ColumnImtiaz Aasi

انتخابات کی ساکھ

امتیاز عاصی
تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد واضح ہو گیا تھا کہ آنے والے وقت میں پی ٹی آئی کو اقتدار سے محروم رکھا جائے گا۔ سانحہ نو مئی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یوں پی ٹی آئی کے حصے بخرے کرنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دراصل پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے محروم رکھنے کا مقصد عوام کو اپنے حق بالغ رائے دہی سے محروم رکھنا مقصود ہے جس میں پی ٹی آئی مخالف قوتیں کامیاب ٹھہری ہیں۔پاکستان کے عوام کی بدقسمتی شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان کی عوامی جلسہ میں شہادت سے شروع ہوگئی تھی جس کے بعد جمہوریت محض خواب رہ گئی۔ کوئی امید رہ گئی تھی تو طالع آزما سیاست دانوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ذولفقار علی بھٹو کے بقول طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، عہد حاضر میں طاقت کا سرچشمہ عوام کے بجائے کوئی اور ہے۔ پی ٹی آئی کے دور کے خاتمے سے طاقت ور حلقوں کو امید تھی کہ عمران خان کی جماعت سیاست سے ہمیشہ کیلئے آؤٹ ہوگئی۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی نے پنجاب کو اپنا قلعہ سمجھنے والوں اور طاقت ور حلقوں کے اندازے غلط ثابت کر دیئے۔ ہمارا ملک کئی بار مارشل لاء کی لپیٹ میں رہا، جن حالات سے اس وقت ہمارا ملک گذر رہا ہے سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ملکی تاریخ میں ایک بار غیر متنازعہ الیکشن کا انعقاد ہوا جس کے بعد اب تک جتنے انتخابات ہوئے کسی نہ کسی معاملے میں الیکشن کمیشن پر تنقید ہوتی رہی لیکن موجودہ الیکشن کمیشن کے کردار سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ چلیں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں تھے، ماسوائے جماعت اسلامی کے کوئی ایک جماعت ایسی ہے جس کے انٹرا پارٹی الیکشن ٹھیک ہوئے ہوں؟ سیاسی جماعتوں نے پارٹی کے اہم عہدوں کی بندر بانٹ خاندان کے اندر رکھی ہوئی ہے، کیا ایسے انتخابات درست ہیں؟ الیکشن کمیشن کا موقف ہے دیگر پارٹیوں کے الیکشن کسی نے چیلنج نہیں کئے۔ عجیب تماشا ہے، کسی جماعت کے الیکشن کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا تو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں ہے وہ پارٹی کے الیکشن کو قانون کے مطابق دیکھے؟ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے والوں نے عمران خان کو under estimate کیا، اقتدار سے علیحدہ ہونے، بے شمار مقدمات اور جیل میں رہنے کے باوجود وہ چٹان کی طرح کھڑا ہے جبکہ بعض سیاسی رہنماؤں نے جیل جانے کے بجائے ملک چھوڑنے کو ترجیح دی۔ انتخابات کی ساکھ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عوام کی مقبول ترین پارٹی کو الیکشن سے باہر رکھنے کیلئے ایسے حربے بروئے کار لائے جارہے ہیں جو اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔ آنے والے الیکشن کی ساکھ اس وقت مجروح ہوگئی تھی جب نواز شریف کو ایک منصوبے کے تحت وطن لاکر اسے باقاعدہ سرکاری پروٹول دیا گیا۔ نواز شریف ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتے ہیں، انہیں خصوصی طیارہ فراہم کیا جاتا ہے جو اس امر کی واضح دلیل ہے کہ آئندہ اقتدار انہی کو دیا جائے گا۔ وفاق اور صوبوں کے نگران سیٹ اپ میں مسلم لیگ نون سے وابستگی رکھنے والوں کو وزارتیں دینے اور نون لیگ کے امیدواروں کو جلسوں کی اجازت اس بات کے غماز ہیں کہ ایک مخصوص جماعت کو عوام کی مرضی کے برعکس اقتدار میں لانے کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ 1970 کی مثال ہمارے سامنے ہے، ایک مقبول جماعت کو اقتدار سے علیحدہ رکھنے کا نتیجہ ہم دیکھنے کے باوجود ماضی سے سبق حاصل نہیں کر رہے ہیں لہٰذا اس طرح کے بار بار تجربات سے ذمہ دار حلقوں کو گریز کرنا چاہئے۔ پاکستان کے عوام پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ طاقتور حلقوں کی آشیرباد کے بغیر کسی جماعت کو اقتدار میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جو اس امر کی دلیل ہے کہ عوام کی مرضی کے برعکس سیاسست دانوں کو اقتدار میں لانے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ایک اور جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم رکھنے کے بعد آزاد امیدواروں کی حمایت سے لولی لنگڑی جمہوریت عوام پر مسلط کر دی جائے گی۔ جب چاہا انہیں اقتدار سے ہٹا کر من پسند سیاسی رہنماؤں کو عوام کی مرضی کے برعکس لا کر مسلط کر نے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ طالع آزماؤں کو بار بار آزمانے سے کیا حاصل؟ سوال ہے کہ کیا ملک میں نواز شریف کے بجائے ایک بھی ایسا سیاست دان نہیں جسے وزارت عظمیٰ دی جاسکے؟ آخر نگران وزیراعظم کو اقتدار سونپا گیا ہے، کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا نگران وزیراعظم بلوچستان سے ہوگا؟ طاقتور حلقوں کو چاہئے وہ روایتی سیاست دانوں سے دور رہیں۔ وہ نیک نام اور راست باز سیاسی رہنماؤں کو ملک کی باگ ڈور دیں گے تو اس میں ا ن کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوگا۔ نواز شریف کو اقتدار میں لانے کا عندیہ نہ دیا جاتا تو وہ ابھی تک علیل ہوتے۔ یہ تو اقتدار کی چمک نے انہیں روبصحت کرکے وطن واپس آنے پر مجبور کیا ہے ورنہ ان کی صحت خراب ہی رہتی۔ الیکشن میں ایک ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے، سیاسی جماعتوں اور عوام کی انتخابات سے پہلے گماگہمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ عوام سیاسی عمل سے مایوس ہو چکے ہیں، الیکشن کمیشن جو خودمختاری کا دعویٰ دار ہے اس کے جانبدارانہ کردار نے ملک کے عوام کو انتخابات سے کوسوں دور کر دیا ہے، جس کے بعد یہ بات یقینی ہے کہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ بہت کم ہونے کی امید ہے۔ سوال ہے کہ قومی خزانے کے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود الیکشن متنازعہ رہے تو ملک اور عوام کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت محروم رکھنے کا نتیجہ ملک وقوم کے مفاد میں نہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک پر رحم کرے اور ملک و قوم کو ایسے حکمران نصیب فرمائے جو کرپشن کی آلودگی سے پاک اور قوم کے پیسوں سے بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے نہ ہوں۔ (امین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button