Columnمحمد مبشر انوار

امتحان اور بھی ہیں!!!

محمد مبشر انوار( ریاض)
8فروری2024پاکستانی قوم سرخرو ہوئی، ایک امتحان، جس میں پاکستانی قوم کو ہر صورت باہر رکھنے کی کاوشیں تھی، نظام کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کہ اس مقصد کے لئے نظام نے کیا کیا حربے اختیار نہیں کئے لیکن باتجب قوم کے اجتماعی شعور کی ہوئی، تو لاٹھی، گولی کی بیساکھیوں پر کھڑا نظام زمین بوس نظر آیا۔ میدان سیاست میں ارباب اختیار کی ذاتی پسند و ناپسند کہیں یا حالات کا جبر کہیں، مجبوری کہیں یا ایفائے عہد کا تقاضہ سمجھیں، پورا نظام ایک شخص ؍ سیاسی جماعت کے خلاف بروئے کار آنے کے باوجود اس کی عوامی مقبولیت کو نہ کم کر سکا اور نہ ہی عوامی محبت کو ختم کر سکا۔ عوامی حمایت کے ایسے مظاہرے بالعموم تیسری دنیا میں ہی دیکھے جا سکتے ہیں کہ جہاں انائوں کا کھیل بہرکیف ریاستی مفادات سے کہیں زیادہ اہم رکھا جاتا ہے، جہاں مراعات یافتہ طبقہ باہمی بندر بانٹ میں مخلوق خدا کو بری طرح نظرانداز کرتا ہے، عوامی حقوق کا استحصال کیا جاتاہے، ریاستی وسائل کو لوٹا کھسوٹا جاتا ہے، ان معاشروں میں بے بس و مجبور عوام کو جب ہمدرد رہنما میسر نظر آتا ہے، یا جس رہنما کو وہ مسیحا سمجھتے ہیں، اس کے لئے اپنے محبتیں ، اپنے ووٹ کی ذریعے نچھاور کرتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نظام کو دیمک کی طرح چمٹے، یہ ہزارپا، ہر صورت اس عوامی رائے پر غاصب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور ریاستی مشینری کے ذریعہ عوامی رائے کو اچک لیتے ہیں، اس واردات کے بعد انہیں یہ یقین واثق ہوتا ہے کہ اس کارروائی کی کہیں شنوائی نہیں ہو سکتی البتہ دکھاوے کے لئے نظام کو متحرک ضرور کیا جاتا ہے لیکن اس میں چھپے سقم یا اس کی رفتار کو بھی بالآخر اسی مراعات یافتہ طبقے کی گرفت میں رہتی ہے ۔ یوں وہ معاملات جو بمشکل حالات و واقعات و ثبوت و شواہد کی روشنی میں چند دنوں میں نپٹ جانے چاہئیں، ان کے فیصلوں میں پارلیمنٹ کی پوری مدت گزر جاتی ہے لیکن فیصلے نہیں ہوتے۔ اس کی مثال شہباز شریف کا ماضی میں ’’ حکم امتناعی‘‘ پر وزارت اعلیٰ کی مدت مکمل کرنا ہے کہ انتخابی عذرداری پر شہباز شریف کو عدالت کی طرف سے ’’ حکم امتناعی‘‘ جاری کر کے انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی جاری رکھنے کی اجازت دی گئی لیکن مجال ہے کہ اس دوران عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ کیا ہو۔ بعد ازاں، مدت وزارت اعلیٰ مکمل ہونے کے بعد، ایسا مقدمہ ہی بے اثر ہو جاتا ہے اور سائل کے لئے سوائے افسوس کے کچھ باقی نہیں بچتا لیکن عوامی رائے کی ا س سے زیادہ تذلیل کسی جمہوری معاشرے میں ممکن نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔
تادم تحریر انتخابی نتائج کا سلسلہ جاری ہے اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار 68، مسلم لیگ ن 49اور پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 36نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے البتہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کل رات تک جب انتخابی نتائج تسلسل کے ساتھ آ رہے تھے، تب تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 136نشستوں پر برتری حاصل کئے ہوئے تھے۔ یہ نتائج بہرصورت تحریک انصاف کے لئے یقینی طور پر خوش کن ہوں گے کہ نظام کے خلاف روبہ عمل ہوتے ہوئے، اتنی نشستیں حاصل کرنا یقینا بڑی کامیابی ہے لیکن یہ کامیابی اس وقت تک ادھوری و نامکمل ہے جب تک الیکشن کمیشن اس کا باضابطہ اعلان نہ کر دے، حتمی نتائج تک منصوبہ سازوں کے منصوبے کے مطابق تحریک انصاف کو پینتیس سے چالیس نشستوں تک ہی محدود رکھا جائے گا۔ ان میں سے کئی ایک کی کامیابی کا کامل یقین ہو چلا تھا کہ جتنے فرق سے وہ اپنے مخالف پر سبقت لئے ہوئے تھے، بظاہر امکان نہیں تھا کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے لیکن رات نو بجے کے بعد اچانک نتائج کے تسلسل میں خلل پیدا ہوا اور کئی گھنٹوں تک انتخابی نتائج موصول ہونا بند ہو گئے۔ بعد ازاں ان نتائج نے اپنا رخ بدلنا شروع کر دیا اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ کامیاب دکھائی دینے والے امیدوار ناکامی کی طرف جاتے دکھائی دئیے۔ اس روش نے الیکشن کمیشن اور ارباب اختیار کے کردار پر انگلیاں کھڑی کر دی ہیں اور یقینی طور پر ان نتائج کو ناکام امیدوار تسلیم نہیں کریں گے اور لامحالہ عدالتوں کے سامنے پیش ہوں گے۔ انتخابی عذرداریوں کا پہلا مرحلہ یقینا الیکشن کمیشن ہو گا کہ اس میں انتخابی عذرداری کی درخواست دائر کی جائے گی اور اگر الیکشن کمیشن نے اس عذرداری کا فیصلہ کرنے میں تاخیری حربے استعمال کئے، جو نظر آ رہا ہے، تو اس کا نقصان یقینی طور پر ناکام ہونے والے امیدوار کو ہو گا کہ نہ صرف وہ پارلیمنٹ میں بیٹھ نہیں سکے گا بلکہ اس کی جگہ اس کا مخالف پارلیمنٹ میں موجود رہ کر، استحصال کرتا نظر آئے گا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد ہی کوئی بھی شخص اعلی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتا نظر آئے گا لیکن اس وقت تک کتنی دیر ہو چکی ہو گی، کتنے امور پارلیمنٹ میں زیر بحث آ چکے ہوں گے، اور ان کے نتائج کیا نکل چکے ہوں گے، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ یہ بھی یقین نہیں کہ اعلی عدالتیں ایسی کسی درخواست کو کتنی دیر میں نمٹائیں گی اور اس کا فیصلہ کتنی دیر میں ہو گا تاہم ایک حقیقت تو واضح ہے کہ جب عوامی رائے کو ہی اچک لیا گیا ہو گا تو پھر ایسی کسی بھی شخصیت کی داد رسی جلد از جلد کس طرح ممکن ہو گی؟ پس پردہ کھیل کھیلنے والوں نے جب تمام تر حربے استعمال کرلئے لیکن پھر بھی عوامی رائے کو تبدیل نہیں کر سکے، زور اور جبر سے رائے چوری کرنے کے بعد کس طرح اس کو آزاد کریں گے؟ تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اس تمام تر جبر و زور کے باوجود پنجاب انتخابی معرکے میں، مقتدرہ کے فیصلے کے خلاف باہر نکلا ہے اور اس نے مقتدرہ کے فیصلے کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ مبینہ اطلاعات کے مطابق، مسلم لیگ ن کے قائد، جس کی ’’ گل‘‘ ہو چکی تھی، آٹھ فروری کی شام، عالم افسوس و غصہ میں اپنے مرکزی سیکرٹریٹ سے اپنی رہائش گاہ روانہ ہو چکے تھے کہ انتخابی نتائج طے شدہ بات کے خلاف سامنے آ رہے تھے۔ اسی وقت پس پردہ قوتوں کے متعلق بھی اطلاعات یہی ہیں کہ وہ بھی اسلام آباد میں سر جوڑے بیٹھ چکے تھے اور درپیش صورتحال سے نپٹنے کے لئے غور و غوص ہو رہا تھا، ایک رائے تو یہ تھی کہ سولہ ماہ چلنے والی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ہی دوبارہ اقتدار سونپ دیا جائے یا تمام تر کوششوں کے باوجود جو نتائج آ رہے ہیں، انہیں تسلیم کر لیا جائے۔ موخرالذکر صورت تو خیر کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود اگر عوامی رائے کو ہی تسلیم کرنا مقصود تھا تو اس بکھیڑے کی ضرورت ہی کیا تھی، لہذا پرانے منصوبہ کو کامیاب کروانے کی ہی ٹھانی گئی اور نتائج تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔ بپھرے عوام اس پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے، واٹس ایپ پر جو پیغامات چل رہے ہیں، وہ اس کی حقیقت کو عیاں کر رہے ہیں کہ ایک میسج آیا کہ ’’ صبح چار بجے کے بعد نکلنے والے ووٹرز کا رجحان ( ن) لیگ کی طرف رہا‘‘ ، اسی طرح ایک اور پیغام موصول ہوا کہ’’ ن لیگ کی۔۔۔۔ شکست۔۔۔ کی کامیابی میں تبدیل‘‘ یوں عوام اپنی رائے کی تذلیل پر اپنی بھڑاس نکال رہی ہے۔ اگر یہی رجحان رہا تو بعد کی صورتحال کیا ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں لیکن یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ پنجاب میں عوام اس طرح سڑکوں پر رد عمل نہیں دے پائے گی کہ جو حالات کو بے قابو کر سکے، کہ پنجاب پولیس کے ماورائے قانون اقدامات و ظلم عوام کو گھروں سے نکلنے نہیں دے گا۔
بہرکیف مسلمہ اصولوں کے خلاف کامیابی حاصل کرنا، اس پر فخر کرنا، اترانا اور اسے منانا یہ مسلم لیگ ن کو ہی زیب دیتا ہے کہ وہ ماضی میں بھی ایسی کامیابی پر اتراتے رہے ہیں لیکن دوسری طرف پاکستانی عوام، جو ایک امتحان میں سرخرو ہو چکی ہے بلکہ بارہا سرخرو ہو چکی ہے تاہم اس کی رائے کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی اور ہمیشہ اس کے رائے پر شب خون مارا گیا ہے، ہنوز امتحانوں سے دوچار ہے۔ پاکستانی عوام کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا اور اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا کہ پاکستانی عوام کی مشکلات دور ہو جائیں گی، ان کے حق رائے دہی کا احترام کیا جائے گا، دیوانے کا خواب دکھائی دیتا ہے کہ اس کھیل کو پراگندہ کرنے کے لئے کیسی کیسی گھنائونی چالیں چلی جاتی ہیں، پاکستانی اس سے بخوبی آگاہ ہیں، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستانی قوم نے اسی طرح شعور کا مظاہرہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب وہ ’’ استحصالی ٹولے‘‘ سے ’’ حقیقی آزادی ‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تب تک اس کے سامنے امتحان اور بھی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button