CM RizwanColumn

دوغلے تبصرے، اندھی تنقید

سی ایم رضوان
شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش۔۔۔ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ‘‘۔۔ اگر اکثریت بھی زہر ہلاہل کو قند کہے تو بھی زہر ہلاہل کبھی شکر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ سچ کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہ ہمیشہ اقلیت کا بیانیہ ہوتا ہے اس لئے شاعر مشرق جمہوریت کے خلاف تھے۔ شاعر مشرق نے تو یہ بھی کہا تھا کہ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں۔۔ بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ بہرحال یہ ایک لمبی اور علیحدہ بحث ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ رائے کا اکثریت میں ہونا اہم نہیں وزن اور معقولیت میں ہونا اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان عوامیت سے نہیں جمہوریت سے معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اس پر بھی لمبی چوڑی بات ہو سکتی ہے۔ بعینہ یہی مسئلہ آج کل ملک کو درپیش بھی ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ لوگوں کی اکثریت پی ٹی آئی کی ووٹر ہے حالانکہ یہ جادو اس جماعت کے روح رواں کی چرب زبانی اور لاتعداد نفسیاتی دھوکوں سے رونما ہوا ہے اور کم فہم لوگوں کو چند نوازے گئے دانشور مسلسل بیوقوف بنا کر ملک کا گہرا نقصان کر رہے ہیں۔ صد شکر کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پچھلے پانچ سال سے ملک کی سیاست، معاشرت، معیشت اور سفارت میں مسلسل اودھم مچائے رکھنے والی اس جماعت پاکستان تحریکِ انصاف سے ’ بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھ کر جو قانونی و سیاسی اصول، ضابطہ اور معیار مقرر کیا ہے ایک سنجیدہ، باوقار اور خالص جمہوری اصولوں کے حامل پاکستان کے لئے یہی معیار مناسب، ضروری اور اہم ہے۔ اکثر سیاسی، صحافتی اور آئینی حلقوں میں اس فیصلے کی بے تکی مخالفت کا جو جواز پیش کیا جا رہا ہے وہ کسی طور بھی اصول، قانون اور سیاسیات کے حق میں بہتر نہیں۔ وہ جواز یہ ہے کہ لو جی لاکھوں لوگ بلے کو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں لہٰذا یہ بلا واپس لینا جمہوریت کی نفی ہے جبکہ یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ جو رجیم بلے پر قبضہ کئے بیٹھی ہے وہ خود غیر جمہوری انداز سے اس جماعت اور اس کے انتخابی نشان پر قابض ہوئی ہے۔
ہفتے کی شب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے تحریکِ انصاف کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ کیے جانے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس نے اس کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 2021 ء میں تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا کہا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کی وفاق اور صوبوں میں حکومت تھی چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف سے امتیازی سلوک کیا گیا۔ جہاں ایک سیاسی و قانونی حلقہ اس حکم کو آئینی طور پر درست قرار دے رہا ہے تو وہیں کئی لوگ اس پر تنقید کرتے ہوئے یہ موقف اپنا رہے ہیں کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل کسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان چھین لینا اس کے ووٹروں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ یہاں تک کہ بعض مبصرین کا سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس اقدام کے بعد بھی انتخابات کو صاف و شفاف کہا جاسکے گا۔
بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا معاشرہ بن گیا ہے جو کسی بھی فیصلے اور معاملے میں صرف تنقیدی اور منفی پہلوں کو اجاگر کر کے ہر معاملے میں جھوٹے انقلاب اور جعلی اصول پسندی کے لئے لاحاصل اور لایعنی قسم کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس ساری احمقانہ اور ملک دشمنی کے مترادف فضول مشق کے لئے پاکستان تحریک انصاف نامی ایک احتجاج پسند اکٹھ نے ایک پلیٹ فارم مہیا کر رکھا ہے۔ صرف سوشل میڈیا پر چند انتہا پسند لوگوں پر مشتمل یہ اکٹھ اپنے حق میں ہر بات کو حق اور اپنے مخالف ہر صورت حال کو باطل قرار دینے میں ذرا سا بھی تامل، تساہل یا تاخیر نہیں کرتا۔ اس پی ٹی آئی نامی اکٹھ کی اسی قبیل کی مہربانیوں کے ہوتے ہوئے آئندہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو لے کر ٹی وی چینلوں پر موجود اینکروں کی ایک مخصوص کھیپ اور سوشل میڈیا پر اس کے حامیوں کی ایک مخصوص تعداد اب ہر وقت آٹھ فروری کے الیکشن سے قبل تک نہ صرف اس فیصلے کے قانونی بلکہ سیاسی نکات اور اثرات پر فضول قسم کی بحث اور دوغلے تبصرے کرتے سنے جائیں اور نظر آئیں گے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی امیدواروں کے لئے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ الیکشن کمیشن کے ضابطہ کے مطابق نہ تو یہ امیدوار بانی پی ٹی آئی کی تصویر یا پیغام اپنی انتخابی مہم میں استعمال کر سکیں گے اور نہ ہی جیتنے کے بعد اس جماعت کے پابند ہوں گے۔ اسی طرح ووٹر بھی آزاد ہوں گے اور جسے چاہے ووٹ کریں گے۔ ہر امیدوار کو اپنی مرضی کے مطابق اشتہارات کے ساتھ اپنی اپنی انفرادی مہم چلانا ہوگی کیونکہ ہر ایک کا انتخابی نشان مختلف ہے۔ یہی نہیں اگر کسی امیدوار کو اس کے کسی جرم کے الزام میں حراست میں لیا گیا یا بالفاظ دیگر ہراساں کیا گیا تو نہ تو یہ امر الیکشن پر اثرانداز ہو گا اور نہ ہی اس بنیاد پر سارے الیکشن کو متنازعہ قرار دیا جا سکے گا۔ اس فیصلے کے ناقدین کی رائے ہے کہ اس سے ’ حلال ہارس ٹریڈنگ‘ ہوگی کیونکہ جو امیدوار پی ٹی آئی ووٹرز کی حمایت سے جیت سکتا ہے وہ دبائو، اثر و رسوخ یا ذاتی فائدے کے لئے انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن سکے گا۔ ان ناقدین کو یاد کرنا چاہئے کہ خود پی ٹی آئی نامی اس گروہ کے بعض سابقہ ممبران قومی، صوبائی اسمبلی خود بھی پچھلی مدت میں نوٹ کمانے کی خاطر اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ کرتے پکڑے گئے ہیں۔ یہ فعل تب زیادہ افسوس ناک تھا جبکہ اب تو آزاد امیدوار کا کسی بھی اتحاد یا جماعت میں جانا اس کے ووٹروں کے فائدے میں ہو گا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والا یہ فیصلہ قانون کے مطابق درست اور اعلیٰ جمہوری اصولوں کے مطابق ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے اس فیصلے نے آئندہ کے لئے ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ایک اچھا سٹینڈرڈ مقرر کر دیا ہے کیونکہ اگر جماعتوں کے اندر جمہوریت ہو گی تو ہی ملک میں جمہوریت آ سکے گی اور آخری گیند تک کھیلنے کے دعویداروں کو یہ بات اچھی طرح سے نوٹ کر لینی چاہئے کہ اب تو آخری گیند بھی ہو چکی ہے بلکہ ٹورنامنٹ بھی ختم ہو گیا ہے اور جمہوریت کو کپ بھی مل گیا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا مضبوط ہے اور ان کی اپنے ووٹرز، سپورٹرز تک رسائی اور رابطے خاصے مضبوط ہیں۔ وہ اپنا پیغام با آسانی ہر جگہ پہنچا سکیں گے کہ ان کے ووٹر کو کسے ووٹ کرنا ہے اور ان کے امیدوار کا انتخابی نشان کیا ہے لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ الیکشن میں کامیاب ہونے والا ان کا کوئی بھی امیدوار مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں ملے گا۔
یہ تو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ تحریک انصاف اپنے پارٹی آئین کے تحت انٹرا پارٹی الیکشن کروانے میں ناکام رہی۔ چلو پارٹی چیئرمین کا انتخاب چھوڑ کر کم از کم دیگر صوبوں میں تو صحیح انداز میں الیکشن کروائے جاتے۔ الیکشن کمیشن نے انہیں بیس دن کا وقت دیا۔ لیکن انہوں نے گیارہ دن میں کاغذی الیکشن کرا کر جھوٹے نتائج بتا دیئے۔ وہ کچھ اور نہ کرتے سب سوشل میڈیا پر ہی اشتہار کر دیتے کہ اس تاریخ کو انٹرا پارٹی الیکشن ہیں اور آپ کاغذات جمع کروا سکتے ہیں۔ اس جگہ پر الیکشن کا انعقاد ہوگا۔ لیکن وہ یہ سب کرنے میں ناکام ہوئے۔ اب اس جھوٹ اور فریب کو اگر سپریم کورٹ نی ناجائز کہہ دیا ہے اور اگر اس نے اصولی فیصلہ دیا ہے تو اس پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ دیگر جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن بھی جعلی ہیں۔ کیا ایک چور یہ کہہ کر اپنے خلاف کارروائی روک سکتا ہے کہ پہلے پورے ملک کے چوروں کو پکڑو پھر میں گرفتاری دوں گا۔ کس قدر افسوس اور باعث شرم صورت حال ہے کہ حقیقت حال کے باوجود لاکھوں لوگ اس فیصلے پر تنقید پر مبنی دوغلے تبصرے کر کے حماقت بھی فرما رہے ہیں اور یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ انہیں دانشور اور جمہوریت پسند بھی کہا جائے۔ حالانکہ یہ بھی خدشہ موجود ہے کہ تحریک انصاف کے کامیاب امیدوار اگر بالفرض متحد بھی رہے تو بعد ازاں وہ کسی نہ کسی جماعت سے الحاق کر لیں گے پھر ان دانشوروں کا کیا ہوگا جو آج قاضی اور اسٹیبلشمنٹ پر انھے واہ تنقید کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button