بھارت انسانیت پر بدنما داغ
بھارت کی جانب سے شائننگ انڈیا کا ڈھول بڑے طمطراق کے ساتھ پیٹا جاتا ہے۔ بھارت خود کو دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت گردانتا نہیں تھکتا، لیکن حقائق بالکل برعکس ہیں، اس نام نہاد جمہوریت میں ایک مخصوص طبقے کو ہی تمام تر حقوق میسر ہیں، باقی کسی کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ دُنیا کے سامنے جھوٹ پیش کیا جاتا ہے کہ ڈیڑھ ارب آبادی کا یہ ملک ہے اور یہاں تمام اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور وہ بھارت میں آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا پچھلے کئی عشروں سے متواتر کیا جارہا ہے، لیکن اب اس کا پردہ فاش ہوچکا ہے اور دُنیا بھارت کی اصلیت بخوبی جان چکی ہے۔ گو بھارت میں انتہاپسندی پہلے بھی موجود تھی، لیکن مودی کے آنے کے بعد اس میں ہولناک حد تک شدّت محسوس کی گئی۔ مودی کے اقتدار کو دس سال ہونے کے قریب ہیں، اس دوران بھارت میں انتہا پسند ہندو اکثریت اقلیتوں کے حقوق غصب کرتی دِکھائی دیتی ہے، اُنہیں دبائو میں رکھتی نظر آتی ہے، اُن کے لیے زیست کو دُشوار بناتی دِکھائی دیتی ہے، اُنہیں بدترین تعصب کا شکار کرتی نظر آتی ہے۔ گویا بھارت میں ہندو انتہاپسندی کا عنصر بُری طرح غالب ہے، دوسرے مذاہب کی ماننے والے محفوظ ہیں نہ اُن کی عبادت گاہیں، اقلیتوں کے لیے انڈیا جہنم کی شکل اختیار کر گیا ہے، اُن کے ساتھ ہندو انتہا پسند اکثریت کا رویہ انتہائی ناروا ہے۔ مسلمانوں کے لیے تو زیست سب سے زیادہ دُشوار ہے۔ انتہا پسند ہجوم کا جب دل چاہتا ہے، کسی مسلمانوں کو موت کے منہ میں پہنچا ڈالتا ہے۔ کبھی گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگایا جاتا ہے تو کبھی کچھ اور بہانہ تراشا جاتا ہے۔ مسلمان لڑکیوں کی عصمتیں بھی محفوظ نہیں۔ ملازمتوں اور تعلیمی میدان میں اُن کے ساتھ بدترین تعصب کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کا سلسلہ تین سے زائد عشروں پر محیط ہے۔ اس پر انتہاپسندوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔ 1992ء میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور پچھلے ہفتوں انتہا پسند حکمراں مودی نے وہاں رام مندر کا افتتاح کیا۔ سِکھ، عیسائی، پارسی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی بھارت میں انتہاپسندوں کے نشانے پر ہیں اور انتہائی کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں علیحدگی کی کئی تحاریک تیزی سے پنپ رہی ہیں۔ خالصتان تحریک اس میں سب سے زیادہ سرفہرست دِکھائی دیتی ہے اور ہر کچھ عرصے بعد امریکا و کینیڈا میں اس حوالے سے ریفرنڈم کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ پچھلے ہفتوں بھی امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں خالصتان تحریک کے ریفرنڈم میں لاکھوں لوگوں نے خالصتان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ بھارت میں اب بھی مسلمانوں کی عبادت گاہوں، مزارات اور مدارس کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے آئے روز اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور افسوس ناک اطلاع سامنے آئی ہے۔بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں مدرسہ مسمار کیا گیا تھا، جس پر احتجاج جاری تھا، پولیس نے مدرسے کی مسماری کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر اندھا دھند فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 4مظاہرین جاں بحق جب کہ 260سے زائد زخمی ہوگئے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ریاست کے علاقے ہلدوانی بنبھول پورہ میں میونسپل اہلکاروں نے جمعرات کو پولیس کے ہمراہ ایک مدرسے کو مسمار کیا، جس کے خلاف علاقے کے مسلمان احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا اور گولیاں چلادیں۔ انتظامیہ نے صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے ہلدوانی شہر میں کرفیو نافذ کردیا اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی۔ علاقے میں صورت حال انتہائی کشیدہ بتائی جارہی ہے۔ ادھر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک نے احتجاجاً جیل میں ادویہ کا استعمال ترک کردیا۔ تہاڑ جیل دہلی میں قید یاسین ملک جن کو گردوں کو دل کے مرض کا سامنا ہے۔ ان کی والدہ نے دہلی ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کرکے علاج کی سہولت مہیا، اسپتال منتقل کرنے کی مانگ کی تھی، جس پر 14فروری کو سماعت ہے۔ یاسین ملک نے بھارتی حکام کے طرز عمل پر ردعمل میں جیل میں ملنے والی ادویہ کا استعمال کر دیا۔ ذرائع کے مطابق یاسین ملک انتہائی لاغر اور کمزور ہوچکے ہیں، خدشہ ہے کہ ان کی خوراک میں زہر شامل نہ کیا جارہا ہو۔ بھارت میں انڈین نیشنل کانگریس نے مودی حکومت کی ناکامیوں پر بلیک پیپر جاری کردیا ہے، جس میں حکومت کی ناکامیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ’’انائے کال کے دس برس’’ (ناانصافی کے دس برس) کے عنوان سے بلیک پیپر میں بھی اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کا بھرپور احاطہ کیا گیا ہے، اس بلیک پیپر میں کہا گیا کہ مودی حکومت کے دوران ملک کی معیشت تباہ و برباد ہوئی، خواتین کے خلاف جرائم بڑھ گئے، اقلیتوں کے خلاف سنگین ناانصافیوں کا ارتکاب کیا گیا، زراعت کا شعبہ برباد ہوچکا ہے۔ دس برس میں سماجی عدم استحکام پیدا ہوا اور بی جے پی نے ایجنسیوں کے ذریعے لوگوں کو ہراساں کیا۔اس تمام تر تناظر میں بھارت ایک بدترین ملک قرار پاتا ہے جو انسانیت کے لیے بدنما داغ کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قدر ظلم و ستم تو ہلاکو اور چنگیز خان نے بھی نہیں کیے تھے۔ مودی کے مظالم دیکھ کر تو اُن کی روحیں بھی کانپ جاتی ہوں گی۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ستم کسی طور مناسب قرار نہیں پاتا۔ اُنہیں انتہاپسند ہندوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بدترین روش ہے۔ بھارت کے باشعور عوام بھی اس امر کی توثیق نہیں کرتے۔ وہ حق کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ بھارتی معاشرے کے لیے انتہاپسندی سم قاتل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو اس سے پاک کرنے کے لیے باشعور بھارتی عوام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی روک تھام نہ کی گئی تو اگلے وقتوں میں صورت حال انتہائی سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر دُنیا کا سُلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ بھارت جان بوجھ کر پچھلے 76سال سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اس کے حل سے اجتناب برت رہا ہے۔ پوری حریت قیادت بھارتی قید میں ہے یا نظربند۔ یاسین ملک مظلوم کشمیریوں کی توانا آواز ہیں۔ اُنہیں خاموش کرانے کے لیے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات میں بھارتی جیلوں میں قید رکھا جارہا اور طرح طرح سے ایذا پہنچائی جارہی ہیں۔ دیگر حریت قیادت کے ساتھ بھی یہی سلوک ہے۔ یاسین ملک بہت لاغر اور کمزور ہوچکے ہیں۔ اُنہوں نے ادویہ لینی بھی بند کردی ہیں۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور عالمی اداروں کو بھارت کے ان بدترین ظلم اور جبر کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارتی قید سے حریت قیادت کو آزاد کرانے میں وہ اپنا کردار ادا کریں۔ مظلوم کشمیریوں کی آوازوں کو دبانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ہلاک
عام انتخابات کے انعقاد سے ایک روز قبل بلوچستان کے دو مختلف اضلاع میں امیدواروں کے انتخابی دفاتر کے باہر دہشت گرد حملوں میں 28افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس سے قبل بھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوچکے تھے۔ انتخابی امیدواروں پر حملے بھی کیے گئے، دو امیدوار اپنی زندگی کی بازی بھی ہار گئے۔ یہ تمام تر منفی سرگرمیاں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوششیں تھیں۔ بہرحال ہمیں فخر ہے اپنی سیکیورٹی فورسز پر، جنہوں نے شرپسندوں کی تمام سازشیں ناکام بناڈالیں اور انتخابات کا پُرامن اور شفاف انعقاد یقینی بنانے میں اپنا بھرپور کردار نبھایا۔ اس پر وہ تعریف اور مبارک باد کی مستحق ہیں۔ گو ملک میں گزشتہ سال بھر سے زائد عرصے سے دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ مسلسل سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کئی جوان جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ سیکیورٹی قافلوں پر حملے کیے جاتے ہیں، چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے ملک کے مختلف حصّوں میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز جاری ہیں اور ان میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ کئی دہشت گردوں کو مارا اور گرفتار کیا جاچکا ہے۔ متعدد علاقوں کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کیا جاچکا ہے۔ اور ان کارروائیوں کا سلسلہ تھما نہیں یہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک اسی طرح جاری و ساری رہیں گی۔ گزشتہ روز بھی ایک داعش کے دہشت گرد کو بلوچستان میں جہنم واصل کیا گیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں داعش کا مطلوب دہشت گرد مارا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا، فائرنگ کے تبادلے میں داعش کا مطلوب دہشت گرد عبدالشکور عرف نعمان عرف ابو حمزہ خراسانی موقع پر مارا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ہلاک دہشت گرد قلعہ سیف اللہ اور پشین کے دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ تھا، ہلاک دہشت گرد بلوچستان میں خودکُش دھماکوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا، سیکیورٹی فورسز بلوچستان کا امن و استحکام تباہ کرنے کی سازشیں ناکام بنادیں گی۔ پوری قوم کو اپنی سیکیورٹی فورسز پر فخر ہے۔ ان شاء اللہ وہ جلد دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ملک میں امن و امان کی فضا پھر سے بحال ہوگی۔ خوش حالی اور ترقی کے در وا ہوں گے۔ ملک پھر سے ترقی کی منازل تیزی سے طے کرے گا۔