Column

دھاندلی ہوئی کہ دھاندلہ

روہیل اکبر
آخر کار پی ٹی آئی کے امیدواروں نے میدان مار لیا وہ بھی واضح اکثریت سے حالانکہ انہیں دبانے کی، مارنے کی، گرفتار کرنے کی، ذہنی اور جسمانی اذیت دینے کی کی بھر پور کوشش کی گئی اور الیکشن کے آخر میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلہ سے ہرانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اس کے باوجود عوام باہر نکلے اور اپنے ووٹ کی طاقت سے بتا دیا کہ انہیں کپتان کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔ خیبر پختونخوا کے لوگوں نے اپنی جرات اور بہادری کو ثابت کر دیا اور ووٹوں پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو موقع نہیں دیا۔ خاص کر لوٹوں کا جو حشر کیا وہ ان کی آنے والی نسلوں کو بھی یاد رہے گا، لیکن پنجاب اور سندھ میں جو عوام کے ووٹوں پر ڈاکے ڈالے گئے اور جس طرح کی ویڈیو منظر عام پر آرہی ہیں وہ انتہائی قابل مذمت ہیں کہ کس طرح رزلٹ تبدیل کیے گئے۔ لاہور میں یاسمین راشد نے میاں نواز شریف کو ہرا دیا، لیکن جادوئی چھڑی نے اس نتیجہ کو تبدیل کر دیا۔ اسی طرح سیالکوٹ میں خواجہ آصف کا نتیجہ تبدیل کیا گیا وہ تو اس طرح کی ہیرا پھیریوں کے ماہر ہیں اور اس بات کا اظہار ہمارے سابق سپہ سالار بھی کر چکے ہیں کہ پچھلے الیکشن میں وہ ہار گئے اور پھر خواجہ صاحب نے فون کرکے اپنی ہار کو جیت میں کیسے تبدیل کرایا۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ میں کیا گیا یہ صورتحال ملک کے لیے خوشگوار نہیں ہوگی بلکہ اس سے ملک میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ویسے سوچنے کی بات ہے کہ اگر اسی طرح دھاندلی کرنی تھی تو پھر اتنے پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ میاں نواز شریف صاحب نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ساڈی گل ہوگئی ہے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری ملازمین کے ساتھ جو کیا وہ بھی نہیں ہونا تھا اس بات کا تو میں بھی چشم دید گواہ ہوں کہ لاہور کی ایک نکر سے دوسری نکر پر ملازمین کی ڈیوٹیاں لگائی گئی اور اوپر سے موبائل سروس بند کرکے انہیں پریشانیوں میں دھکیل دیا۔ بسوں اور ویگنوں میں خواتین اپنی ڈیوٹی کی جگہ پر پہنچی تو واپسی پر رات 12بجے انہیں کوئی سواری بھی نہیں ملی اور اوپر سے یہ حکم تھا کہ کوئی بھی رزلٹ لیکر خود سے آر او دفتر نہیں جائیگا بلکہ فوجی گاڑی آئے گی جو انہیں لیکر جائیگی یوں خواتین گھر والوں سے دور بے بس رہی جنہوں رات گزارنے کے لیے لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر دستک دی الیکشن کمیشن اگر ان کی ڈیوٹیاں ان کے گھر کے قریب لگا دیتا تو اس سے کیا فرق پڑنا تھا لیکن دور دراز کے علاقوں میں ڈیوٹیاں لگا کر انہیں بھی ذلیل و خوار کیا گیا اور اوپر سے ووٹروں کے حقوق پر جو ڈاکہ ڈالا گیا اسے بھی تاریخ یاد رکھے گی اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے امیدواروں نے پورے ملک میں کلین سویپ کیا۔ لاہور میں نواز شریف، مریم نواز شریف، حمزہ شہباز شریف، عطا تارڑ، عون چودھری اور علیم خان کو زبردستی جتوایا گیا کیونکہ فارم 45کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار جیت چکے تھے جبکہ فارم47میں انہیں ہرا دیا گیا اس بار لوگوں کا جوش خروش بھی زیادہ تھا جو الیکشن کے بعد بھی جاری ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آزاد جیتنے والے افراد پیسے کے لالچ میں پیپلز پارٹی یا ن لیگ میں شامل ہوجائیں گے میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ یہ سب وہ لوگ ہیں جو مشکل ترین وقت میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے اور پارٹی نے انہیں نامزد کرتے وقت بھی ضرور دیکھا ہوگا کہ مشکل وقت میں یہ لوگ کہاں تھے خاص کر میں خراج تحسین پیش کرونگا۔ ڈی پی او ڈیرہ غازی خان احمد محی الدین کا جنہوں نے شدید دبائو میں بھی اپنا فرض نبھایا اور کسی بھی ایسی دو نمبری کا حصہ بننے سے انکار کر دیا جس کی بدولت کسی اور کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالا جاتا کاش اسی طرح کی بہادری ہمارے دوسرے پولیس افسر بھی دکھا جاتے تو پاکستان کی سمت درست ہو جانی تھی اور چوروں، ڈاکوئوں سے قوم کی جان بھی چھوٹ جانی تھی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا بلکہ رہی بات الیکشن نتائج تبدیل ہونے کی اس حوالہ سے تمام متاثرہ فریقین عدالتوں میں پہنچ چکے ہیں۔ امید ہے کہ دوبارہ گنتی کے دوران انہیں انکا حق مل جائیگا اسلام آباد سے فارم45میں جیتنے والے سید محمد علی بھی اپنا سارا ریکارڈ لیکر عدالت کے دروازے پر دستک دینے پہنچ چکے ہیں ویسے تو پاکستان میں الیکشن میں دھاندلی کی تاریخ کوئی نئی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد ہی اس کی بنیاد رکھ دی گئی تھی محترمہ فاطمہ جناح کو ہروایا گیا اس وقت عوامی شعور بھی اتنا نہیں تھا جتنا اب ہوچکا ہے اس کے بعد سے لیکر اب تک انتخابات میں دھاندلی رکنے کا نام نہیں لے رہی اور جو دھاندلی کے اس کھیل میں ملوث ہیں وہ بھی عوام کے سامنے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں اس بار اگر پھر پی ڈی ایم طرز کی حکومت بنی تو آنے والے دور میں ہر پاکستانی اپنے کپڑے بیچنے پر مجبور ہو جائیگا مہنگائی جن بے قابو ہو جائیگا۔ غریب خودکشیاں شروع کر دیگا اور بے روزگاری میں بے انتہا اضافہ ہو جائیگا غیر ملکی قرضہ حد سے تجاوز کر جائیگا اور ملک میں ڈیفالٹ کی بازگشت سنائی دینا شروع ہوجائیگی اس لیے اب ملک کے بڑوں کو چاہیے کہ پی ڈی ایم طرز کے تجربے کو دوبارہ نہ دہرایا جائے بلکہ انہیں حکومت بنانے کی آزادی دی جائے جنہوں نے میدان مارا ہے۔ اگر عوامی امنگوں کے مطابق حکومت نہ بنی تو پھر ملکی حالات خراب ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی حالات بھی خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہو جائیگا۔ اس وقت عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار واضح اکثریت حاصل کر چکے ہیں اگر انہیں ڈنڈے کے زور پر ہانکنے کی کوشش کی گئی تو عوامی رد عمل سامنے آسکتا ہے، کیونکہ خیبر پختونخوا میں تو پی ٹی آئی کی حکومت بننے جارہی ہے اور وہاں کے لوگوں کا جوش و جذبہ بھی قابل ستائش ہے جنہوں نے مشکل وقت میں نہ صرف پارٹی کا ساتھ دیا بلکہ اسے الیکشن میں سرخرو بھی کر دیا ویسے تو یہی صورتحال پورے ملک کی تھی فرق صرف اتنا ہے کہ کے پی کے والوں نے اپنے ووٹ پر نہ صرف پہرہ دیا بلکہ اسکی حفاظت بھی کی جبکہ دوسرے صوبوں کے لوگوں نے ووٹ تو دیدیا لیکن اس پر پہرہ نہ دے سکے جس کی وجہ سے راتوں رات نتیجے تبدیل کر دئیے گئے۔ اب بھی عدالتوں سے امید ہے کہ وہ سب کے ساتھ پورا پورا انصاف کریگی کہ الیکشن منصفانہ ہوئے ہیں یا پھر دھاندلی ہوئی کہ دھاندلہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button