Columnمحمد مبشر انوار

آواز خلق

محمد مبشر انوار( ریاض)
طاقتوروں کی سب بڑی کمزوری کہیں یا خود سے زیادہ پر اعتمادی کہیں کہ وہ کبھی بھی خلق خدا کی آواز سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے، تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ خواہ ملکہ فرانس ہو یا دور جدید میں جمہوریت کی چمپئن ریاست امریکہ اور اس کے حکمران ہوں، ان کے کان خلق خدا کی آہوں پر نہیں کھلتے البتہ جب یہی خلق خدا ان کے محلوں پر دھاوا بولتی ہے تو چشم فلک ایسے ایسے مناظر دیکھتی ہے کہ جن کو دیکھ کر روح تک لرز جاتی ہے۔ ملکہ فرانس نے کس قدر روانی اور لاعلمی میں یہ فقرہ کہا ہو گا کہ اگر عوام کو روٹی میسر نہیں تو وہ کیک کھا لیں لیکن اس ایک فقرے نے خلق خدا کو کیسے بر انگیخت کیا اور کس طرح بے بس عوام نے اپنی بے بسی کا انتقام شاہی خاندان سے لیا، سب تاریخ کا حصہ ہے لیکن مجال ہے کہ اس ایک واقعہ سے حکمران سدھرے ہوں، ان کی چیرہ دستیاں ہنوز جاری ہیں تاوقتیکہ خلق خدا دوبارہ اٹھ کر ان کو گریبانوں سے پکڑ کر زمین پر نہیں گھسیٹتی یا ان کے محلوں کو آک نہیں لگا دیتی یا ان حکمرانوں کو پھانسی گھاٹوں تک نہیں لے جاتی بعینہ جیسے فرانس کے شاہی خاندان کو پھانسیاں دی گئی اور انہیں سرعام قتل کیا گیا۔ آج بھی عالمی و علاقائی سطح پر طاقتور فرعون بنے بیٹھے ہیں اور فقط ذاتی و ریاستی مفادات کی خاطر عوام الناس کا خون ارزاں کئے ہوئے نظر آتے ہیں وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ انسانی حقوق کی چمپئن ریاست کے سامنے بے گناہ و نہتے عوام کو خاک و خون میں نہلایا جا رہا ہو اور وہ ایک ہی رٹ لگائے رہے کہ ہم اسرائیل کو حق دفاع سے محروم نہیں رکھ سکتے اور ہم اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مسلم دشمنی میں یہ عالمی طاقت اس حد تک گر چکی ہے، عالمی سطح پر اس کا بدکردار چہرہ عیاں ہو چکا ہے لیکن اس سب کے باوجود، وہ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اسرائیلی بربریت کے پیچھی کھڑی نظر آتی ہے بلکہ یہی نہیں اسرائیل کی حفاظت میں کئی ایک دوسری ریاستوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی جاری ہے اور ہمیشہ کی طرح پس پردہ یہی ریاست کارفرما نظر آتی ہے کہ جس مسلم ملک کو رتی برابر بھی فلسطینیوں کو دکھ ہے یا وہ ان کی مدد کرنے کو تیار ہیں،ان ریاستوں کو داخلی معاملات میں الجھا کر، اسرائیل کے لئے بھرپور موقع فراہم کر دیا جائے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو، غزہ کے مسلمانوں کو یا ختم کر دے یا انہیں غزہ سے نکال باہر کرے۔ تاحال اسرائیل اپنی تمام تر بربریت اور بیرونی حمایت کے باوجود غزہ کے مسلمانوں کے حوصلے ختم کرنی میں کامیاب نہیں ہو سکا اور فلسطینی مسلمان اس درندگی کا مقابلہ انتہائی جوانمردی سے کر رہے ہیں، چشم فلک نے ایسی ثابت قدمی کا نظارہ خال ہی کیا ہو گا کہ ایک بے بس اور نہتی قوم، جس ہم مذہب دنیا کا چوتھائی حصہ ہوں، کو یوں تہ تیغ کیا جا رہا ہو اور وہ اس عالم میں بھی صرف اپنے رب کی مدد چاہتی ہو۔ دنیا کی چوتھائی آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ بھیڑیوں کے غول میں پھنسا ہے اور تقریبا چھپن مسلم ریاستیں، اپنے بہن بھائیوں کی مدد کو پہنچنے سے قاصر، سوائے مذمتی بیان یا جنگ بندی کی التجائیں کرنے کے علاوہ عملا کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں، ان چھپن ریاستوں میں ایک ایسی ریاست بھی ہے، جو خود کا اسلام کا قلعہ کہلایا کرتی تھی، جو آج ایک ایٹمی طاقت ہے لیکن اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کی امداد کو نہیں پہنچ سکتی۔
