CM RizwanColumn

نادانوں کا اقتدار طویل نہیں ہوتا

سی ایم رضوان
حکومت لینا اور حکومت کرنا دو الگ الگ ٹاسک ہیں۔ اسی طرح اپنی حکومت یا اقتدار کو مضبوطی کے ساتھ طول دینا اور مضبوط رکھنا ان سب سے علیحدہ آرٹ ہے۔ اقتدار کے کھیل میں ٹیکنیکس اور ترجیحات کا بڑا عمل دخل ہے اور وہ نادان لوگ جو محض شوق یا غلطی سے اقتدار میں آ جاتے ہیں تو ان کا انجام بہت خطرناک ہوتا ہے۔ پاکستان جیسی ریاستوں میں یہ کھیل اس لئے بھی خطرناک ہوتا ہے کہ یہاں ایک طرف تو اصول نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی دوسرا یہ کہ یہاں اکثر وہ لوگ اقتدار میں آ جاتے ہیں جن کو حکومت کا شوق تو بڑا ہوتا ہے مگر ان میں حکومت قائم رکھنے کی صلاحیت اور لیاقت نہیں ہوتی۔ دور کیا جانا ہے۔ اکتوبر 2021ء کی بات کر لیتے ہیں جب آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کے معاملے پر سابق وزیر اعظم، بانی پی ٹی آئی اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان اختلاف نے طاقت اور اقتدار کے دو مراکز وزیر اعظم ہائوس اور جی ایچ کیو کے مابین پیدا ہو جانے والی سرد جنگ کو عوام کے سامنے لا کر رکھ دیا تھا۔ پھر اپریل 2022ء کی تحریک عدم اعتماد کو بانی پی ٹی آئی نے کھل کر اپنے خلاف امریکہ اور پاکستانی فوجی قیادت کی سازش قرار دے دیا۔ ان کے اس بیانیے کو عوام کی ایک بڑی تعداد سمیت آئی ایس پی آر کی فہرست میں شامل ( اور جو شامل نہیں تھے) بیشتر سابق فوجی افسران نے بھی قبول کیا۔ ان سابق فوجی افسران نے مبینہ فوجی مداخلت کی کُھل کر مخالفت کی تھی جس کے بعد ان کے خلاف کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ پھر پاکستان کی تاریخ کا انوکھا کام یہ ہوا کہ سابق فوجی افسران خود فوج کی پالیسیوں یا اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔ اوپر سے فوجی قیادت کی بدلتی پالیسی نے ان سابق افسران کو مزید مشکل میں یوں ڈال دیا کہ فوج نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اب ان ریٹائر افسران کو اپنا موقف اور بیانیہ عوام تک پہنچانے کے لئے استعمال کیا جائے، جب انہی لوگوں کو کہا گیا کہ پچھلے بیانیے سے مختلف بیانیہ بیچیں تو یہ امر ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا کہ کل تو وہ کچھ اور کہہ رہے تھے اور اب اس شخص کا دفاع کرنا کیسے شروع کر دیں جس کو وہ کل تک ایک کرپٹ اور نا اہل و نالائق سیاستدان کہتے تھے۔ مثال کے طور پر فوجی پالیسیوں کی حمایت میں مختلف پروگرامز اور تجزیوں کا حصہ رہنے والے سابق لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری اور سابق فوجی افسران کی جانب سے دبا ڈالے جانے کی شکایات سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا تھا کہ ریٹائرڈ فوجی افسران فوج کا اثاثہ ہیں لیکن قانون سے بالا تر نہیں۔ تاہم ریٹائرڈ فوجی افسران کی تنظیموں کو سیاست کا لبادہ نہیں اوڑھنا چاہیے۔ اس سے قبل فوجی قیادت اور عمران خان کا ایک صفحے پر ہونے اور اپوزیشن میں پی ڈی ایم جماعتوں کے قائدین کی مبینہ کرپشن کا بیانیہ اس قدر راسخ ہو گیا تھا کہ جب اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی تو سب سے بڑا دھچکا شاید انہی سابق فوجی افسران کے لئے تھا۔
ویسے تو نوے کی دہائی سے ہی فوج میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا اور یہ تاثر شاید اب تک کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے۔ جب اچانک فوجی قیادت ( اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ ) کی جانب سے یہ پیغام ملنا شروع ہو گئے کہ نواز شریف کرپٹ نہیں تو ان کے لئے مشکل یہ ہو گیا کہ یہ کیسے مان لیا جائے اور اگر مان بھی لیا جائے تو اسے بیان یا نافذ کیسے کیا جائے۔
