ColumnTajamul Hussain Hashmi

بارہویں بار پھر دھاندلی

تجمل حسین ہاشمی
کائنات کا مالک، جس نے سچ بولنے کا حکم دیا، انسان اس اللہ کی خوبصورت تخلیق ہے۔ انسانی روح میں غلط اور صحیح کا الارم سیٹ ہے، اس الارم کو ہم شعور کہتے ہیں۔ کیا ہم اس شعور کو استعمال کرتے ہیں جس کا تعلق سیدھا رب کے ساتھ ہے۔ گزشتہ روز راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے سچ بولا یا جھوٹ اس حوالہ سے اعلیٰ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ لیکن شعور بھی ثابت کر دیتا ہے کہ الیکشن صاف شفاف ہوئے یا نہیں۔ دنیا بھر میں انتخابات متنازعہ ہوتے آئے ہیں، لیکن اس طرح سیاسی جماعتوں کی پریس کانفرنسیں نہیں ہوتیں جس طرح ہمارے ہاں ہورہی ہیں۔ لیاقت علی چٹھہ کے انکشافات کے بعد جس طرح کی کیمپین جمہوری جماعتوں کی طرف سے کی جارہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اگر جمہوری جماعتوں کا یہی رویہ رہا تو اس طرح ادارے کام نہیں کر سکیں گے۔ راولپنڈی ڈویژن میں قومی اسمبلی کی 13اور صوبائی اسمبلی کی 27نشستیں ہیں، جن پر الیکشن منعقد ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نتائج کے مطابق انتخابات میں زیادہ تر نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔ راولپنڈی کے 11قومی اسمبلی کے حلقوں میں کامیابی اور ناکامی کا جائزہ لیا جائے تو ان حلقوں میں فارم 47کے مطابق نتائج کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: راولپنڈی ڈویژن میں جہلم سے قومی اسمبلی کی 2اور صوبائی اسمبلی کی 4 نشستیں ہیں جبکہ اٹک سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی 5نشستیں، چکوال سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی 4نشستیں ہیں۔ راولپنڈی ضلع میں قومی اسمبلی کی 6اور صوبائی اسمبلی کی 12نشستیں ہیں، مری سے قومی اسمبلی کی 1اور صوبائی اسمبلی کی 2نشستیں ہیں۔ پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ رہا۔ این اے 50اٹک سے (ن) لیگ کے ملک سہیل خان ایک لاکھ انیس ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ ان کے مقابلہ میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ایمان وسیم کو ایک لاکھ نو ہزار ووٹ ملے، ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی 90ہزار سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ این اے 49اٹک سے (ن) لیگ کے شیخ آفتاب احمد ایک لاکھ انیس ہزار ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے، ان کے مدمقابل پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار میجر (ر) طاہر صادق نے ایک لاکھ دس ہزار ووٹ حاصل کئے۔ این اے 51مری سے (ن) لیگ کے راجہ اسامہ سرور ایک لاکھ 49ہزار ووٹ لیکر الیکشن جیتے، ٹی ایل پی امیدوار کو 31ہزار ووٹ مل سکی۔ این اے 53راولپنڈی سے (ن) لیگ کے راجہ قمر الاسلام 72ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ آزاد امیدوار اجمل صابر کو 58ہزار، چودھری نثار علی خان کو 44ہزار ووٹ ملے۔ این اے 52گوجر خان سے پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف ایک لاکھ 12ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ آزاد امیدوار طارق عزیز بھٹی کو 91ہزار جبکہ ن لیگی امیدوار کو بہتر ہزار ووٹ مل سکے۔ این اے 54راولپنڈی سے آزاد امیدوار عقیل ملک 85ہزار ووٹ لیکر الیکشن جیتے، ان کے مدمقابل آزاد امیدوار عذرا مسعود کو 73ہزار ووٹ ملے۔ راولپنڈی کے حلقہ این اے 55سے (ن) لیگ کے امیدوار ملک ابرار ایک لاکھ 12ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے، این اے 56سے (ن) لیگ کے حنیف عباسی 96ہزار ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے۔ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہریار ریاض کو 82ہزار ووٹ ملے۔ راولپنڈی کے حلقہ این اے 57سے ن لیگ کے دانیال چودھری 83ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سمابیہ طاہر کو 56ہزار ووٹ ملے۔ این اے 58چکوال سے (ن) لیگ کے طاہر اقبال ایک لاکھ 15ہزار ووٹ لیکر کامیاب جبکہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد امیدوار ایاز امیر کو ایک لاکھ دو ہزار ووٹ ملے اور این اے 59تلہ گنگ/چکوال سے (ن) لیگ کے سردار غلام عباس ایک لاکھ 41ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے اور آزاد امیدوار رومان احمد کو ایک لاکھ 29ہزار ووٹ حاصل ملے۔ این اے 60جہلم سے (ن) لیگ کے بلال اظہر کیانی 99ہزار ووٹ لیکر جیت گئے، ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار نے 90ہزار ووٹ لئے، جو صرف نو ہزار ووٹوں سے دوسرے نمبر پر رہے، این اے 61جہلم سے (ن) لیگ کے چودھری فرخ الطاف 88ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مخالف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شوکت اقبال مرزا کو 84ہزار ووٹ ملے، وہ سولہ، سترہ سو ووٹوں سے دوسرے نمبر پر رہے۔ مستعفی کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے دعویٰ کیا کہ قومی اسمبلی کی 14نشستوں پر ناکام امیدواروں کے ووٹ تبدیل کرکے کامیابی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ کمشنر کی اس پریس کانفرنس نے ہلچل مچا دی، لیاقت علی چٹھہ سے متعلق مختلف باتیں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں لیکن ان ساری باتوں سے حاصل وصول کچھ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بیوروکریٹس کو سیاسی جماعتوں نے تقسیم کیا ہوا ہے، ان کے ناموں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی وابستگی نظر آتی ہے، ان کو سیاسی چھتری ہمیشہ درکار رہتی ہے۔ پریس کانفرنس کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے، کمیٹی کی فائنڈنگ پر سیاسی جماعتیں متفق ہو یا نہ ہوں، بظاہر حکومتی تشکیل میں کوئی مشکلات نظر نہیں آ رہی۔ انتخابات 2024 متنازعہ ہی سمجھے جائیں گے۔ جس طرح کا ماحول بن چکا ہے کچھ تبدیل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button