اب تو فلسطینیوں کی امداد بہت دور کی بات ہے کہ یہ ریاست اپنے داخلی معاملات میں اس بری طرح الجھی دکھائی دیتی ہے، دکھائی دیتی ہے حقیقتا ایسا نہیں کہ اگر چاہے تو فقط ایک قدم اٹھا کر اس سارے قیاس سے بآسانی نکل سکتی ہے، کہ اسے باقی دنیا کی چنداں خبر تک سنائی نہیں دیتی۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ 7اکتوبر2023ء سے شروع ہونے والی اس نسل کشی پر ابتداء میں تو بہت شور مچا لیکن آج وہ ساری زور و شور نجانے کہاں گیا اور کسی ایک ریاست میں یہ دم خم دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اٹھ کر ظالم کا ہاتھ روک سکے؟ پس پردہ کیا چل رہا ہے، اس کے متعلق کچھ یقین سے کہنا ممکن نہیں رہا کہ ابتداء میں جو ہلچل نظر آئی تھی، وہ اب معدوم دکھائی دیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ، مسلم ممالک کے روس و چین کے دورے، اور ان ممالک کے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی و انسانی حقوق کے حوالے سے عزم بھی اب کھٹائی میں پڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم ممالک کا ان دو ریاستوں پر انحصار رائیگاں گیا ہے کہ یہ دو ریاستیں بھی اپنے مفادات کی اسیر دکھائی دیتی ہیں اور اس قتل انسانیت پر ان کی پراسرار خاموشی، انہیں بھی مخالفین کی صف میں کھڑا کرتی ہے۔ بہرحال یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ایک طرف عالمی طاقت نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تو دوسری طرف وہ مسلم ممالک کو داخلی معاملات میں الجھا چکی ہے، بالخصوص پاکستان میں، جسے مغرب سے مغلوب و متاثر افراد کسی کھاتے میں نہیں رکھتے اور ان کے نزدیک پاکستان کی عالمی سطح پر اتنی اہمیت ہی نہیں کہ اسے قابل غور سمجھا جائے، اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کو شروع کرنے سے پہلے پاکستان کو داخلی انتشار میں دھکیلنا فرض اولین ٹھہرتا ہے۔ رجیم چینج آپریشن کے بعد جو مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، وہ ان طاقتورں کے ساتھ ساتھ، ان کے مہروں کے لئے بھی باعث شرمندگی و ذلالت سے کسی طور کم نہیں کہ لندن پلان کے مطابق یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ جیسے ہی ایک بھگوڑا اس سرزمین پاکستان پر اترے گا، لوگ جوق در جوق اس کے استقبال کے لئے اکٹھے ہو جائیں گے اور اپنی سابقہ مقبولیت کے بل بوتے پر، اسے عوامی پذیرائی حاصل ہو جائے گی۔ اس کی مقبولیت کو یقینی بنانے کے لئے، سرزمین پاکستان کو سر زمین بے آئین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی لیکن افسوس کہ یہ سب حربے الٹے پڑ چکے ہیں اور اس کے لئے ہر جگہ شرمندگی ہی شرمندگی نظر آتی ہے الگ بات کہ نہ اسے ار نہ اس کے حواریوں کو اس میں کوئی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے بلکہ ابھی تک ڈھٹائی کے ساتھ ایک طرف یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’ ساڈی گل ہو گئی اے‘‘ اور دوسری طرف عمران خان کو صلواتیں سناتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس نے قوم کو بدتمیز بنا دیا ہے۔
