ColumnTajamul Hussain Hashmi

انسان کیسے بدلتے ہیں

تجمل حسین ہاشمی
پوچھا کہ جناب پیسہ کی ریل پیل کیسے ہو اور کامیابی کیلئے کیا کرنا ہوگا؟ بابا نے جواب دیا کہ جناب پیسہ کی فراوانی کو کامیابی مت گنو۔ لوٹ مار، قبضے، منشیات اور قتل و غارت سے کمایا گیا پیسہ کبھی بھی کامیابی نہیں۔ کامیابی کے تصور سے متعلق ہر انسان کی سوچ مختلف ضرور ہے لیکن اسلام میں کامیابی کا تصور دنیاوی اور آخرت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ بابا نے کہا پیسے کی ریل پیل اور کامیابی (عزت) چاہتے ہو تو زیادہ نہیں دو عمل اپنی زندگی کا حصہ بنا لو۔ میں وہیں بیٹھا تھا، میں نے توجہ سے سنا۔ باباکہنے لگا اپنی زندگی میں کم از کم دو عمل پکے کر لو۔ اپنی زندگی میں شکر داخل کرلو۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرو۔ سیکنڈ درگزر کو زندگی کا حصہ بنا لو۔ اگر تیسرے عمل کو یقینی بنا لو گے تو زمانے میں عزت اور مالامال بن جاؤ گے۔ جس چیز کی تمہیں چاہت ہے اس کو بانٹنا شروع کر دو۔ نتیجے سے آپ خود حیران ہو جاؤ گے۔ ہر حال میں عمل پیرا رہو گے تو زندگی خوب صورت ہو جائے گی۔ کبھی انسانوں کے بدلنے کا دکھ نہیں ہوگا۔ یہی سچائی ہے۔ فیس بک پر کسی ڈرامہ کا کلپ چل رہا تھا، جس میں لڑکی کے رشتہ کی بات چل رہی تھی، لڑکے کے والدین فخر سے بتا رہے تھے کہ میرا بیٹا اوپر کی اچھی کمائی کر لیتا ہے۔ لڑکی نے جواب دیا کہ سیدھا کہیں لڑکا حرام کماتا ہے۔ مجھے ڈائیلاگ ٹھیک طرح سے یاد نہیں لیکن لڑکی کا ڈائیلاگ کا مطلب یہی تھا۔ لڑکے والے اپنے بیٹے پر ناز کر رہے تھے۔ لڑکی نے رشوت لینے پر کھری کھری سنا دیں اور رشتہ سے انکار کر دیا۔ انکار کے بعد لڑکی نے اپنے والد سے پوچھا کہ ابا میں نے صحیح کیا؟ والد کا جواب انتہائی غور طلب تھا۔ والد نے کہا بیٹی بات تو سچی کہی ہے لیکن دور حاضر میں لوگ ایسی باتوں پر برا مان جاتے ہیں۔ یہ ایک ڈرامہ کا سین تھا جس میں دور حاضرکے حالات کی عکاسی کی گئی تھی۔ اب اس دور حاضر میں جو کچھ بھی چل رہا ہے سب کے سامنے ہے۔ عزت کے معنی بدل گئے ہیں۔ سینئر صحافی و کئی کتابوں کے مصنف جناب رؤف کلاسرا کی کتاب "ایک سیاست کئی کہانیاں ” سے لیا گیا اقتباس "پانچ گھنٹے بعد میں اس خوب صورت موسم میں مری کے پہاڑوں پر ڈھلتی شام میں اسلام آباد کی طرف واپس روانہ ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ اس ملک میں رہنے والے مجھ جیسے عام لوگ اپنے حکمران اور ان کی سازشوں اور خواہشوں کی قیمت کیسے ادا کرتے آئے ہیں۔ یہ بڑا عجیب سا اتفاق ہے کہ شاہد حامد کے والد جنرل حامد پاکستان کے تیسرے آرمی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کے دور میں اس وجہ سے قید و بند کی مشکلات اٹھاتے رہے کیونکہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور وہ اپنے آپ کو بھٹو کا وفادار تصور کرتے تھے، تاہم وقت کیسے بدلتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ انسان کیسے بدلتے ہیں کہ اسی سابقہ جنرل حامد کے بیٹے شاہد حامد نے 5 نومبر 1996 کی رات اسی بھٹو کی بیٹی بینظیر کی حکومت توڑنے کیلئے اپنے دوست فاروق لغاری، جو اس وقت کے صدر تھے، کو ایک صدارتی حکم نامہ تیار کرکے دیا۔ شاہد حامد کے ڈرافٹ کئے ہوئے اس صدارتی حکم نامے نے اس ملک کی تاریخ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دی تھی۔ کیونکہ اس حکم نامے کی بدولت آصف زرداری جیل میں گئے، جہاں سے وہ 2004 میں تقریباً 10 سال بعد رہا ہوکر ملک چھوڑ گئے۔ اس سے پہلے بینظیر بھٹو مارچ 1999 میں ملک چھوڑ کر جلاوطن ہوئیں اور جب آٹھ سال بعد وہ ملک لوٹیں تو راولپنڈی کے بازار میں شہید ہوئیں۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کی حکومت نہ توڑی جاتی تو شاید یہ سب کچھ مختلف ہوسکتا تھا۔ خورشید قصوری کی درختوں میں گھری ہوئی اس خوبصورت کوٹھی کے عقبی حصے کی بالکونی میں بیٹھے بارش کے قطروں کی دھیمی دھیمی سرسراہٹ میں شاہد حامد کو ابھی بھی وہ 5 نومبر کی رات 7 سال بعد بھی بڑی اچھی طرح یاد تھی، جب ہر پانچ منٹ بعد فاروق لغاری ان کے کمرے میں آتے اور کہتے "شاہد حامد ہری اپ، برخاستگی کے آرڈر جلدی تیار کرو” جموریت کا تسلسل قائم رہنا نظام کی مضبوطی ہے، اس سے ملک مضبوط ہوگا۔ لیکن ہمارے ہاں جموریت کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا، ایک دوسروں پر الزامات، درجنوں مقدمات نے سیاست اور معاشرہ میں تقسیم کو مزید بھڑکا دیا ہے۔ سابقہ جنرل علی قلی نے جناب کلاسرا صاحب کو انٹر ویو میں کہا "جب بھی فوج نے کسی بھی سویلین حکومت کو گرایا تو اس وقت کی سیاسی لیڈرشپ نے باقاعدہ طور پر انہیں اس کے جواز پیش کئے۔ جو مسائل سیاسی انداز میں حل ہوسکتے تھے وہ سیاسی لوگ فوجی لیڈرشپ کے سامنے لے کر آتے تھے، یہ بہت غلط اپروچ تھی۔ جنرل قلی خان کا خیال تھا کہ سیاست دان اپنے مقاصد کیلئے فوج کو استعمال کرتے تھے جس سے فوجیوں کو بھی یہ بہانہ ملتا تھا کہ وہ سیاسی معاملہ میں دخل اندازی کریں۔” سابقہ جنرل قلی کی وضاحت بہت حقیقت پسندانہ تھی، کسی بھی دور کی اسٹیبلشمنٹ ہو وہ کبھی بھی سیاسی معاملات میں داخل اندازی نہیں چاہتی لیکن سیاست دان سیاسی معاملات کو اسمبلی میں کیوں حل کرنا نہیں چاہتے؟ یہ کیوں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور راتوں کو ملتے ہیں۔ ملکی ترقی کیلئے مل بیٹھ کر عوامی تحفظ کیلئے کام کیوں نہیں کرتے؟ یہی سب سے زیادہ حیران کن ہے، وہ اسمبلی کی توقیر میں نعرے بلند کرتے، مفادات کے بل پاس کرتے اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ سیاست دان خود تفریق کو جنم دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کو اپنے طرز حکمرانی اور رویوں کو بدلنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button