Ali HassanColumn

غیر یقینی انتخابات اور لاتعلقی

علی حسن
ملک میں عام انتخابات سر پر آگئے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ویسی سرگرمیاں نہیں ہیں جو عام انتخابات کے مواقعوں پر ماضی میں دیکھنے کو ملی ہیں۔ عام لوگ سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کا کھلے عام اظہار کر رہے ہیں۔ انہیں یقین نہیں ہے کہ انتخابات مقررہ تاریخ پر منعقد ہو جائیں گے۔ عام لوگ کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ انتخابات اور معاشی حالات کے گرد ہی ان کی گفتگو گھومتی ہے۔ ملکی مسائل کی ہی وجہ ہے کہ مایوسی ہر سو ہے۔ سوال یہ ہے کہ عام لوگوں میں مایوسی کا گھر کرنا کسی طرح بھی بہتر چیز نہیں ہے اور اس کی کسی حالت میں بھی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکتا ہے۔ جو معاشرے دبائو ، پابندیوں ، اظہار رائے میں مشکلات اور سب سے بڑھ کر خوف کا شکار ہوتے ہیں ، وہاں ہر طرح کی سختی کے بعد کسی نہ کسی موقع پر لوگ گھٹن سے آزادی چاہتے ہیں اور وہ اس سے نجات حاصل ہی کر لیتے ہیں۔
ملک میں کسی کو اپنا مستقبل نظر نہیں آرہا  کے عنوان سے ایک اخبار میں تجزیہ شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک شہری کی جانب سے اپنے تین بچوں اور بیوی کا قتل کرکے خود کشی کرنے کے دل سوز واقعے پر ملک کے معروف ماہر امراض نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا ہے کہ ملک کے خراب حالات کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ معاشی حالات کے علاوہ ملک میں کسی کو اپنا مستقبل نظر نہیں آرہا ، عوام فرسٹیٹڈ ( ذہنی خلفشار) ہیں جبکہ اسلام سے بھی دوری ہوتی جارہی ہے۔ اخبار کے نمائندہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے گھر میں بھی بیٹھک ہوتی تھی اہل خانہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے لیکن اب فیملی اراکین بھی آئیسولیٹ ( تنہا) ہوگئے ہیں۔ پہلے محلے میں بھی دوستوں کی محفل ہوتی تھی لیکن اب موبائل اور سوشل میڈیا کے بے جا استعمال سے یہ محفلیں ختم ہو گئی ہیں۔ انہوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ سب سے پہلے اپنی سوچ ، جذبات اور رویوں پر توجہ دیں ، صحت مند طرز زندگی اپنائیں جو اسلامی بھی ہے اور سائنسی بھی، ورزش کریں، صبح جلدی اٹھیں، رات کو جلدی سوئیں، کھیلوں میں حصہ لیں، عبادت کریں اور خوراک میں اعتدال سے کام لیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ خود کشی کو روکنے والی دوا لیتھیم کاربونیٹ مارکیٹ میں فوری میسر نہیں ہے جس کے لئے انہوں نے ڈریپ اور متعلقہ کمپنی کو خط بھی لکھا ہے لیکن دوا دستیاب نہیں ، حکومت کو اس سلسلے میں اقدامات کرنے چاہئیں۔ معروف ماہر امراض نفسیات ڈاکٹر جاوید اکبر درس نے اس معاملے پر گفتگو میں بتایا کہ خود کشی کی ایک وجہ نہیں ہوتی اس کے پیچھے کئی وجوہات ہوتی ہیں جن میں اداسی مایوسی کی بیماری، ڈپریسیو ڈس آڈر، جینیٹک لوڈنگ، معاشی مسائل، بچوں و خاندان کی ذمہ دار یوں کا بوجھ، ملازمت کے مسائل، معاشرے میں اسٹیٹس قائم رکھنے کے لئے کوشش اور نہ رکھ پانے کی صورت میں پریشانی اور حالیہ واقعے میں جس طرح کی اطلاعات سامنے آئی ہیںکہ کاروبار میں نقصان ہوا جس کے باعث خود کشی کی سمیت دیگر شامل ہیں تاہم خود کشی کی بنیادی وجہ ڈپریشن ہوتا ہے جس کے لئے ضروری نہیں کہ کسی کو شدید ڈپریشن ہوگا تو تب ہی خود کشی کرے گا اگر کسی کو معمولی ڈپریشن بھی ہو تو بھی مذکورہ شخص خود کشی کر سکتا ہے۔ ایسی کیفیت میں انسان کو اپنا آپ، اردگرد، مستقبل اور دنیا میں سب کچھ تاریک نظر آتا ہے اس کو لگتا ہے کسی چیز کا کوئی مقصد نہیں اور جب وہ خود مرنے کا خواہش مند ہوتا ہے تو سوچتا ہے کہ اس کے پیچھے اس کے بیوی بچوں کا کیا ہوگا، یہ سڑکوں پر آ جائیں گے، ان کا گزر بسر کیسے ہوگا، بیوی اکیلے کیسے ان سب چیزوں کو ہینڈل کرے گی، تو وہ چاہتا ہے کہ انہیں ختم کر دوں کیونکہ اس کے نزدیک وہ سب کو تکلیف سے آزاد کر رہا ہوتا ہے اور اس دلخراش واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب کوئی اپنے رویے میں تبدیلی محسوس کر رہا ہو یا اس کے اردگرد کے لوگ محسوس کر رہے ہوں کہ اس کو اداسی، مایوسی، تھکاوٹ، بیزاری، پریشانی، چیزوں میں دل نہ لگنا، نیند اور بھوک متاثر ہونا اور حافظہ کمزور ہونا جیسی علامات ہوں تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کرے اور ان چیزوں اور علامتوں پر فوری توجہ دیں۔