طاقت کے حصول کی سیاست یا گیم آف پاور میں ہمیشہ سے ہی کبھی بھی اخلاق، اصول، جذباتی وابستگی یا حق، سچ جیسی اصطلاحات کا کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ اس بے رحم کھیل میں شامل اور شریک اداروں، شخصیات اور پاور ٹولز کو ہر حال میں اور لازمی طور پر ان اصطلاحات سے بالاتر ہو کر محض کھیل کے ضابطوں، اصولوں اور وقتی ترجیحات پر عمل اور انحصار کرنا ہوتا ہے اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھنے اور تجزیہ کرنے والا بی چارا بعض اوقات حق، سچ، ہمدردی، انسانیت، اصولوں اور نظریات جیسی لکیریں پیٹتا رہتا ہے اور پاور کا کھیل اپنے مخصوص بلکہ اصلی میکنزم پر بڑی بے رحمی کے ساتھ کام کر رہا ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات جب اس کھیل کے پاور ٹولز جذباتی، نفسیاتی اور غیر تکنیکی طور پر ’’ حق پرست ‘‘ ہو جاتے ہیں تو اس کھیل کے ٹائی ہو جانے یا گیم پھنس جانے کے خوفناک مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 2018ء میں بھی جب پراجیکٹ عمران لانچ کیا گیا تو اس کھیل کو دیگر پاور ٹولز کے ساتھ ساتھ جنرل امجد شعیب جیسے تجزیہ کاروں کے ذریعے کامیاب کروانے اور جاری رکھنے کا کام سونپا گیا۔ صحافت، سیاست کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ آرمی افسران پر مشتمل ان ٹولز کو کرنا یہ تھا کہ بظاہر حق، سچ اور اصول پرستی کا پرچار کرنے کے لئے عمران خان کو قوم کا مسیحا اور نواز شریف کو دنیا کا سب سے بڑا چور ثابت کرنا ہے۔ ایک صفحہ کی سالمیت تک تو حق سچ کا یہ پرچار ٹھیک ٹھاک چلتا رہا مگر ادارے کی پالیسی کے یکسر الٹ جانے کے بعد چاہیئے تو یہ تھا کہ یہ پاور ٹولز بھی مشینی انداز میں حق، سچ کا معیار بدل لیتے مگر وہ سابقہ پراجیکٹ کے حق میں ہی جذباتی اور نفسیاتی ہو چکے تھے۔ پھر ایسے پاور ٹولز کی زبان بندیوں سے لے کر گرفتاریوں تک کے اقدامات کرنا پڑے جو کہ ابھی تک جاری ہیں۔ اس کھیل کے اس حد تک ننگے ہو جانے کے باوجود اب ایک طرف نئی حکومت کے قیام کے لئے انتخابات سر پر آ گئے ہیں مگر دوسری طرف سابقہ کھیل کے حامی چند ایک جذباتی پاور ٹولز اب بھی اسی لکیر کو پیٹ رہے ہیں جو کہ عملاً مٹ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف چند ایک بیوروکریٹ ہی نہیں پاکستانی سیاست اور سیاستدان بھی نواز شریف اور ان سے جڑے دیگر معاملات کو لے کر تقسیم کا شکار نظر آتے ہیں۔ لہٰذا اس وقت بھی یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہو گا کہ 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن جن مشکلات کا شکار تھی اب 2024ء کے الیکشن میں بھی اس کو ایسی ہی نسبتاً کم مشکلات کا سامنا ہے جبکہ ملک کی تیسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری ایک بچگانہ اور عجیب و غریب پوزیشن پر کھیل رہے ہیں۔
گزشتہ سال نو مئی کو عسکری تنصیبات کی توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کے واقعات کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ پاور کوریڈورز کی جانب سے بلاتاخیر اور سختی کے ساتھ ان واقعات کی ذمہ دار جماعت کو ملکی سیاست کے کھیل سے باہر کر دیا جاتا لیکن شاید اس پٹے ہوئے مہرے کو بھی اگلی بار دوبارہ کھیلنے کی غرض سے گیم سے آئوٹ نہیں کیا گیا یا پھر یہ کام انتخابات سے اس طرح لیا جائے گا کہ آئی پی پی یا پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز میں سے کسی ایک کو کھڑا کر کے بعد ازاں اس پٹے ہوئے مہرے کو گیم سے باہر کیا جائے گا۔ بہرحال سابقہ آرمی چیف کی جانب سے رچائے گئے اس سارے کھیل میں نقصان ملک و قوم کا ہوا ہے اور اس قدر ہوا ہے کہ اب غریب طبقے کو روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں جبکہ 2018ء میں ایک نادان کو اقتدار سونپنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تمام تر سہولیات اور لاڈ پیار کے باوجود اس نے اپنے سر پر آ کر بیٹھ جانے والے اقتدار کے ہما کو اس بھونڈے انداز میں ڈرا کر اڑایا ہے کہ وہ اب دوبارہ اس کے سر پر تو آ کر نہیں بیٹھے گا لیکن اس چکر میں اس کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے راستے بھی مسدود ہو گئے ہیں۔ اب یقیناً اور مجبوراً کسی دیگر نادان کو اگلے دو تین سال کی لئے اقتدار میں لانا پڑے گا۔ اس وقت نواز شریف نامی ناداں کے آنے کے چانسز تو ہیں لیکن اس کے ساتھ بھی وہی مسائل ہیں اور یہ بھی اپنی نادانیوں کی بناء پر محض چند سال ہی حکومت کر سکے گا جبکہ ملک اور قوم کو ایک عاقل، بالغ اور ذہین سویلین حاکم کی ضرورت ہے جو محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ کم از کم بیس سال تک اپنے اقتدار کو طویل کر سکے ورنہ ان طاقتوروں کی حکومت تو قائم رہے گی جو پچھلے 75سالوں سے اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button