظلم ڈھارہا تھا۔ اُن کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا تھا۔ اُن کے تمام حقوق سلب کیے ہوئے تھے۔ درندہ اسرائیل جب چاہتا کسی سے بھی حقِ زیست چھین لیا جاتا تھا۔ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل کے تقدس کی پامالی کے لامتناہی سلسلے تھے۔ آخر ظلم کے خلاف آواز تو اُٹھنی ہی تھی، حماس نے ظالم کو للکارا اور اُس کے خلاف عَلَم بغاوت بلند کیا۔ ظالم اسرائیل کے پاپ کا گھڑا بھر چکا ہے۔ اس کا وقتِ آخر نزدیک ہے۔ یہ 29ہزار جانوں کی قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ قہرالٰہی نازل ہوگا اور وہ وقت جلد آئے گا جب اسرائیل کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ فلسطینیوں کو اس کے تسلط سے آزادی ضرور ملے گی۔ اس مسئلے کا حل صرف آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست ہے۔
ٹریفک حادثات میں بڑے پیمانے پر اموات
وطن عزیز میں ہر سال ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ہر سال ہی ٹریفک حادثات میں اموات کی شرح بڑھتی چلی جارہی ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ رونما ہوتا ہے، جس پر سارے ملک کے عوام دُکھ و غم کی کیفیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ذمے داران کی جانب سے حادثات میں جاں بحق افراد کے لواحقین اور زخمیوں کے لیے امداد کے اعلانات کرکے جان چھڑانے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ حادثات کے اسباب کا پتا لگایا جاتا ہے نہ اس کے سدباب پر توجہ دی جاتی ہے۔ یہ روش ہی سالانہ ہزاروں زندگیوں کے ضیاع کی وجہ ہے۔ حادثات کی اہم وجوہ میں اَن فٹ گاڑیاں، خراب سڑکیں، تیز رفتاری، ڈرائیوروں کا نشے کی لت میں مبتلا ہونا، غیر معیاری سلنڈرز کا استعمال اور ٹریفک قوانین کی عدم پاسداری ہے۔ یہاں ٹریفک قوانین کو توڑنا لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ٹریفک اشاروں کی پاسداری کی جاتی ہے اور نہ دیگر ٹریفک قوانین کو خاطر میں لایا جاتا ہے۔ ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے اور یہی جلدبازی حادثات کی وجہ بنتی ہے۔ صبر و تحمل سے ڈرائیونگ کرنے کا یہاں پر تصور ہی نہیں۔ اگر یہی روش رہی تو آئندہ بھی صورت حال بہتر ہونے کی چنداں گنجائش نہیں۔ گزشتہ روز بھی ملک کے مختلف حصّوں میں ٹریفک حادثات کے باعث 2 درجن سے زائد افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔اس حوالے سے ’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ٹریفک حادثات میں 27 افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسلام پورہ میں تیز رفتار ٹرک نے موٹر سائیکل سوار 28 سالہ خاتون فروا کو کچل کر مار دیا جب کہ اس کا خاوند بچ گیا۔ مریدکے میں ٹرک کی کار کو ٹکر سے زخمی خاندان کی اور ایک خاتون دوران علاج اسپتال میں دم توڑ گئی، جس سے ہلاکتوں کی تعداد 8 ہوگئی۔ ننکانہ صاحب میں واربرٹن روڈ پر تیز رفتار بس کی ٹکر سے شاہ سلیم دربار کے قریب دو موٹر سوار شدید زخمی ہوگئے۔ 25 سالہ نامعلوم نوجوان جان کی بازی ہار گیا، دوسرا شدید زخمی ہوگیا۔ چنیوٹ میں حقانیہ روڈ کے قریب ٹریکٹر ٹرالی اور موٹر سائیکل میں ٹکر کے نتیجے میں منور احمد علی موقع پر جاں بحق جب کہ حسن اور بلال شدید زخمی ہوگئے۔ سرگودھا کے علاقہ حیدرآباد تھل کے قریب تیز رفتار ٹرک کی کار کو ٹکر میں مگسی اور سدوزئی فیملیز کے ڈاکٹر سمیت تین نوجوان محمد ابراہیم خان مگسی، سجاد حسین خان مگسی ڈاکٹر زین سدوزئی جاں بحق اور ایک نوجوان شدید زخمی ہوگیا۔ دریا خان کے موضع لک کلاں نشیب کے رکشا ڈرائیو فخر عباس کو ایمبولینس پر بھکر اسپتال لے جایا جارہا تھا کہ ڈرائیور کو اونگھ آنے کے باعث تیز رفتار ٹرک سے ایمبولینس ٹکراگئی، 50 سالہ مریض فخر عباس، ایمبولینس ڈرائیور غلام عباس جاں بحق اور نجف علی، خادم اور عنصر شدید زخمی ہوگئے۔ احمد یار میں ڈوگراں والا کھوہ کے نزدیک ٹرین کی زد میں آکر 80 سالہ ذہنی معذور شہری جاں بحق ہوگیا۔ پشاور میں بس اور کار کے خطرناک حادثے میں 5 افراد جاں بحق ہوگئے۔ ٹریفک حادثات میں اتنے بڑے پیمانے پر اموات تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر بھی ہے۔ 27 گھروں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ لوگ اپنے پیاروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ٹریفک حادثات میں کمی لانے اور ان کے نتیجے میں بھاری نقصان پر قابو پانے کے لیے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ ٹریفک حادثات کو روکا تو نہیں جاسکتا، لیکن ان کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ نقصان سے بچنے کی کوششیں ضرور کی جاسکتی ہیں۔ حادثات کے اسباب کا پتا لگایا جائے اور اُن کا موثر تدارک کیا جائے۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری ہر صورت کروائی جائے۔ نشئی افراد کو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔ اَن فٹ گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے نہ دیا جائے۔ سڑکوں کو بہتر بنایا جائے۔ تیز رفتاری سے گریز کیا جائے۔ سلنڈرز کی حامل گاڑیوں کے مالکان کے خلاف کارروائیاں کی جائیں۔ یقیناً اسی قسم کے نیک نیتی سے کیے گئے اقدامات ٹریفک حادثات پر قابو پانے میں ممد و معاون ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button