ColumnImtiaz Aasi

قومی حکومت کی تجویز

امتیاز عاصی
انتخابات ہوئے گیارہ روز گزر چکے تھے سیاسی جماعتوں میں عہدوں کی بندر بانٹ پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے وفاق میں حکومتی ڈھانچہ تشکیل نہیں پایا سکا ہے۔ کسی ملک میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ وزارت عظمیٰ کا دورانیہ دو حصوں میں بانٹ دیا گیا ہو ۔ پی ڈی ایم حکومت کی طرح پیپلز پارٹی کی نظریں اب بھی آئینی عہدوں پر ہیں مسلم لیگ پی ڈی ایم کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کو ہاتھ نہیں کرنے دے رہی ہے بلکہ اتحادی حکومت میں شراکت داروں کو ساتھ دینے کے لئے گامزن ہے۔ انتخابات میں جو کچھ ہوا یا کیا گیا اسے ایک طرف رکھتے ہوئے آخر وفاق اور صوبوں میں حکومتیں تو بنانی ہیں اور ریاست کے امور بہرصورت چلانے ہیں۔ انتخابات میں گڑبڑ ہوئی ہے تو اعلی عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے دروازے کھلے ہیں جو امیدواروں کی شکایات کا جائزہ لے کر فیصلے کریں گے۔ ہمارا ملک اس نہج پر پہنچ گیا ہے سیاست دانوں کو ذاتی مفادات کے خول سے نکل کر ملک و قوم کی ترقی کے لئے کام کرنا ہو گا ورنہ ہماری داستان نہ ہو گی داستانوں میں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمارا ملک معاشی طور پر آکسیجن پر ہے۔ سیاسی اور معاشی بحرانوں نے ملک کو کئی عشرے پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کو کسی حد تک اپنی اپنی کامیابی کا یقین ہوتا ہے اس کے ساتھ انہیں یہ بات ذہین نشین رکھنی چاہیے آج کا ووٹر ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا ووٹر نہیں ہے بلکہ عوام باشعور ہو چکے ہیں خالی نعروں پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ سیاست دانوں کے قول و فعل کو مدنظر رکھ کر انہیں مینڈیٹ دیتے ہیں، جس کا مظاہرہ سیاسی جماعتوں نے حالیہ الیکشن میں دیکھ لیا ہے۔ سوال ہے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھین جانے اور اس کے بانی کو پس زنداں رکھنے کے باوجود عوام نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو کیوں ووٹ دیئے ہیں؟ خیبر پختونخوا میں دیکھ لیں پی ٹی آئی کا نام و نشان مٹانے کی بھرپور کوشش کے باوجود ایک تہائی اکثریت لینے میں کامیاب ہوئی ہے حالانکہ اسی صوبے میں جے یو آئی اور اے این پی کئی بار حکمرانی کر چکے تھے ۔ قومی اسمبلی میں سو سے زیادہ نشستوں پر کامیابی طاقت ور حلقوں کے لئے پیغام ہے عوام جبر سے مینڈیٹ دینے کو تیار نہیں بلکہ خدمت کرنی والی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ مسلم لیگ جو وفاق میں تین مرتبہ حکمرانی کر چکی ہے اور پنجاب کو گھر کی لونڈی سمجھ رکھا تھا انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی اس امر کا بین ثبوت ہے عوام لوٹ کھوسٹ کی سیاست مسترد کر چکے ہیں۔ جہاں تک کسی جماعت کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی بات ہے جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت کی ناکامی پر سخت برہم ہیں وہ اپنی جماعت کی حکومت کے دور کی کاکردگی پر نظر ڈالتی تو شائد اپنی جماعت کی ناکامی پر اتنے برہم نہ ہوتے۔ اگر سیاست دان حقیقت کو تسلیم کر لیں تو انہیں انتخابی دھاندلی کی شکایت نہ ہو۔ ہماری سیاست کا المیہ یہ ہے الیکشن جب بھی ہوئے سیاسی جماعتوں کو مبینہ دھاندلی کی شکایت رہتی ہیں حالانکہ انہیں اپنی کارکردگی کی روشنی میں انتخابات کے نتائج کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس ملک میں ہارنے والا فریق اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا ایسے ملک میں الیکشن کا متنازعہ رہنا کوئی نئی بات نہیں۔ حالیہ انتخابات میں جس طرح کی شکایات آئی ہیں اس سے پہلے کسی الیکشن میں سامنے نہیں آئی تھیں۔ قومی خزانے کے اربوں روپے انتخابات پر خرچ کرنے کے باوجود الیکشن کا متنازعہ رہنا ملک و قوم کی بڑی بدقسمتی ہے۔ نواز شریف وزارت عظمیٰ کی امید لئے وطن لوٹے تھی کہ بازی پلٹنے سے ان کی امیدیں بر نہ لا سکیں۔ اب ان کے بھائی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ صدر مملکت علوی ویسے تو واویلا نہیں کر رہے ہیں ایم وی ایم کے تحت الیکشن ہو جاتا تو کسی کو دھاندلی کی شکایت نہیں رہتی۔ درحقیقت ہمارے ہاں ماحول اس قسم کا پروان چڑھ گیا ہے شکست کھانے والا شکست ماننے کو تیار نہیں ہوتا الٹا دھاندلی کی شکایت کرتا ہے۔ ملکی سیاست میں سب سے زیادہ گند خاندانی سیاست نے ڈالا ہے خاندانوں میں پارٹی عہدوں کی بندربانٹ اور حکومتی منصب کی ہوس نے ملک و قوم کو مسائل میں جکڑ رکھا ہے۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف فتویٰ دلانے والے پنجاب کی وزارت اعلیٰ اپنی ہونہار بیٹی کو دے رہے ہیں اسی کو سیاست دانوں کا دوہرا معیار کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ملکی ترقی کو بڑی بڑی شاہراہوں کی تعمیر سے جوڑا جاتا ہے یہ ٹھیک ہے ذرائع مواصلات کسی ملک کے رہنے والوں کے لئے لازم و ملزم ہوتے ہیں۔ جس ملک کی برآمدات حوصلہ افزاء نہیں ہوتی اور ترسیلات زر بھیجنے والے گریزاں ہوں ایسے ملک ترقی نہیں کر سکتے۔ عمران خان سے کسی کو لاکھ اختلاف ہو سکتا ہے پی ٹی آئی کے دور میں ملکی برآمدات اور غیر ملکی ترسیلات زر کا موازانہ پی ڈی ایم کے دور سے کیا جائے تو تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی حکومت کی کارکردگی واضح ہو جائے گی۔ پی ڈی ایم کے دور میں وزارت عظمیٰ سنبھالنے والے دوبارہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے جس ملک میں کرپشن میں ملوث لوگوں کو چھوڑ دیا جائے ایسے ملک میں کرپشن کو مزید فروغ حاصل ہوتا ہے۔ حصول انصاف میں قوموں میں امتیاز برتا جائے وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ ہماری تباہی میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے جس ملک کے اداروں میں وسیع پیمانے پر کرپشن پائی جاتی ہو کرپشن میں ملوث افراد سزائوں سے بچ جاتے ہوں ایسے ملک معاشی اعتبار سے کنگال رہتے ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں نے ملک میں افراتفری کا سامان پیدا کر دیا ہے ماسوائے تین جماعتوں کے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ مسلم لیگی رہنما قومی حکومت کا مطالبہ کرنے پر اتر آئے ہیں جماعت اسلامی نے آ ل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے۔ پی ٹی آئی ، اے این پی، جے یو آئی ، جماعت اسلامی، جی ڈی اے غرضیکہ سیاسی جماعتیں الیکشن نتائج پر معترض ہیں لہذا ایسی صورت حال میں جیسا کہ لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے قومی حکومت کی تجویز دی ہے انتخابی دھاندلیوں کے شور شرابے کو ختم کرنے کے لئے قومی حکومت ناگریز ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button