اس قسم کی اجتماعی اور انفرادی خود کشی کے واقعات میں خاصا اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکومت اس کا خاطر خواہ کوئی سدباب نہیں کر پاری ہے اور توجہ بھی نہیں دے رہی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے ذہنی امراض کے اسپتال قائم کر دئے ہیں اور اس کی ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ماہرین کے گروپ تشکیل دئے جانے چاہئے تاکہ وہ دعوت عام کے طور پر لوگوں کو مدعو کریں، گفتگو کریں اور ان کے مسائل کا حل تلاش کریں۔ ماہرین کسی دوا کے بغیر خوف کا علاج تلاش کریں۔ وہ اپنے مریضوں کو زیادہ سے زیادہ پیدل چلنے ، کسی نہ کسی کھیل کا حصہ بننے اور ذہنی تفریح کا بندوبست کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں۔ حکومت ایک کام آسانی سے کر سکتی ہے کہ محلوں میں کام لاگت کے سنیما گھر تعمیر کرے اور نہایت ارزاں داموں لوگوں کو تفریح فراہم کرے۔
ہم عام آدمی کی ذہنی حالت کا رونا رو رہے ہیں لیکن اس ملک میں تو تعلیم یافتہ اور وسائل کے حامل افراد بھی سخت ذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ اس کی دو مثالیں پڑھیں۔ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سائفر کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ جج صاحب کی گارنٹی کے باوجود میرے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ جج صاحب کی گارنٹی پر میرے ساتھ ہاتھ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تصدیق نہ ہونے پر این اے 150، 151اور پی پی218سے میرے کاغذات مسترد ہوئے، میں نے کاغذات نامزدگی کی تصدیق کا کہا تو جج صاحب نے کہا میرا حکم نامہ ساتھ لگا دو۔پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ جج صاحب کے حکم نامے کے باوجود میرے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے۔ اس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ شاہ صاحب ہم نے قانونی طریقہ کار پورا کر دیا تھا۔ اس موقع پر پراسیکیوٹر کے بولنے پر شاہ محمود قریشی غصے میں آگئے اور کہا کہ میں اپنے بنیادی حقوق کی بات کر رہا ہوں، یہ بیچ میں کیوں بول رہے ہیں؟ سماعت کے دوران شاہ محمود قریشی اور پراسیکیوٹر رضوان عباسی میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ تم اوپر سے آئے ہو، کون ہو تم، تمہاری کیا اوقات ہے؟ اس پر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ تمہاری کیا اوقات ہے؟ اس موقع پر جج نے شاہ محمود قریشی کو پرسکون رہنے کی تلقین کی۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو بتایا گیا کہ شاہ محمود قریشی نے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف درخواست جمع کرا دی ہے۔ جج نے پی ٹی آئی رہنما سے مکالمے میں کہا کہ یہ آپ کا حق ہے، ہم اس درخواست کو دیکھ لیتے ہیں، آپ کے جو حقوق ہیں وہ آپ کو ملیں گے۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے رہنما سلمان اکرم راجا نے خود کو آزاد امیدوار قرار دینے کے الیکشن کمیشن کے اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ سلمان اکرم راجا نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ میں این اے 128لاہور سے پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ امیدوار ہوں۔ انہوں نے درخواست میں مزید کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیا گیا ہے لیکن پارٹی موجود ہے۔ پی ٹی آئی رہنما نے یہ بھی کہا کہ عدالت اس صورتحال میں الیکشن کمیشن سے آزاد امیدوار ڈکلیئر کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت الیکشن کو حکم دے کہ میرا نام بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر درج کیا جائے۔ ختم شد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button