ColumnM Riaz Advocate

انتخابی نتائج، تاخیر اور آئینی تقاضے

محمد ریاض ایڈووکیٹ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور ہم سب مسلمانوں کے لئے سور الحجرات کی آیت نمبر 6میں واضح ہدایات موجود ہیں ’’ کہ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو انجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے‘‘۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ کہ ہم نے قرآن مجید میں موجود ہدایات پر عمل پیرا ہونا چھوڑ دیا ہے زندگی کے ہر شعبہ میں جھوٹ، دھوکہ دہی، پروپیگنڈا، چغلی جیسے افعال سرایت کر چکے ہیں۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ فیک نیوز کو بنانے اور اس کو بغیر تحقیق کئے آگے شیئر کرنے میں نجانے کون سی نیکی ملتی ہے؟ پاکستان جیسی جمہوری ریاست جہاں ہمیشہ ہی سے جمہوری اقدار کے فقدان کی بدولت بددلی اور بے یقینی کے سیاہ بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ غیر منتخب افراد کی جانب سے براہ راست یا بالواسطہ سیاسی اور حکومتی اُمور میں بار بار مداخلت نے سیاست اور سیاستدان کو گالی بنا دیا گیا ہے ۔ صوبائیت اور لسانیت کا شکار پاکستان سیاسی گروہ بندی کا شکار ہوچکا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ پاکستان میں سیاسی گروہ بندی نے مذہبی گروہ بندی کو شکست دے دی ہے۔ رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پوری کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال رواں ہفتہ ہونے والے عام انتخابات سے پہلے اور بعد جاری پروپیگنڈا جنگ کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ انتخابات کے روز امیدواروں کے ساتھ ساتھ انکے حمایتی افراد کے دل کی دھڑکنوں کا اُوتار چڑھائو کا شکار ہونا غیر فطری نہیں ہے۔ مگر پاکستانی قوم کے جذبات کے ساتھ کھیلنے میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے آفیشل اکائونٹس سے جاری من گھڑت اور جعلی خبروں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا اکائونٹس اپنے اپنے مورچوں سے فیک نیوز کی بمباری کرتے دکھائی دیئے۔ سوشل میڈیا پر فیک اور من مرضی کے جعلی فارم 45اور فارم 47کی بھرمار تھی۔ حد تو یہ ہے میڈیا چینلز بھی الیکشن کمیشن کی مصدقہ دستاویزات کی بجائے من گھڑت اور جعلی فارم کو ٹی وی سکرینوں کی زینت بناتے دکھائی دیئے۔ پولنگ ختم ہونے کے دو گھنٹوں بعد کئی ٹی وی چینلز نے کئی امیدواروں کی جیت کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ حکومت پاکستان کی جانب سے سکیورٹی کی بناء پر پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک سروس معطل کی گئی تھیں۔ ان تمام سہولیات کی عدم موجودگی میں ٹی وی چینلز کے انتخابی نتائج کی معلومات کا ذریعہ کیا تھا؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی قوانین میں پولنگ کے بعد کے مراحل کی بابت کوئی ضابطے موجود ہیں یا شتر بے مہار کی طرح جنگل کا قانون چل رہا ہے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ انتخابی معاملات کی بابت آئین پاکستان اور الیکشن ایکٹ، 2017مکمل رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 224کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان پولنگ ڈے سے لیکر چودہ دن کے اندر نتائج کا اعلان کرنے کا پابند ہے۔ اسی طرح الیکشن ایکٹ، 2017ء کی دفعہ 95(8)کے تحت ریٹرننگ آفیسر، انتخابی نتائج اکٹھا کرنے کی کارروائی کے بعد چوبیس گھنٹوں کے
اندر الیکشن کمیشن کو پولنگ کی گنتی کے نتائج کی دستخط شدہ کاپیاں اور حتمی مجموعی نتائج بھیجنے کا پابند ہے۔ اور دفعہ 95(10)کے مطابق ذیلی دفعہ 95(8)کے تحت دستاویزات کی وصولی پر، الیکشن کمیشن، پولنگ ڈے کے 14دنوں کے اندر، انتخابی نتائج کی دستاویزات کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے گا۔ پولنگ کے بعد نتائج شائع کرنے سے پہلے نتائج کا انضمام یعنی نتائج کو اکٹھا کرنے کے مراحل کی رہنمائی دفعہ 95کی ذیلی دفعات 1سے لیکر کر 7تک مذکور ہے جس میں چند گھنٹوں سے لیکر کئی دن بھی لگ سکتے ہیں۔ اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نتائج کے اعلانات کا دوسرے یا تیسرے دن تک جانا پہلی مرتبہ ہورہا ہے؟ ماضی قریب ہی کی بات کہ سال 2018میں منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج کے اعلانات کا سلسلہ پولنگ ڈے کے تیسرے اور چوتھے دن تک جاری رہا۔ اس سے پہلے 2013کے عام انتخابات میں تاخیر بھی دیکھنے کو ملی تھی۔ آئین و قانون کے تقاضوں کو دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نتائج میں ماضی اور حال میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیں ہوئی کیونکہ آئین و قانون کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان پولنگ ڈے سے 14دن کے اندر انتخابی نتائج اعلان کرنے کا پابند ہے۔ لہذا انتخابی نتائج اگر 14دن سے زائد تاخیر کا شکار ہوں تو پھر ہی کہا جاسکتا ہے کہ انتخابی نتائج میں تاخیر ہوئی۔ سب سے اہم بات ہر سیاسی جماعت انتخابات کے وقت الیکشن کمیشن پر انتخابی نتائج میں تاخیر کے الزامات لگاتی دکھائی دیتی ہیں مگر اسمبلیوں میں پہنچ کر آئین و قانون میں درج الیکشن کمیشن کے 14دن کے اندر نتائج جاری کرنے کے اختیار ات میں ترمیم نہیں کرتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں نتائج میں تاخیر کے الزامات پر زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے پارلیمنٹ میں آئین و الیکشن ایکٹ، 2017میں ترامیم کریں اور الیکشن کمیشن کے 14دن کے اختیارات کو پولنگ ختم ہونے کے 24گھنٹوں یا زیادہ سے زیادہ 36گھنٹوں تک محدود کریں تا کہ مملکت پاکستان میں انتخابات کے موقع پر ہونے والی افراتفری اور ہیجانی کیفیت سے بچا جاسکے۔ سب سے اہم بات اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے فارم 45یا 47میں مبینہ طور پر ہیرا پھیری کی گئی ہے تو متاثرہ امیدوار اپنے دستاویزی ثبوت الیکشن ٹریبونل اور سپریم کورٹ میں پیش کرکے داد رسی حاصل کر سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button