Editorial

رام مندر کا افتتاح، سیکولر بھارت پر کلنک

تقسیمِ ہند کو 76سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ انگریزوں سے آزادی کے بعد سے بھارت میں رام مندر کی تعمیر کا قضیہ وقتاً فوقتاً اُٹھتا رہا، انتہاپسند اس حوالے سے مصروفِ عمل رہے، لیکن ابتدائی 45سال اس حوالے سے انتہاپسند ہندوئوں کی سعی لاحاصل ٹھہرے کہ اُس وقت کی حکومتوں نے ان سازشوں کا دانش مندی کے ساتھ توڑ کیا، انہیں کسی طور کامیاب نہ ہونے دیا، لیکن 1990کی دہائی میں رام مندر کی سیاست بے پناہ زور پکڑ گئی تھی۔ بھارت کے لاکھوں انتہا پسندوں نے 6دسمبر 1992کو ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا، بھارت میں رام مندر کے نام پر کی جانے والی سیاست نے کئی بار مسلم کش فسادات کرائے۔ ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر بھی شدید نوعیت کے مسلم کُش فسادات ہوئے تھے، جن میں کافی بڑی تعداد میں مسلمان شہید کیے گئے، بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں انتہاپسندی کافی حد تک سرایت کر گئی تھی۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔ عام مسلمان کو دہشت گرد ٹھہرانے کی کوشش کی گئی۔ یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے اب بھارت کی دوسری اقلیتوں سے بھرپور نفرت کے موڑ تک آچکا ہے۔ بھارت میں بسنے والی تمام ہی اقلیتیں ہندو انتہاپسندوں کے نشانے پر ہیں۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد انتہاپسندی عروج پر جا پہنچی ہے۔ پچھلے دس سال بھارت کے تمام تر مثبت تاثرات کو پوری دُنیا میں بُری طرح تباہ کر چکے ہیں۔ بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم قرار پا چکا ہے، جہاں انتہاپسند ہجوم اقلیتوں کے لوگوں سے حقِ زیست چھیننے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ مسلمان بھارتی انتہا پسند ہندوئوں کے خاص نشانے پر رہتے ہیں۔ ان پر جھوٹے الزام دھر کر زندگی چھین لی جاتی ہے۔ مسلمان لڑکیوں کے عصمت دری کے واقعات عام ہیں۔ مسلمانوں کی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں۔ کئی عبادت گاہیں اور مزارات شہید کیے جاچکے ہیں۔ اسی طرح دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے بھی ڈھیروں واقعات ہیں۔ اُن پر بھی ظلم و ستم کی انتہائیں کردی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے بھارت میں علیحدگی کی کئی تحاریک بیک وقت پنپ رہی اور زور پکڑرہی ہیں۔ جیسا کہ کہا گیا کہ ایودھیا کی بابری مسجد کو رام کی جنم بھومی ٹھہرا کر 32سال قبل شہید کیا گیا تھا، اب اُس پر رام مندر تعمیر کرکے اُس کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اتر پردیش کے شہر ایودھیا (فیض آباد) رام جنم بھومی مندر کا افتتاح کر دیا۔ اس تقریب کو مودی سرکار نے انتخابی مہم کا حصہ بناکر غیر معمولی، بلکہ فیصلہ کن سیاسی فوائد بٹورنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں، اس موقع پر تامل ناڈو نے رام مندر کی افتتاحی تقریب براہِ راست ٹیلی کاسٹ کرنے پر ریاست بھر میں پابندی عائد کردی تھی، بھارت کی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ تامل ناڈو کی حکومت نے رام پوجا پر بھی پابندی عائد کردی ہے، ان کا کہنا تھا کہ تامل ناڈو میں 200رام مندر ہیں۔ ریاستی حکومت نے ریاستی انتظام و انصرام کے تحت چلائے جانے والے تمام مندروں میں رام پوجا پر پابندی لگادی ہے، نرملا سیتارمن کا کہنا تھا کہ جو لوگ نجی طور پر رام پوجا کا انتظام کررہے ہیں پولیس انہیں بھی روک رہی ہے۔ کسی کو شامیانہ لگاکر یہ پوجا کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ،تامل ناڈو کابینہ کے ایک رکن نے گزشتہ روز وضاحت کی تھی کہ ریاستی حکومت نے رام جنم بھومی مندر کی افتتاحی تقریب کی لائیو کوریج پر پابندی عائد نہیں کی، اس توضیح سے معاملہ درست نہ ہوا تو پیر کو سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن کے جواب کہا کہ رام مندر کی افتتاحی تقریب کی لائیو کوریج کا اجازت نامہ منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری جانب پاکستان نے بھارتی شہر ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر و تقدیس کی شدید مذمت کردی ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ہندو انتہا پسندوں نے 6دسمبر 1992 ء میں صدیوں پرانی مسجد کو شہید کردیا تھا، افسوس ناک طور پر بھارت کی اعلیٰ عدلیہ نے نا صرف اس نفرت انگیزی میں ملوث ملزموں کو رہا کر دیا بلکہ اس مقام پر ایک مندر قائم کرنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق یہ تقریب گزشتہ 31سال میں بھارت میں بڑھتی اکثریت پسندی کی نشاندہی کرتی ہے، یہ بھارتی مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی پسماندگی کے لیے جاری کوششوں کا اہم حصہ ہے۔ مزید کہا گیا کہ شہید کی گئی مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر آنے والے وقتوں میں بھارت کے جمہوریت کے چہرے پر دھبہ بنے گی، یہ بات قابل ذکر ہے کہ وارانسی کی گیانواپی مسجد اور متھورا کی عید گاہ مسجد سمیت کئی مسجدوں کو بھی بے حرمتی کے خطرے کا سامنا ہے۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر اور اس کا افتتاح ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ رواں سال بھارت میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ رام مندر کے افتتاح کے لیے مودی سرکار نے سیاسی فوائد سمیٹنے کے لیے اس موقع کا انتخاب کیا۔ ہندو انتہاپسند مودی سرکار سے بے پناہ خوش ہیں۔ انتخابات میں رام مندر کا افتتاح بی جے پی کے لیے انتہاپسند ووٹوں کے حصول کا باعث ثابت ہوسکتا ہے۔ دُنیا اچھی طرح واقف ہے کہ مودی سرکار پچھلے عام انتخابات میں پلوامہ ڈرامہ رچا کر اقتدار پر قابض ہوئی تھی۔ الزام پاکستان پر دھرا گیا تھا۔ اس بار بھی اس کی جانب سے کوئی بھی ایسا نیا ڈرامہ رچایا جاسکتا ہے۔ بھارت کی کئی مشہور شخصیات نے بھی رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرکے اپنے انتہاپسند باطن کو کُھل کر دِکھادیا ہے۔ دُنیا کے سامنے امن کے سفیر کہلانے والوں کے اندر چھپا کٹر ہندو انتہاپسند ظاہر ہوگیا ہے۔ ان کا جوش و خروش اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ بھارت کے باشعور لوگ رام مندر کے افتتاح کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ وہ باضمیر ہیں اور انتہاپسندی سے کوسوں دُور۔ وہ ہندو ہونے کے باوجود اس مندر کے افتتاح کو سیکولر بھارت کے لیے کلنک ٹھہراتے نہیں تھک رہے۔ ایسے باشعور لوگوں کو آئندہ بی جے پی کی انتہاپسند حکومت کو اپنے ملک میں برسراقتدار نہ آنے دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بے شعوری میں ظالموں کا ہمنوا بننے والوں کو راہ راست پر لانا ہوگا۔ بھارت کا امیج تباہ کرنے والوں سے متعلق عوام کو آگہی دینا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو بھارت مزید تباہیوں کی طرف تیزی سے گامزن ہوجائے گا اور جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر کئی ریاستوں میں بٹ جائے گا۔
نگران پنجاب حکومت کی شاندار کارکردگی
ملک بھر میں نگران سیٹ اپ کو آئے کچھ ماہ ہوئے ہیں جب کہ پنجاب میں نگران حکومت کو سال مکمل ہوچکا ہے۔ غیر جانبدارانہ انداز میں پنجاب کی نگران حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بے پناہ ترقیاتی کام اس کے کریڈٹ پر دِکھائی دیتے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی پوری تندہی سے اپنے ایک سالہ دور میں صوبے اور اس کے عوام کی خدمت میں مصروفِ عمل رہے۔ اس کے لیے اُنہوں نے شبانہ روز محبت کی۔ پنجاب اور اس کے عوام کی بہتری اُن کی مطمع نظر رہی۔ صوبے کو لاحق کئی مسائل کے مستقل حل کا بندوبست کیا اور شہریوں کو اس سے نجات دلائی۔ اس حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کی نگران حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا۔ سال کے دوران لاہور میں ترقیاتی منصوبوں کی بھرمار رہی۔ نگران پنجاب حکومت نے ایک سال کی مدت میں لاہور میں کئی میگا پراجیکٹس مکمل کر ڈالی جب کہ کئی اپنی تکمیل کے قریب ہیں۔ شہباز شریف کے دورِ اقتدار سے پرویز الٰہی کی حکومت تک میں کسی ایک سال میں اتنے منصوبے مکمل نہ ہوسکے جتنے جنوری 2023سے جنوری 2024تک اپنی تکمیل کو پہنچے۔ نگران پنجاب حکومت کے دور میں چار اسپورٹس کمپلیکس مکمل ہوئے، پانچ ابھی بھی ادھورے ہیں۔ تاخیر کا شکار لاہور برج منصوبے کو 31مئی 2023کو مکمل کیا گیا۔ سمن آباد انڈرپاس کا آغاز کرکے اسے جلد مکمل کیا گیا۔ شاہدرہ کے مقام پر ٹریفک روانی بہتر بنانے کے لیے فلائی اوورز کو ساڑھے سات ماہ میں مکمل کیا گیا۔ نواز شریف انٹرچینج کے مقام پر بیدیاں انڈرپاس کو بھی رواں سال نمٹایا گیا۔ اسی طرح دیگر کئی منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچائے گئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک سال میں محسن نقوی کا کردار ایک اچھے منتظم کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے، اُن کے بدترین ناقدین بھی ان کے کاموں کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز اُنہیں پی سی بی کی مینجمنٹ کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ جس طرح صوبے میں بہتری لائے، مسائل کو حل کیا، ترقیاتی کاموں کے ریکارڈز قائم کیے، اسی طرح کرکٹ کی بہتری کے لیے بھی وہ احسن خدمات سرانجام دیں گے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران پاکستانی کرکٹ زوال کا شکار ہوئی ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ، ایک روزہ ورلڈکپ، آسٹریلیا سے ٹیسٹ سیریزاور اب نیوزی لینڈ سے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی مایوس کُن رہی۔ اُمید ہے کہ محسن نقوی کرکٹ میں موجود خامیوں پر قابو پائیں گے۔ میرٹ کو فوقیت دیں گے۔ کرکٹ کی بہتری کے لیے خدمات سرانجام دیں گے۔ پنجاب کے عوام اپنے محسن، محسن نقوی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُن کے کاموں پر اُن پر تعریف کے ڈونگرے برساتے دِکھائی دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button