Ali HassanColumn

سیاست دانوں کی مقبولیت

علی حسن
کراچی میں متعین امریکی کونسل جنرل ریلے ایس گپسن نے اپنی حکومت کو ایک مراسلہ روانہ کیا۔ مراسلہ پر تاریخ 13 فروری 1953ء درج ہے۔ انہوں نے مراسلہ میں لکھا ہے کہ’’ ان کی جنرل ایوب خان سے گفتگو ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو سیاستدانوں یا پبلک کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ لیکن اگر کبھی ایسا خطرہ پیدا ہوا تو فوج فوری مداخلت کر کے مار شل لاء نافذ کر کے حالات پر قابو پا لے گی۔ اگر حالات سنگین ہوئے تو فوج ملٹری حکومت قائم کر دے گی تاکہ پاکستان کی سالمیت محفوظ رہے۔ فوج کے بعض افسران کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے منصوبے کے امکانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جی ایچ کیو کی صلاحیتوں کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ جی ایچ کیو کے علم کے بغیر کوئی منصوبہ تیار نہیں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی سازش کیس کی ناکامی کے بعد فوجی رہنما کسی ایسی کوشش سے باز رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی افسران پر انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے اور جی ایچ کیو انٹیلی جنس کی صلاحیت کی موجودگی میں وہ محسوس نہیں کرتے کہ کوئی فوجی رہنما دوسروں کو اکسانے میں کامیاب ہوگا۔ سیاست دانوں کے حوالے سے ان کی حکومت کرنے کی خواہش کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں محسوس کرتے کہ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ عبدالقیوم خان اور پنجاب کو وزیر اعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ پاکستان کی رہنمائی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں‘‘۔ ایوب خان کی بحیثیت کمانڈر انچیف تقرری 17جنوری 1951ء کو ہوئی تھی۔
حیران کن بات ہے کہ پاکستان میں سیاسی طور پر مقبول سیاسی جماعتوں یا شخصیات کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں رہتے ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مقبولیت حاصل کرنے والے عناصر سے خائف رہتی ہے یا مقبولیت حاصل کرنے والے سیاسی عناصر اسٹیبلشمنٹ کو اپنے تابع رکھنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں جو کشمکش کا سبب بنتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے۔ وہ دن اس ملک کے لئے بڑے مسائل لانے والا دن تھا جب 1958ء میں اس وقت کی مسلم لیگ سے سربراہ خان قیوم خان نے 7اکتوبر 1958ء کو جہلم سے گجرات تک 32میل لمبا جلوس نکالا تھا۔ اس جلوس میں خان قیوم نے اعلان کیا تھا ’’ مجھے یقین ہے کہ فوج اور بیوروکریسی عوامی جذبات و خواہشات کو احترام کرتے ہوئے اپنے اپنے فرائض آئین اور قانون کے مطابق ادا کریں گے‘‘۔ اسی روز ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس جلوس سے قبل یہ اعلان ہو چکا تھا کہ الیکشن ہونا ہیں۔ مار شل لاء نافذ ہو گیا، سیاست دانوں بشمول قیوم خان کے خلاف ایبڈو نامی قانون کے تحت کارروائی کی گئی اور انہیں دو سال کے لئے قید کر دیا گیا تھا۔ انہیں سیاست بے دخل کرنی کے لئے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ حالانکہ کچھ عرصہ بعد بعض سیاست دانوں کے رشتہ داروں کو قبول کر لیا گیا تھا۔ الیکشن کے انعقاد کے لئے پہلے نومبر 1957ء میں وعدہ کیا گیا۔ 1958ء میں ملتوی کر دئے گئے۔ یہ اعلان 19جولائی 1958ء کو ہوا تھا۔ پھر اعلان کیا گیا تھا کہ انتخابات فروری 1959ء سے قبل ہوں گے۔ حکومت نے مسلم لیگ کے ساٹھ ہزار مسلم لیگ نیشنل گارڈ پر ستمبر 1958ء میں پابندی لگائی گئی۔ وہ الیکشن کبھی منعقد نہیں ہو سکے کیوں کہ ایوب خان نے مارشل لاء کر ملک پر دس سال حکمرانی کر لی تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو صدر منتخب کرانے کے لئے ایسے انتخابات کرائے جس میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو جعل سازی سے شکست سے ہم کنار کیا گیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جب1977 ء میں مارشل لاء لگانے والے جنرل ضیا ء الحق نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کرنے کے بعد نوے روز میں انتخابات کرانے کی بجائے اسے ملتوی کرنا بہتر سمجھا تھا۔ انہیں نے لاہور میں بھٹو کی مقبولیت دیکھنے کے بعد ایسا کیا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ لاہور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے مولانا شاہ احمد نورانی کے ایک جلوس ہر دھاوا بولا اور مولانا کی پگڑی اتار کر پھینک دی۔ اس وقت کے سینئر صحافی انعام عزیز اپنی کتاب ’’ اسٹاپ پریس‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’ تھوڑی دیر بعد جنرل ضیاء کا فون بھٹو کو موصول ہوا جو اس وقت لاہور میں سابق گورنر صادق قریشی کے گھر مقیم تھے۔ فون پر جنرل نے بھٹو کو کہا تھا کہ اپنے کارکنوں کو قابو میں رکھیں ورنہ سخت کارروائی ہو گی۔ بھٹو فون سننے کے بعد بڑبڑاتے ہوئے آئے اور جنرل کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے، ’’ الیکشن ہونے دو پھر دیکھ لوں گا‘‘۔ پھر بات اس حد تک آگے بڑھی کہ بھٹو کی پارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد کو لاہور میں قتل کرا دیا گیا تھا۔ اس قتل کی ایف آئی آر احمد رضا نے بھٹو کے خلاف براہ راست درج کرائی تھی۔ حکومت کے خاتمے کے بعد بھٹو کے مزاج میں بہت زیادہ تلخی آگئی تھی، جس کی وجہ ان کے اور فوجی جنتا کے تعلقات کشیدہ سے کشیدہ ہوتے چلے گئے تھے۔ اور مقدمہ قتل میں بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا کر اس پر عمل در آمد کرا دیا گیا تھا۔
بھٹو نے برسر اقتدار آتے ہی فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان کو ایوان صدر طلب کر کے قابل اعتراض طریقے سے افسوسناک حالات میں فوج سے برخاست کیا تھا۔ حالانکہ کہا جاتا تھا کہ بھٹو کو اقتدار میں لانے میں گل حسن کا بڑا کر دار تھا۔
عمران خان کو 2018ء میں اقتدار میں لانے میں اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، ان کے ساتھی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید نے تعاون کیا تھا۔ پھر ان کے خلاف سیاسی عناصر نے ان کے حکومت کے خلاف جنرل باجوہ کے تعاون سے ہی عدم اعتماد منظور کرا لی۔ تحریک عدم اعتماد کی منظوری اور عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کی مقبولیت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ انہوں نے فوری انتخابات کے انعقاد کے لئے پی ڈی ایم کی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لئے پنجاب اور صوبہ سرحد میں اسمبلیوں کو تحلیل کر ا کے حکومتوں کو ختم کر دیا تھا لیکن پی ڈی ایم نے آئین میں درج شدہ مدت کے دوران انتخابات منعقد کرانے کی بجائے ٹال مٹول میں وقت لگا دیا اور اسی عرصہ میں نگران حکومتیں قائم ہو گئیں۔ انتخابات کی تاریخ 8فروری مقرر ہوئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دیا۔ بعد میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کی پارٹی کو مختلف مقدمات خصوصا پارٹی کا انتخابی نشان بلا تک میں اس حد تک الجھایا کہ معاملہ سپریم کورٹ تک چلا گیا۔ دوران سماعت، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو، جس کے تحت بلا کا انتخابی نشان منسوخ کر دیا گیا تھا، جائز قرار دیا اور پی ٹی آئی کے وکلا کی کسی دلیل سے اتفاق نہیں کیا۔ انٹرا پارٹی الیکشن تحریک انصاف کے لئے وبال جان بن گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حکومت حامی و کلا کے خیال میں قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے لیکن اس فیصلے پر جس بڑے پیمانے پر تنقید کی جارہی ہے، وہ حالیہ تاریخ کا حصہ رہے گا۔ فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر دیا گیا جو فیصلے کے مخالفین کی نظر میں زیادہ اہمیت حامل میں ہیں۔ بعض افراد نے فیصلے کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عمران خان سے ذاتی مخاصمت بھی قرار دیا۔ کہا جاتا ہے کہ عمران حکومت نے ہی قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ عدالت نے اس بات کی ذرہ برابر پروا نہیں کی کہ پی ٹی آئی کے رہنما جس بری طرح متاثر ہیں، ہراساں کئے جار ہے ہیں، گرفتاریاں ہو رہی ہیں، اس میں تحریک انصاف جیسی مقبولیت حاصل کرنے والی جماعت کی بہت ساری غلطیوں کو نظر انداز کیا جانا چاہئے تھا، تاکہ سپریم کورٹ اس شدت تنقید سے محفوظ رہ پاتی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا کون سی جماعت ہے جس میں انٹرا پارٹی الیکشن ہوتا ہے؟ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ٹیکنیکل گرائونڈ پر بڑی پارٹی کو اس کے نشان سے محروم کر دیا۔ ن لیگ ایک خاندان کی میراث ہے، پی پی میں ایک خاندان اور 40 وڈیرے ہیں، ای سی پی کو خط لکھا ہے کہ پی پی اور ن لیگ جمہوریت دشمن پارٹیاں ہیں، انٹرا پارٹی الیکشن پر ان پارٹیز کے خلاف بھی ایکشن لیں۔
اس فیصلہ سے تحریک انصاف کو تو کئی بڑے سیاسی نقصانات ہوں گے لیکن اس سے کہیں زیادہ فائدہ بھی ہوگا۔ اس کے امیدواروں کے جو انتخابی نشانات دئیے گئے ہیں ان میں بعض تو اس لئے افسوسناک ہیں کہ جوتا، بینگن، وغیرہ وغیرہ دئیے گئے ہیں جس کے لئے امیدواروں سے مشاورت بھی نہیں کی گئی۔ الیکشن کمیشن کا عناد صاف ظاہر ہے۔ نیتوں پر شک نہیں ہے لیکن جو واقعات سامنے آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اگر عناد نہیں ہوتا تو الیکشن کمیشن ان سارے امیدواروں کو ایک ہی نشان الاٹ کر دیتا جیسا ماضی میں 2018ء میں ایک ساتھ کئی امیدواروں کو جیپ کا نشان الاٹ کیا گیا تھا۔ یہاں تو یہ بھی کیا گیا کہ ایک امیدوار کو قومی اسمبلی میں ایک نشان اور اگر وہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہے تو دوسرا نشان دیا گیا۔ کئی امیدوار تو نشانات کے سلسلے میں آر او حضرات سے رجوع کر رہے ہیں لیکن انہیں علم ہے کہ بس جو ہو گیا وہ اٹل ہے۔ الیکشن کمیشن نے 16جنوری کو ڈی آر اوز اور آر اوز کو ہدایت کی ہے کہ بیلٹ پیپر کی چھپائی شروع ہو چکی ہے، اس لئے اس مرحلے پر کمیشن کی منظوری کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔ عمران مخالف کسی شخص نے لکھا ہے کہ ’’ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو انتخابی نشان میں بلے کی جگہ پنکی پیرنی کے جہیز کا سامان بانٹ دیا۔ بینگن، کھیرا، مولی، کلاک، انگوٹھی، چارپائی، میز، ٹی وی، جوتے،بوتل وغیرہ ۔ اس طرح کے نشانات کے بارے میں تحریک کا حامی ووٹر پریشان ہی رہے گا۔ لیکن ایک بات سپریم کورٹ ہو، الیکشن کمیشن ہو یا مقتدر حلقے، انہیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ان کے فیصلوں کے باوجود اگر پی ٹی آئی کے نامزد کچھ معروف امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں تو سب کئے دھرے پر پانی پھر جائے گا اور الیکشن کی کریڈٹ ابیلیٹی نہیں رہے گی ۔ ٹی وی اینکر ثناء بچہ نے لکھا ہے کہ ’’ قومی اسمبلی کی 336سیٹیں ہیں۔ ان میں سے 266ممبر بلاواسطہ منتخب ہوں گے اور باقی 60مخصوص نشستیں ان 266کے تناسب میں الاٹ کی جائیں گی۔ اب تحریکِ انصاف چونکہ بطور پارٹی الیکشن نہیں لڑے گی، لہٰذا وہ ان 60نشستوں کی دوڑ سے باہر ہے۔ پی ڈی ایم کی 13اتحادی جماعتوں کو بنیادی طور پر حکومت بنانے کے لیے صرف 109جنرل سیٹیں جیتنی ہیں۔ کیوں کریں جلسے؟۔ پی ٹی آئی نے جنرل الیکشن کی تمام سیٹوں 266پر اپنے امیدوار نامزد کئے تھے۔ شکنجہ کس دیا گیا ہے تاکہ اس کے امیدوار بے بس ہو جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button