ColumnImtiaz Aasi

اٹھارہ ارب کہاں سے آئے؟

امتیاز عاصی
ایک وقت تھا وطن عزیز نے جاپان جیسے ملک کو قرض دیا جس کی بنیادی وجہ ملک کی باگ دوڑ راست باز لوگوں کے پاس تھی۔ ملک وجود میں آیا تو بانی پاکستان اور ان کے رفقاء سرکاری رقم سے چائے کا کپ اپنے لئے ممنوع تصور کرتے تھے۔ پھر قوم نے وہ وقت بھی دیکھا اقتدار سنبھالنے والوں نے چائے کا پیالہ اپنی جیب سے پینے کو حرام سمجھا اور رفتہ رفتہ ہمارا ملک مقروض سے مقروض تر ہوتا گیا اور آئی ایف ایم جیسے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے پاس گروی ہو گیا۔ ہوس زر کی نہ ختم ہونے والی دوڑ نے کرپشن کو ایسا فروغ دیا جس کا خاتمہ خواب بن گیا ہے۔ کرپشن کے خلاف وفاقی اور صوبائی اداروں نے سیاست دانوں کے خلاف کھربوں کی مبینہ کرپشن کے مقدمات قائم کئے جن کا نتیجہ صفر نکلا۔ ستم ظرفی یہ ہے ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کرتی ہے برسوں گزرنے کے باوجود ان کیسز کا فیصلہ نہیں ہوتا جب ماحول سازگار ہو تو تمام مقدمات ختم ہوجاتے ہیں۔ قوم کے ساتھ یہ کھلواڑ برسوں سے جاری ہے عجیب تماشا ہے کرپشن میں ملوث بڑے بڑے لوگوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں کسی غریب کے خلاف مقدمہ ہو تو چند ماہ میں اس کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ قوم کو کیسے کیسے رہنمائوں سے پالا پڑا ہے کھربوں کے قرضے لے کر معاف کرا لیتے ہیں ٹیکسوں اور مہنگائی کا سارا بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ انکم ٹیکس سرکاری ملازمین دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں قانون پر عمل داری کا یہ عالم ہے گزشتہ دور میں لاکھوں افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا اب نگران دور میں نان فائلر کے خلاف کارروائی کا عندیہ دینے کے باوجود ان کے بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ نہ جانے اس قوم سے کھلواڑ کب ختم ہو گا اور ہمارا ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکے گا۔ بشری کمزوریوں سے کوئی پاک نہیں اور نہ کوئی صوفی ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ عمران خان کی کرپشن کے خلاف جدوجہد بوجہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی البتہ ہم وطنوں کو کرپشن کرنے والوں سے کم از کم روشناس کر ا دیا ۔ اس کے مخالفین خواہ کچھ کہتے رہیں عشروں سے راست بازی کا لبادہ اوڑھے کرپشن کرنے والوں کی عوام کو جان پہچان کرانے کا سہرا اسی کے سر ہے۔ وہ جیل میں ہوتے ہوئے کرپشن کے خلاف علم بلند کئے ہوئے ہے۔ سینٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران اخبار نوسیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیراعظم نے شکوہ کیا نواز شریف کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمات ختم ہوگئے ساتھ الزام لگایا انتظامیہ اور الیکشن کمیشن نواز شریف کی مدد کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے بیٹے نے اٹھارہ ارب کا گھر بیچا یہ رقم کہاں سے آئی انہوں نے کہا یہ سرٹیفائیڈ منی لانڈر ہیں۔ عمران خان کی بات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے کوئی عام آدمی بزنس شروع کرے تو متعلقہ ادارے اس سے رقم کے ذرائع پوچھنے میں تامل نہیں کرتے نواز شریف اور ان کے خاندان کے لوگوں کو بھلا کون پوچھ سکتا ہے۔ قوم کی بڑی بدقسمتی یہی ہی ملک میں چھوٹوں کو سزا اور بڑوں کو بری کر دیا جاتا ہے جانے یہ سلسلہ کب ختم ہوگا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے اب تک سیاست دانوں اور بااثر کاروباری لوگوں نے قومی خزانے سے کھربوں روپے قرض لینے کے باوجود واپس نہیں کئے بلکہ معاف کرا لئے جس سے ہمارا ملک مقروض سے مقروض تر ہو گیا۔ انتخابات کو دو ہفتے رہ گئے ہیں قریبا ایک کھرب روپے کے اخراجات آئیں گے۔ الیکشن منصفانہ نہ ہوئے تو اتنی بڑی رقم کے ضائع ہونے کا احتمال ہے۔ جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کو جلسے اور ریلیوں کی اجازت ہوتی ہے آنے والے انتخابات اس لحاظ سے منفرد ہوں گے سیاسی جماعتوں کو جلسے کرانے میں امتیاز برتا جا رہاہے۔الیکشن میں غیر ملکی مبصرین کی آمد سے کسی قسم کی دھاندلی کی صورت میں انتخابات متنازعہ ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل قوم میں تبدیلی کی لہر آچکی ہے عوام روایتی سیاست دانوں کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں عوام کو ان کی مرضی کے برعکس سیاست دانوں کو اقتدار سونپا گیا تو عوام کے سڑکوں پر نکلنے کے امکانات واضح ہیں اس کے ساتھ عوام کو بھی چاہیے 8فروری کو گھروں سے نکلیں اور نہ صرف ووٹ ڈالیں بلکہ اپنے ووٹ کی حفاظت بھی کریں تاکہ ان کی خواہش کے برعکس سیاست دان اقتدار میں نہ آسکیں۔ عوام الیکشن کے روز گھروں میں رہے تو ان کے مسائل جوں کے توں رہیں گے اور ملک لوٹنے والے ہمیشہ کی طرح لوٹ مار کرتے رہیں گے۔ آنے والے انتخابات پاکستانی قوم کا ایک طرح سے امتحان ہے وہ امتحان میں تبھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں جب وہ اپنا حق رائے دہی کرپشن کرنے والوں کے خلاف استعمال کریں گے۔ بقول علامہ اقبالؒ :
اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو اپنی حالت خود بدلنے کی فکر نہ ہو۔
حیرت ہے جو سیاست اقتدار میں رہ کر مہنگائی کم نہیں کر سکے الیکشن میں ووٹ کے حصول کی خاطر عوام کو مہنگائی ختم کرنے کا جھانسہ دے رہے ہیں۔ شائد ایسے سیاست دانوں کا یہ روایتی حربہ ا س الیکشن میں کارگر ثابت نہ ہو سکے کیونکہ عوام میں بیداری آگئی باشعور لوگ ووٹ کی طاقت سے کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو ووٹ کی طاقت سے مسترد کریں گے۔ جب تک ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ لوگوں کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب سب سے یکساں سلوک ہو جیسا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔ اس فارمولے پر عمل کئے بغیر نہ تو ملک سے کرپشن ختم ہو سکتی ہے نہ ہمارا ملک ترقی کے راستے پر چل سکے گا لہذا تمیز کئے بغیر کرپٹ افراد کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جاتا کرپشن کا خاتمہ خواب رہے گا ورنہ کرپشن کے خلاف قائم اداروں پر قومی خزانے کے اربوں روپے سالانہ خرچ کرنا بے سود ہوگا۔ انتخابات میں راست باز قیادت نہ آئی تو کرپشن کو مزید فروغ ہوگا عوام کو چاہیے الیکشن میں اچھی ساکھ کے لوگوں کو ووٹ دے کر کامیاب کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button