Column

مسلم لیگ ن کو حسبِ توقع کامیابی کیوں نہ مل سکی؟

رفیع صحرائی
انتخابی نتائج کا اعلان ہو چکا۔ بڑے بڑے نام شکست سے دوچار ہو گئے ہیں۔ آزاد امیدواران نے میدان مار لیا ہے۔ ان آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے امیدواران میں سے بڑی تعداد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواران کی ہے۔ مسلم لیگ ن دوسری بڑی پوزیشن پر براجمان ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر رہی ہے۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو بلاشبہ نئی سیاسی زندگی ملی ہے۔ پیپلز پارٹی کو قصہ پارینہ قرار دینے والے اس کی بڑی کامیابی اور کم بیک پر انگشت بدنداں ہیں کہ یہ معجزہ کیسے ہو گیا۔ بلاشبہ آصف زرداری کے تجربے کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری کے تازہ خون اور ولولے نے پارٹی میں نئی روح پھونک دی ہے۔
انتخابات سے قبل بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری سرویز میں پاکستان مسلم لیگ ن سنگل لارجسٹ پارٹی کے روپ میں سامنے آ رہی تھی۔ اعتماد کا یہ عالم تھا کہ الیکشن سے دو دن پہلے پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر پورے صفحے کا خبر نما اشتہار ڈیزائن کر کے چھپوایا گیا تھا جس میں میاں نواز شریف کے چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کی خوشخبری دی گئی تھی۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ 8فروری کو میاں نواز شریف نے وکٹری تقریر بھی تیار کر لی تھی مگر جب نتائج آنا شروع ہوئے تو تمام امیدوں پر اوس پڑ گئی۔
اگر الیکشن کمیشن کی کارکردگی کی بات کی جائے تو اسے قریباً چھ سال کا عرصہ صرف الیکشن کی تیاری کا ملا تھا۔ بلا شبہ اس نے الیکشن کا انعقاد کافی شفاف طریقے سے کروایا ہے۔ گزشتہ ہونے والے انتخابات کی نسبت حالیہ الیکشن میں ناخوشگوار واقعات کی شرح کم رہی۔ موبائل سروس کی بندش پر گو سوالیہ نشانات اٹھائے گئے مگر اسی بندش نے پرامن انتخابات کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا۔ البتہ رات قریباً گیارہ بجے نتائج آنے میں اچانک رکاوٹ پیدا ہو گئی جو کئی گھنٹے جاری رہی۔ نتائج کی تاخیر سے آمد نے سوالیہ نشان اٹھائے ہیں۔
یہ سوال بڑا اہم ہے کہ تمام تر سروے غلط کیسے ثابت ہو گئے اور مسلم لیگ ن حسبِ توقع کامیابی کیوں حاصل نہ کر سکی؟۔ غور کیا جائے تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں سب سے بڑی وجہ میاں شہباز شریف کی سولہ ماہ کی حکومت ہے۔ میاں شہباز شریف مہنگائی ختم کرنے کے نعرے کے ساتھ آئے تھے مگر عوام کو ریلیف نہ دے سکے۔ الٹا ان کے دورِِ حکومت میں مہنگائی میں اضافہ ہو گیا۔ گو وہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کی مشترکہ حکومت تھی لیکن اس کی بری پرفارمنس کا خمیازہ مسلم لیگ ن کو بھگتنا پڑا ہے۔ خود میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف نے بھی اپنے خطابات اور بیانات میں اس حکومت کو اون نہیں کیا۔ وہ میاں نواز شریف کی چار سالہ حکومت کی کارکردگی کو ہر جگہ کیش کروانے کی کوشش کرتے رہے۔ اگر عمران خان کے خلاف کامیاب عدمِ اعتماد کے بعد فوراً ہی الیکشن کروا دئیے جاتے تو مسلم لیگ ن زیادہ آسانی کے ساتھ سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی تھی۔
مسلم لیگ ن کے راستے کی ایک اور مشکل دیر سے الیکشن مہم شروع کرنا بھی رہی۔ ان کے مقابلے میں بلاول بھٹو نے قریباً ایک ماہ پہلے ہی انتخابی مہم شروع کر دی تھی۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ن نے اپنا منشور پیش کرنے میں بھی بہت دیر کر دی۔
مسلم لیگ ن نے اپنے بڑے سیاسی جلسے بھی بہت کم تعداد میں کیے۔ یہ ایک تاثر بنا دیا گیا تھا کہ میاں نواز شریف ہر صورت میں اگلے وزیرِ اعظم بن رہے ہیں۔ اس لیے اس کے ورکرز نے اس طرح بھرپور محنت نہیں کی جتنی کرنی چاہیے تھی۔ اس کے مقابلے میں ان کے حریفوں نے زیادہ منظم انداز میں مہم شروع کی۔ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اکثریت ہمیشہ سہل پسند اور غیر منظم ہوتی ہے جبکہ اقلیت خوب منظم ہوتی ہے۔ چونکہ مسلم لیگ ن کے ورکرز کو یقین ہو گیا تھا کہ جیت صرف انہی کی ہے لہٰذا وہ سست ہو گئے۔ ان کی سستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا ووٹر زیادہ تعداد میں نہیں نکلا۔ اس کے ووٹرز نے ذمہ داری کے ساتھ ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی جبکہ ان کے مخالفین نے منظم انداز میں ایک مشنری جذبے کے تحت الیکشن مہم چلائی اور اپنے ووٹرز کو زیادہ تعداد میں نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ موجودہ الیکشن اور گزشتہ الیکشن کے ٹرن آئوٹ میں فرق نہیں پڑا۔ فرق یہ پڑا ہے کہ ن لیگ کے ووٹرز کم اور مخالفین کے ووٹرز زیادہ تعداد میں نکلے۔
الیکشن سے عین پہلے عمران خان کی یکے بعد دیگرے تین مقدمات میں سزائیں بھی ان کے لیے ہمدردی اور مسلم لیگ ن کے لیے مخالفت کا باعث بن گئیں۔ مسلم لیگ ن کو اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی ’’ ساڈی گل ہو گئی اے‘‘ کے تاثر کو تقویت دینے کی پاداش میں ان سزائوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button