CM RizwanColumn

نتائج کی تاخیر نے الیکشن گہنا دیا

سی ایم رضوان
ملک میں 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے فافن نے ابتدائی مشاہدہ رپورٹ جاری کر دی۔ فافن چیئر پرسن مسرت قدیم نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی انتخابی مشق قابل ستائش لیکن ابتدائی نتائج کی تیاری اور اعلان کی تاخیر نے اس منظم الیکشن کو گہنا دیا۔ تاہم انتخابات سے ملک میں بے یقینی کا خاتمہ ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ ملک میں استحکام کو یقینی بنائیں۔ نئی مخلوط حکومت بنانے کے لئے 169ارکان کی حمایت ضروری۔ مسرت قدیم نے یہ بھی کہا کہ امیدواروں کے نتائج پر تحفظات الیکشن کمیشن جلد حل کرے۔ اس بار پانچ کروڑ سے زائد افراد نے ووٹ ڈالا۔ ملک میں دو سال سے جاری افراتفری کے بعد الکشن ہوئے، یکساں مواقع نہ ملنے اور دہشت گردی کے باوجود سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ لیا۔ ووٹر ٹرن آئوٹ 48فیصد رہا، فافن نے ملک میں 5664مبصر تعینات کیے، 28فیصد پولنگ اسٹیشن پر افسران نے فارم 45کی کاپی مبصرین کو نہیں دی، آر او افسز میں مبصرین کو نہیں جانے دیا گیا۔ تاہم شفافیت پولنگ اسٹیشن پر قائم رہی لیکن آر او کے دفاتر پر شفافیت پر سمجھوتے ہوئے، 16لاکھ بیلٹ پیپرز مسترد ہوئے جو کہ گزشتہ انتخابات پر بھی اتنے ہی تھے۔ 25حلقوں میں مسترد ووٹوں کا مارجن جیت کے مارجن سے زیادہ تھا۔ الیکشن میں ریکارڈ امیدوار تھے، حلقہ بندی کے عمل سے کافی امیدوار متاثر ہوئے، الیکشن کمیشن نے ریکارڈ مدت میں حلقہ بندی کی۔ الیکشن کے دن تشدد کے صرف 149معمولی واقعات کے ہوئے۔ مجموعی طور پر یہ دن پرامن رہا۔
پولنگ کے بعد فطری طور پر ووٹرز کی نظریں الیکشن نتائج پر ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں ماضی میں بھی اور گزشتہ روز 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان بھی بروقت نہ ہونے کی روایت تین روز تک وسیع ہو گئی۔ اس تاخیر کی وجہ کچھ بھی قرار دی جا سکتی ہے اسے دھاندلی کہہ لیں۔ غفلت کہہ لیں۔ انجینئرنگ کہہ لیں یا جو بھی نام دے لیں یہ حق ہے اور یہ حق خود الیکشن، کمیشن وغیرہ نے ہر پاکستانی کو دے دیا ہے۔ 8فروری کو قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لئے عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ پولنگ صبح 8بجے سے شام 5بجے تک بغیر وقفے کے جاری رہی۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق شام 6بجے سے قبل نتائج کا اعلان نہیں کیا جا سکتا تھا تاہم اس کے بعد تو کم از کم 24گھنٹوں کے اندر اندر نتائج کا آنا بنتا تھا جیسا کہ گزشتہ دنوں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کہہ چکے تھے کہ الیکشن کی رات ایک بجے تک تمام نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا لیکن بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتائج کی بات کی جائے تو رات 10بجے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے بنایا گیا تھا کہ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم ( آر ٹی ایس) بیٹھ گیا تھا، پھر نتائج مکمل ہونے میں کافی وقت لگا تھا اور یہ معاملہ اگلے روز بھی جاری رہا تھا۔ اب اس تاخیر میں بھی ماشاء اللہ سے ہم نے مزید ترقی کر لی ہے۔ اس سے قبل 2013ء کے انتخابات میں بھی نتائج تاخیر کا شکار ہوئے تھے اور کئی حلقوں کے نتائج آنے میں کئی دن لگے تھے لیکن الیکشن والی رات کو سامنے آنے والے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے تحت یہ واضح ہو گیا تھا کہ مسلم لیگ ( ن) کی حکومت بنے گی تو نواز شریف نے وکٹری اسپیچ بھی کر دی اور حکومت بنانے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ نتائج آنے کے دوران ان کی کامیابی کے دعوے کی تقریر پر سیاسی حریفوں نے اعتراض بھی کیا تھا۔ ماضی کے ان تجربات کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے حالیہ انتخابات میں نتائج کی ترسیل کے لئے رزلٹ منیجمنٹ سسٹم ( آر ایم ایس) استعمال کرنے کا انتظام اور دعویٰ کیا گیا کہ اس نظام کے تحت شفاف، نتائج بروقت جاری کیے جائیں گے۔ قوی امید تھی کہ نظام میں کوئی خلل یا سکیورٹی مسائل نہ ہوئے تو نتائج بروقت مکمل ہو جائیں گے لیکن پہلے سکیورٹی مسائل اور پھر سسٹم کی غیر فعالیت جیسی بری خبریں سنی گئیں۔ 8اور 9فروری کی درمیانی رات بھر الیکشن کمیشن میں انتخابی نتائج مرتب کرنے کا نظام ناکام رہا۔ ہیڈ کوارٹرز میں موجود عملہ الیکشن مینجمنٹ سسٹم کی بجائے مینوئل ( یعنی کاغذات پر) نتائج یکجا کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آیا۔ افسران کی جانب سے بتایا گیا کہ الیکشن مینجمنٹ سسٹم موبائل سروس معطل ہونے کی وجہ سے باقاعدہ طور پر فعال نہیں ہو سکا تھا جس کے بعد اب نتائج جمع کرنے کا کام ہاتھ سے کیا جا رہا تھا۔ ہیڈ کوارٹرز کے الیکشن سیل میں ای سی پی کا عملہ قطار اندر قطار بیٹھا ہوا تھا جبکہ ان کے سامنے مختلف ذرائع ابلاغ کے نمائندے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پولنگ ختم ہونے کے لگ بھگ 18گھنٹے بعد تک بھی قومی، صوبائی اسمبلیوں کی صرف 233نشستوں کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کا اعلان ہو پایا تھا۔ نتائج میں تاخیر کی خبروں کے بعد رات دو بجے کیمروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد الیکشن کمیشن آفس پہنچ گئی تھی۔ اس رات الیکشن کمیشن کے افسران پر کافی دبا تھا جو کہ ان سب کے چہروں سے عیاں تھا۔ چیف الیکشن کمشنر نے الیکشن کمیشن کے پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ اور نتائج مرتب کرنے والے الیکشن مینجمنٹ سسٹم کے سربراہ کرنل ( ریٹائرڈ) سعد علی کے ہمراہ کھڑے ہوئے بتایا کہ موبائل نیٹ ورک کی بندش کو باعث تاخیر ہے۔ یہ کہہ کر وہ اندر اپنے دفتر چلے گئے اور بس۔ تاہم بار بار یہ تسلیاں دی جاتی رہیں کہ جوں ہی نتائج موصول ہونا شروع ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر روایت کے مطابق خود آ کر ان ابتدائی نتائج کا اعلان کیمروں کے سامنے کریں گے اور صحافیوں کے سوالات کا جواب بھی دیں گے لیکن اس منظر کو دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئیں۔ رات تقریباً ڈیڑھ بجے الیکشن کمیشن نے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی کہ چیف الیکشن کمشنر نے نتائج کے اجراء کے عمل میں تاخیر کا سخت نوٹس لیا ہے اور آر اوز کو 30منٹ میں نتائج جاری کرنے کی ہدایات کی ہیں۔ اُن ہدایات پر تھوڑا بہت عمل ہوتا نظر آیا۔ مگر اس کے بعد بھی نتائج آنے کا عمل سست روی سے ہی آگے بڑھا اور نو کے بعد دس فروری تک بھی مکمل نتائج کا اعلان ممکن نہ ہو سکا حالانکہ چیف الیکشن کمشنر نے پولنگ کے دن بھی چار بجے یہ دعویٰ کیا تھا کہ موبائل فون سروس کی بندش سے الیکشن نتائج کے عمل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور یہ کہ الیکشن کمیشن کی کوشش ہو گی کہ جلد از جلد نتائج عوام تک پہنچا دیتے جائیں۔ الیکشن کمیشن کی ترجمان نگہت صدیق نے بھی موبائل نیٹ ورک بند ہونے سے رزلٹ یکجا ہونے کے عمل پر فرق نہ پڑنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم انہوں نے الیکشن والی رات ایک مسئلہ صرف یہ ضرور بیان کیا تھا کہ جو فارم 45سسٹم میں آٹومیٹک طریقے سے جانا تھا، اسے مینوئلی الیکشن کمیشن تک پہنچایا گیا، جس کام میں وقت لگا اور ایک منٹ کا کام ایک گھنٹے میں ہوا۔ شاید یہی بد انتظامی ای ایم ایس کی ناکامی کا باعث بن گئی۔
2018 ء کے عام انتخابات میں بھی نتائج جاری کرنے کے نظام آر ٹی ایس کے غیر فعال ہونے تک 52فیصد نتائج کا اعلان کیا جا چکا تھا مگر اب 2024میں نتائج یکجا کرنے کا سسٹم سرے سے پرواز ہی نہ بھر سکا الیکشن کمیشن حکام کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ یہ نوزائیدہ مینجمنٹ سسٹم ناکام نہیں ہوا مگر ایک انتظامی فیصلہ اس نظام کی راہ میں حائل ہو گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکرٹری ظفر اقبال حسین نے گزشتہ رات پہلے نتیجے کے اعلان کے بعد بتایا تھا کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے ای ایم ایس نے کام نہیں کیا ہے جبکہ کمیشن کی ترجمان نگہت صدیق نے وضاحت کی تھی کہ پریذائیڈنگ افسران اس وجہ سے فوری نتیجہ ریٹرننگ افسران کو موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے نہیں بھیج سکے۔ پریذائیڈنگ افسران نے ریٹرنگ افسران تک نتائج پہنچانے میں بھی غیر ضروری تاخیر کی، جس کے بارے میں تحقیقات کی جائیں گی کیونکہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے دو روز تک اس معاملے پر میڈیا پر کوئی وضاحت پیش نہیں کی اور اپنے ماتحت افسر کے ذریعے عام انتخابات کے پہلے نتیجے کا اعلان کروایا۔ مذکورہ افسر نے بھی پوچھے گئے متعدد سوالات کے جوابات نہ دیئے اور ملبہ انٹرنیٹ پر ڈال کر چلتے بنے۔ تاہم فافن کی یہی بات اس الیکشن پر صادق آتی ہے کہ نتائج کی تاخیر نے اس الیکشن کو گہنا دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button