Columnمحمد مبشر انوار

گلاب تو گلاب ہے!!!

محمدمبشر انوار (ریاض)
کہاوتیں یونہی نہیں بنی بلکہ ان کا بھرپور پس منظر ہے، جس کے بعد مسلمہ کہاوتوں نے جنم لیا ہے اور پھر ہمیشہ کے لئے ضرب المثل بن گئی، ہر دور میں مخصوص حالات میں ان کہاوتوں سے پوری بات کردی جاتی ہے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ممکنہ طور پر ابد تک جاری رہے گا کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں، لہذا ہر دور میں نئے حالات کے مطابق نت نئی روایات جنم لیتی رہیں گی۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ان کہاوتوں میں کرداروں کی اپنی پہچان، اپنا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کردار کے باعث وہ امر ہو جاتا ہے، ایسی ہی ایک حقیقت گلاب کے متعلق ہے کہ اگر گلاب کا نام گلاب نہ ہوتا تو کیا اس کی خوشبو بدل جاتی؟ یہی وہ منفرد خاصیت ہے جو کسی بھی کردار کو دائمی حیثیت بخش دیتی ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ واقعی اگر گلاب کا نام گلاب نہ ہوتا تو کیا اس کی خوشبو، جو رب کریم کی قدرت کا کرشمہ ہے، بدل جاتی؟ ایسی ہی صورتحال انسانوں کے معاشرے میں بھی پائی جاتی ہے کہ جہاں انفرادی خصوصیات کے باعث، حضرت انسان تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر جاتا ہے، خواہ اس کی نوعیت مثبت ہو یا منفی، بہرطور انسان اپنے نام کو تاریخ میں رقم کروا جاتا ہے۔ تاریخ ایسے کرداروں کو کبھی بھی نہیں بھولتی جو انفرادیت کے حوالے سے منفرد ہوں، تاریخ انہیں ہمیشہ اپنے بطن سے دنیا کے لئے اگل دیتی ہے تا کہ نسل انسانی اس سے سبق حاصل کرے، اللہ رب العزت کی تخلیق کردہ اس کائنات میں رب کریم کی ہی احکامات کے مطابق خیر و شر میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرکے، اپنی حیثیت کا تعین کر سکے۔ بنیادی طور پر ہر شخص انفرادی طور پر اپنے حلقہ احباب میں اپنے کردار کے باعث، اپنا ایک دائمی تاثر چھوڑ رہا ہوتا ہے اور ہر شخص اپنے حلقہ اثر کے مطابق ہی تاثر چھوڑتا ہے البتہ بنی نوع انسان میں چونکہ انسان اللہ رب العزت کا خلیفہ بھی ہے اور لوگوں کی اکثریت اپنے لئے ایک حکمران کو چنتی ہے،جس کا حلقہ بسا اوقات اپنے ملک کے علاوہ ساری دنیا بھی ہوتی ہے۔ قدیم زمانے میں اقتدار سلطنت میں فقط بادشاہوں کے لئے مخصوص تھا جبکہ آج بھی کئی ایک ممالک ایسے ہیں کہ جہاں اقتدار کا حق صرف بادشاہوں اوران کے خاندان تک محدود ہے جبکہ دوسری طرف زمانے نے ترقی کرتے ہوئے، اقتدار کے پیمانے تبدیل کردئیے اور کوئی بھی باصلاحیت شخص، اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر اقتدار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ ملوکیت میں اقتدار کا حصول بذات خود جان جوکھوں کا کام ہے کہ اقتدار کے محلوں میں ہمہ وقت،حصول اقتدار کے لئے سازشیں پنپتی نظر آتی ہیں،سگے رشتوں کو راستے سے ہٹانے کے لئے کسی نرم دلی یا رحمدلی کا شائبہ نظر نہیں آتا کہ جس کو جہاں موقع ملا،راستے کے پتھر کو ہٹانے میں لحظہ بھر دیر نہیں لگتی،گویا اقتدار ہر لمحہ کانٹوں کی سیج اور دہکتے انگاروں کی بھٹی تصور ہوتا ہے،لیکن پھر بھی ہوس پرست اس کے لئے دیوانے دکھائی دیتے ہیں۔ ملوکیت میں امور مملکت چلانے کے لئے بھی باصلاحیت لوگ درکار رہتے ہیں لیکن ان کے نصیب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فقط چاکری ہے اور وہ کسی بھی لمحہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ بادشاہ وقت کے ہٹنے کے بعد ان کی قسمت بھی یاوری کر سکتی ہے،ماسوائے مستثنیات کے کہ جہاں ایسے باصلاحیت لوگوں نے اپنے دائرہ اختیار سے بڑھ کر اقتدار کے حصول میں کوشش کی اور کامیاب ٹھہرے وگرنہ سردار کے علاوہ اور کوئی نصیب نہ ٹھہرا۔
