Column

مثبت سرگرمیاں اور منفی پروپیگنڈے

طارق خان ترین
بلوچستان میں جوانوں کو مشغول رکھنے کے لئے ضلعی، صوبائی اور مختلف وفاقی اداروں کے ساتھ ساتھ نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت مثبت سرگرمیوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ صوبے کی مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں کا کھیلوں اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ میڈیا کے بلوچستان اور حقیقی بلوچستان میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ اس کالم کے توسط سے پاکستان کے عوام سے مخاطب ہوکر کہنے پر مجبور ہوں کہ بلوچستان درحقیقت وہ نہیں جنہیں مختلف میڈیا چینلز اپنی ٹی آر پی کو بڑھانے کے لئے دروغ گوئی اور پروپیگنڈوں سے کام لیتے ہوئے اس صوبے کو بدنام کرنے کی مضموم کوششوں میں مگن رہتے ہیں۔ کبھی بھی آپ کوئی بھی مین سٹریم میڈیا کے چینل کو آن کرینگے آپ کو ملک مخالف پروپیگنڈوں کی بہتات ہی ملے گی، خصوصا جب بات بلوچستان کی آئے تو لگے گا جیسے زمین پر اگر جہنم ہوتی تو اس کا دوسرا نام بلوچستان ہوتا۔
حالانکہ زمینی حقائق سو فیصد اس کے برعکس ہے۔ آج کل تو ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے تو اس پر بد قسمتی سے کوئی ٹھوس حکومتی پالیسی موجود نا ہونے کی وجہ سے جس کے جی میں جو آئے وہ کہتے، دکھاتے اور شیئر کرتے تکتے نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہم اجتماعی طور پر اپنے اخلاقی ذمہ داریوں روگردانی کر چکے ہیں، حالانکہ سوشل میڈیا جہاں منفی اثرات رکھتا ہے وہی مثبت سرگرمیوں سے ہم اپنے معاشرے کی احسن تخلیق بھی کر سکتے ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ اگر میں کسی بھی پوسٹ، ویڈیو وغیرہ شیئر کر رہا ہوں تو مجھے اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ اسے شیئر کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس پوسٹ یا ویڈیو میں موجود مواد درست بھی ہے؟ کیا اس مواد پر میں نے تھوڑی بہت تحقیق بھی کر رکھی ہے تاکہ کل میں اس کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں ڈیفنڈ کر سکو؟ خدا نخواستہ جس چیز کو شیئر کر رہا ہوں اگر تو وہ جھوٹ ہوا تو مجھے اس کی سزا دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سزا کے طور پر ملے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ بات کرنے سے پہلے بندے کا محقق ہونا ضروری ہے، نا صرف بلکہ محقق ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت و بصیرت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بعض اوقات حقیقت اتنی تلخ ہوچکی ہوتی ہے کہ اگر آپ اس کو سامنے لائینگے تو اس سے پورے معاشرے کو وبال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جبکہ خاموش رہنے سے معاشرہ محفوظ رہ سکتا ہے اب یہ خاموشی حکمت کی بنیاد پر ہے اور حکمت وہ کہ جس سے انسانیت کا بھلا ہو۔
اس لئے ملک کے دیگر حصوں میں جس طرح غیر ممالک میں بیٹھے لوگ جن کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہوتا ہے ان کے پروپیگنڈوں سے ہمارے شہری متاثر ہوکر اپنے ہی ملک کے خلاف غیر ارادی طور پر سرگرم عمل ہوجاتے ہے، اس سے بڑھ کر بلوچستان میں سب سے زیادہ پروپیگنڈوں کی بہتات سے ان غیر ملکی عناصر کے مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔ بلکہ ان عناصر کا مقصد ہی بلوچستان کو اتنا غیر مستحکم کرنا ہے کہ بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو تاکہ بلوچستان کو خدا نخواستہ پاکستان سے الگ کیا جاسکے۔ وجہ صاف سی ہے، کہ سی پیک ملک میں معاشی بدحالی کو خوشحالی میں بدلنے کی حیثیت رکھتا ہے، ریکوڈک کی شکل میں بلوچستان کی سرزمین سونا اگل رہا ہے، اسی منصوبے کی شکل میں تانبے کی بڑی مقدار موجود ہے، جو معدنیات اور وسائل اللہ تعالٰی نے بلوچستان کو دے رکھے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک مخالف عناصر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے خواب بن رہے ہیں۔ مگر ہمارے پر عزم ملکی دفاع پر مامور دفاعی ادارے ان عناصر کے خواب زائل کرنے میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے دشمنان اسلام و پاکستان کے عزائم کو خاک بسر کر رہے ہیں۔
جہاں بلوچستان کے حقائق سے منافی معاملات کو دکھایا جارہا ہے وہی نوجوان اپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے کھیلوں اور دیگر مثبت سرگرمیوں کے توسط سے بلوچستان کا نام آگے لانے میں مصروف عمل ہے۔ جس سے نوجوانوں میں مایوسیوں خاتمہ ہونے کے ساتھ ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع نوشکی، حب، کیچ، خاران، آوران، موسی خیل، لسبیلہ اور لورالائی میں فٹبال کے 32میچ کھیلے گئے، میچز میں کھلاڑیوں کے علاوہ مجموعی طور پر 5650سے زائد شائقین نے شرکت کی۔ ضلع کیچ اور دالبندین میں کرکٹ کے 5میچ منعقد کیے گئے جن میں 450سے زائد تماشائی شریک رہے۔ ضلع سبی میں کبڈی کے خصوصی مقابلے کا انعقاد ہوا جس میں250سے زائد افراد نے شرکت کی اور کھیل سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ ضلع واشک میں والی بال کے میچ کا انعقاد کیا گیا۔ اسی طرح سے دیگر مثبت سرگرمیوں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ضلع زیارت، ہرنائی اور قلع عبداللہ میں یوم قائد کے حوالے سے تقریبات منعقد ہوئی جن میں 800سے زائد طلباء و طالبات شریک ہوئے۔ ضلع ہرنائی میں تقریری مقابلوں کا انعقاد کیا گیا جس میں 200سے زائد طلباء شریک ہوئے۔ سبی میں میر چاکر خان یونیورسٹی میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی جہاں سینکڑوں کی تعداد میں شریک طلباء میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو اس طرح کی مثبت اور صحت مند سرگرمیاں میسر ہونے سے صوبے میں احساس محرومیت قدرے کم ہوتا جا رہا ہے، ان سرگرمیوں کی وجہ سے بلوچ نوجوان قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے فعال شہری ثابت ہو رہے ہیں نہ صرف بلکہ استعماری قوتوں کے پروپیگنڈوں آزاد ہوکر معاشرے کی احسن تشکیل میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button