ColumnHabib Ullah Qamar

کشمیر میں آوارہ جانوروں کی تعداد میں اضافہ

حبیب اللہ قمر
مقبوضہ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر میں ریاستی حکومت نے کتوں کی نسبندی کیلئے دس مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں شہر کو آوارہ کتوں سے پاک کر دیا جائے گا۔ سری نگر میونسپل کارپوریشن کے میئر کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال میں کتوں کی مقررہ تعداد تک نسبندی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس سے مقامی لوگوں کی بڑھتی ہوئی مشکلات کم ہو سکیں گی۔ سری نگر میں لوگ آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے سخت پریشان ہیں اور صبح شام بچے، بزرگ اور خواتین گھروں سے نکلتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔ مقامی شہریوں میں آوارہ اور پاگل کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کنٹرول کرنے میں ناکامی پر ریاستی حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتاہے۔ ادھر کشمیر میں ہر سال آوارہ کتوں کے کاٹنے سے چھ ہزار سے زائد کیس درج ہو رہے ہیں اور کتوں کی نسبندی کے باوجود یہ تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
جنت نظیر وادی کشمیر میں انسانوں کے بہیمانہ قتل اور خون بہانے پر تو کوئی پابندی نہیں لیکن آوارہ اور پاگل کتوں کو مارنا جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کی قطعی طور پر اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آوارہ کتوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور یہ تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر کے دس اضلاع میں مجموعی طور پر بیس لاکھ سے زائد کتے ہیں اور سری نگر میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یعنی اگر اس حساب سے دیکھا جائے تو ایک کتا چار شہریوں کو ہراساں کر رہا ہے۔ کشمیر کے مختلف علاقوں میں آئے دن آوارہ کتوں کی طرف سے بچوں، خواتین اور نوجوانوں کو کاٹ کھانے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ یہ کتے اس قدر ظالم ہیں کہ کوئی بچہ ان کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کے چہرے ، سر اور سینے کو بھی نوچ ڈالتے ہیں۔ آئے دن کتوں کی بربریت اور کاٹ کھانے کی ایسی تصاویر میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آتی ہیںکہ جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ایک انسان کی جان بہت قیمتی ہے تو پھر ان آوارہ کتوں کو زہر دے کر مار کیوں نہیں دیا جاتا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بھارتی حکومت شاید مظلوم کشمیریوں کو انسان بھی نہیں سمجھتی اس لئے انہیں زندہ رہنے کا حق دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔ نریندر مودی جب ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہیں رپورٹ دی گئی کہ بندروں کی طرف سے لوگوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے تو انہوںنے فوری طور پر حکم دیا کہ بندروں کو ہلاک کر دیا جائے۔ ہندو انتہا پسند لیڈر مودی نے یہ حکم نامہ جاری کرتے وقت یہ نہیں دیکھا کہ ہندو تو بندر کو بھگوان مانتے اور مقدس سمجھتے ہوئے اس کی پوجا کرتے ہیں بلکہ انہوںنے اپنی ریاست کے شہریوں کے مفاد کو مدنظر رکھا اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کی بات کی لیکن کشمیر میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ مظلوم کشمیریوں کو بھارتی حکومت ان کے بنیادی حقوق دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی لیڈر مینیکا گاندھی جس کے مہم چلانے پر کشمیر میں کتوں کو مارنا جرم قرار دیا گیا ہےاسے غاصب بھارتی فوجیوں کی طرف سے ہزاروں کشمیریوں کی بینائی چھینے جانے کا کوئی غم نہیں۔ مینیکا گاندھی نے کبھی کشمیریوں کو فرضی جھڑپوں میں شہید کرنے، اجتماعی قبروں میں دفن کرنے، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور نہتے کشمیریوں کی عزتوں اور جان و مال کی بربادی کی بات نہیں کی لیکن کشمیر کے کسی کونے کھدرے میں کوئی کتا مارا جائے تو وہ سپریم کورٹ آف انڈیا کا فیصلہ لے کر اسے سزا دلوانے پہنچ جاتی ہیں۔ سری نگر میونسپل کارپوریشن کے اہلکار بھی اس قدر خوفزدہ ہیں کہ انہیں ڈر رہتا ہے کہ اگر ان کے ہاتھ سے کوئی کتا مارا گیا تو ان کی نوکری بھی جائے گی اور وہ جیل بھی جائیں گے۔