قوم کی بدتمیزی یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی جلسہ کرنے جاتے ہیں، وہاں عوام کی تعداد انتہائی کم دکھائی دیتی ہے جو یقینا ماضی کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے کی شایان شان نہیں اور طرہ یہ کہ ان جلسیوں میں بھی لائے جانے والے لوگوں میں سے، ایک ٹولی اٹھ کر وزیر اعظم عمران خان کے نعرے لگاتی ہے، مریم کے پاپا چور ہیں کے نعرے لگاتی ہے، سارا ٹبر چور ہے کے نعرے لگا کر آئینہ دکھاتی ہے۔ سیاسی میدان میں ایسے نظارے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں کہ مخالف جماعت کے جلسے میں یوں ببانگ دہل نعرے لگائے گئے ہوں اصولا کسی مخالف سیاسی جماعت کے جلسے میں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہاں حادثے کا شدید امکان ہوتا ہے لیکن تحریک انصاف کے کارکنان، اس وقت ایسے عالم میں ہیں کہ انہیں اس کی چنداں کوئی پرواہ نظر نہیں آتی ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ایک طرف ان کا قائد پابند سلاسل ہے تو دوسری طرف ان کے امیدواران روپوش ہیں، انہیں سیاسی میدان میں نکلنے کی اجازت ہی نہیں، ان پر دھڑا دھر مقدمات بنائے جا رہے ہیں، ان سے ان کا آئینی حق چھینا جا چکا ہے، انہیں عوام میں نکلنے نہیں دیا جا رہا، ایسے میں ان کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لئے اس کے علاوہ اور کیا موقع بچتا ہے؟ تحریک انصاف کے کارکنان اپنی آواز کو، اپنے ہمدردیوں کو بھرپور طریقے سے طاقتوروں کو سنوانا چاہتے ہیں کہ ان پر جبرو دھونس کا کوئی بھی حربہ کارگر نہیں ہو سکتا اور ان کا ووٹ صرف اور صرف عمران خان کا ہے، اگر طاقتور واقعی ملک میں انتخابات کروانے میں سنجیدہ ہیں تو پھر جمہور کی آواز پر کان دھریں وگرنہ کسی بھی ایسے شخص کو مسلط نہیں کرنے دیا جائیگا جو عوام کی نمائندگی نہ کرتا ہو۔ ملکی تاریخ کا یہ عجب انتخاب ہے کہ آج ووٹر امیدوار کی تلاش میں ہے جبکہ ماضی میں امیدوار کو ہی ووٹر تلاش کرنا پڑتا تھا اور یہاں ایک اور صورتحال بھی نظر آئی کہ تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین کر اسے آزاد امیدوار انتخاب میں کھڑے کرنے پڑے ہیں، جس کے پس پردہ یقینی طور پر طاقتوروں کا یہ خیال رہا ہو گا کہ آزاد امیدواروں کو توڑنا انتہائی سہل ہوگا اور وہ ماضی کی طرح منتخب ہونے والے ان آزاد امیدواران کو بآسانی اپنے ساتھ شامل کر لیں گے لیکن ووٹر اس قدر بالغ نظر ہو چکا ہے کہ وہ انتخابی جلسوں اور کارنر میٹنگز میں اپنے امیدوار سے صرف ایک وعدہ طلب کر رہا ہے کہ جیتنے کے بعد انہیں کسی قسم کے ترقیاتی کاموں سے کہیں زیادہ اپنے ووٹ کی ضمانت چاہئے، کامیابی کے بعد ان کا ووٹ عمران خان کے لئے ہوگا۔
وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ عوامی شعور بھی تبدیلی کی منزلیں طے کر رہا ہے اور بساط بچھانے والوں کی چالوں کو بخوبی سمجھ رہا ہے، اس لئے آزاد امیدوار کو کامیاب کروانے والے ووٹر، اپنے امیدوار سے صرف ایک عہد لے رہے ہیں کہ کامیابی کے بعد، ان کا ووٹ کسی بھی صورت عمران خان کے مخالف نہیں جائیگا وگرنہ جو ووٹر اپنے امیدوار کو کامیاب کروا رہا ہے، کل کو اس امیدوار کی سیاست ختم بھی کر سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے، بالخصوص پنجاب میں جو امتیازی سلوک تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے، پیپلز پارٹی ماضی میں اس کو بھگت چکی ہے لیکن اس مرتبہ عوام ماضی کی نسبت زیادہ باشعور اور پرعزم دکھائی دیتی ہے کہ طاقتوروں کی اس منصوبہ کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائیگا اور کسی ’’ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے‘‘ والے کو تسلیم نہیں کرے گی، ریاست پاکستان کی بقا، ترقی و خوشحالی اور مضبوطی کا انحصار اجتماعی شعور میں مضمر ہے، کیا طاقتور پاکستان کی بقا، ترقی و خوشحالی و مضبوطی کی خاطر’’ آواز خلق‘‘ پر کان دھرنے کے لئے تیار ہیں!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button