کشمیر میں عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر عبدالرشید نے ایسی ہی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے لاپتہ افراد کی رہائی کیلئے جلوس نکالا تو انہوںنے اپنے ساتھ بکری، کتے اور گائے کو بھی شامل کیا ۔ جلوس میں شامل گائے کے گلے میں لٹکائی تختی پر لکھا گیا کہ میں سنگھ پریوار کی گائے ہوں’ میں کشمیریوں سے زیادہ محفوظ ہوں’ بکری کے گلے میں یہ تختی لکھ کر لٹکائی گئی کہ میں گاندھی جی کی بکری ہوں اور جنت ارضی کشمیر کے لوگوں سے زیادہ محفوظ ہوں۔ اسی طرح کتے کے گلے میں لٹکائی گئی تختی پر لکھا گیا کہ جب تک مینیکا گاندھی زندہ ہے اسے کسی کا ڈر نہیں۔ انجینئر عبدالرشید نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے منفرد طریقہ اختیار کیا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ کشمیر ایسا خطہ ہے کہ جہاں حیوانوں کے حقوق انسانوں سے زیادہ ہیں۔ انہوں نے انسانی حقوق کے اداروں کی توجہ اس طرف راغب کرنے کی کوشش کی کہ وہ دیکھیں کہ کس طرح کشمیر میں قتل و غارت گری، عصمت ریزی، نوجوانوں کو لاپتہ کرنے اور ان کی آنکھوں کی بینائی چھیننے کے واقعات پیش آرہے ہیں مگر یہ مظاہرے چونکہ کشمیر میں ہوتے ہیں اور ظلم و بربریت ڈھانے والا بھارت ہے اس لئے آج تک کبھی کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور کوئی دہشت گرد بھارت کا ہاتھ روکنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بہرحال بات چل رہی تھی کشمیر میں کتوں کو مارنے پر پابندی کی تو اس کے متبادل ابھی تک صرف یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ کتوں کی نسبندی کیلئے ریاستی حکومت سری نگر میں ایک چار کمروں کا مرکز بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس مرکز میں روزانہ تین سے چار کتوں کی نسبندی ہو بھی جائے تو کتوں کی پیدائش کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے۔ آ پ جتنے کتوں کی نسبندی کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ تو مزید شہر میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ کشمیری ماہرین کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر کتوں کی نسل کشمیر میں یونہی بڑھتی رہی تو آئندہ چند برسوں میں ان کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ماہر نفسیات ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کتوں سے جان چھڑانا انتہائی ضروری ہے وگرنہ ہر کشمیری کے دل و دماغ میں آوارہ کتوں کا خوف سوار رہے گا اور وہ نفسیاتی طور پر بری طرح متاثر ہوں گے۔ کتوں کی تعداد میں اضافہ سے بیماریاں بھی اور زیادہ بڑھیں گی۔ کتے کے کاٹے کا تو علاج بھی اس قدر مہنگا ہو چکا ہے کہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ اگرچہ یہ علاج پہلے کی نسبت آسان ہو چکا ہے مگر چودہ کی بجائے پانچ ٹیکے اب بھی پیٹ میں لگتے ہیں تاہم اس وقت کشمیر میں ایک ٹیکے کی قیمت ہزاروں میں ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ عام آدمی کو کس طرح اس طرح کے مسائل پر مشکل صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حکومت کی جانب سے کتوں کی نسبندی کے دس مزید مراکز قائم کرنے دعویٰ محض ڈھونگ ہے روزانہ چند ایک کتوں کی نسبندی یا پھر انہیں پوش علاقوں سے گاڑیاں بھر کر عام محلوں اور نواحی علاقوں میں چھوڑ دینا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک طرف غاصب بھارتی فوجی دندناتے پھرتے ہیں، نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر کشمیریوں کی قتل و غارت گری تیزکر دی گئی ہے تو دوسری جانب کشمیر کے گلی کوچوں میں آوارہ کتے غول در غول پھرتے نظر آتے ہیں۔ کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی ختم کرنے کی طرح آوارہ اور پاگل کتوں کی ہڑبونگ پر قابو پانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ لوگ کتے کے کاٹ کھانے پر علاج کیلئے میڈیکل انسٹی ٹیوٹ ، ایس ایم ایچ ہسپتال اور دیگر ہسپتالوں و شفا خانوں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں بھی کتوں کا میلہ لگا دکھائی دیتا ہے۔ عدالتیں، سرکاری دفاتر، شاپنگ مال، سکول، کالج اور دوسرے ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے بین الاقوامی ملک اور ادارے کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لیں اور سنجیدگی سے کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق دلائے جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button