تاہم آج دنیا کے حالات بدل چکے ہیں اور مہذب و ترقی یافتہ دنیا میں ’’ جمہوریت‘‘ نامی طرز انتخاب نے عام انسانوں کو بھی یہ امید دلا دی ہے کہ اگر وہ اپنے مقصد میں مخلص ہیں،باصلاحیت ہیں تو انہیں اقتدار میں آنے سے کوئی بادشاہ یا اس کا خاندان نہیں روک سکتا۔اس طرز انتخاب نے دنیا بھر کے ممالک میں ایسے کئی ایک خاک نشینوں کو عرش پر بٹھایا ہے کہ جن کے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسے لوگ بھی اقتدار کا حصہ ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لئے جو بنیادی قوانین ان جمہوریت پرستوں نے طے کر رکھے ہیں، ان پر پورا اترنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، جبکہ یہ خاک نشین لاکھ باصلاحیت ہونے کے باوجود اپنے آبائی وطن میں کسی بھی صورت اقتدار کے ایوان تک نہیں پہنچ پاتے۔ جمہوری طرز انتخاب کی اس خوبصورتی کو کماحقہ اپنانے والے ممالک آج اس کے ثمرات ہمہ جہت سمیٹتے نظر آتے ہیں اور ان کی عوام خوشحال دکھائی دیتی ہے۔ بدقسمتی سے اس کرہ ارض پر ایسے ممالک بھی ہیں جو مالا تو اس جمہوری نظام کی جپتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے خمیر میں آج بھی وہی آمریت زندہ ہے اور وہ اپنے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کو اقتدار میں دیکھنا گوارا نہیں کرتے، اس ضمن میں انہیں کسی بھی حد تک جانا پڑے، وہ قطعا گریز نہیں کرتے۔ پاکستان نے انگریزوں سے آزادی اسی جمہوری طرز انتخاب پر حاصل کی لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان کی زمام کار جلد ہی شخصی آمروں کے ہاتھ پہنچ گئی، بعد ازاں جمہوریت کی گردان کے باوجود ساری دنیا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان آمرانہ جمہوریت کی مثال بن چکا ہے۔ جہاں کسی آمر کی آمریت تو اپنی جگہ سویلین کی آمریت بھی واضح نظر آتی ہے جبکہ آج کی صورتحال انتہائی گھمبیر ہو چکی ہے کہ جہاں سویلین ہی آمر کی شہ پر آمر مطلق بننے کو تیار نظر آتے ہیں۔
جمہوری طرز انتخاب کی کوئی ایک رمق اس وقت وطن عزیز میں نظر نہیں آتی کہ ایک طرف ماضی میں زیر عتاب شخص کو ،باقاعدہ وعدے وعید کے ملک واپس لایا جاتا ہے ،جس کا اعلان وہ شخص اور اس کی سیاسی جماعت ببانگ دہل ،ساڈی گل ہو گئی ایہ،کہہ کر کرتی ہے،عوام میں اس کی پذیرائی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے لیکن قرائن چیخ چیخ کر کہتے نظر آتے ہیں کہ اقتدار کا ہما اس کے سر سج چکا ہے ،باقی سب کھیل تماشہ ہے۔اس کے باوجود کہ سب کھیل تماشہ ہے،کو صحیح اور قابل اعتبار ثابت کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے جا رہے ہیں،حیران کئے جاتے ہیں کہ سیاسی مخالفین کے حوالے سے اس لاڈلے کی کرتوت ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں کہ انہیں قانونی موشگافیوں میں ایسے الجھاؤ کہ انہیں سیاست کے لئے فرصت ہی نہ رہے۔بے نظیر بھٹو کے ساتھ انتقامی سیاست کرتے ہوئے،میاں صاحبان نے کیا کچھ نہیں کیا،کس طرح مرحومہ کو عدالتی کارروائیوں میں الجھایا گیا،کیسے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات دائر ہوئے، کس طرح ججز کو سزائیں سنانے کے لئے احکامات دئے گئے لیکن اس کے باوجود بھی بے نظیر کی زندگی تک،اس کی مقبولیت کو میدان میں جمہوری طرز انتخاب کے مطابق چھیننے میں ناکام رہے۔بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لئے کیا کیا کارستانیاں کی جاتی رہی،کیسے سرکاری مشینری کو اپنے لئے استعمال کیا جاتا رہا،کیسے ریاستی مشینری کو ذاتی غلاموں میں بدلا گیا،کیسے وفاداروں کی فوج ظفر موج ریاستی مشینری میں داخل کی گئی،سب تاریخ کا حصہ اور محفوظ ہیں جو یقینا تاریخ وقت آنے پر اپنے پیٹ سے اگل کر ان کی جعلی مقبولیت کے راز فاش کر دے گی۔آج بھی وہی پرانی روش پر گامزن کہ میدان سیاست میں بغیر بیساکھیوں کے اترنے کے لئے قطعی تیار نہیں ،کل تک بے نظیر ان کی سیاسی مخالف تھی جبکہ آج ان کا سیاسی مخالف عمران خان ہے،طریقہ کار وہی پرانا،روش وہی پرانی،مخالفین پر مقدمات کی بھرمار،الزامات کی طومار،کردار کشی میں کسی بھی حد سے گزرنا تو معمول کی بات ہے۔ عمران خان پر قریبا دو سو مقدمات ہیں جن میں فقط دو/تین میں اس کو قید میں رکھا گیا ہے اور جیسے جیسے یہ مقدمات کمزور پڑتے ہیں،ویسے ویسے باقی مقدمات کو حرکت دی جاتی ہے،ایک مقدمہ میں ضمانت ہوتی ہے ،اسے رہا کرنے کا حکم آتا ہے تو دوسریٍ مقدمہ میں اس کی گرفتاری ڈال دی جاتی ہے،اسے جیل کی سلاخوں سے باہر آنے تک نجانے کتنے جتن کرنا پڑیں،زندان سے رہائی اس کا نصیب بھی ہوتی ہے یا نہیں،یہ بھی کسی کو علم نہیں۔بظاہر یہی دکھائی دیتا ہے کہ فروری میں ہونے والے انتخابات،اگر منعقد ہوتے ہیں تو،تک کسی بھی صورت عمران کو رہائی ملتی دکھائی نہیں دیتی،اس کی سیاسی جماعت بے یارو مددگار،اپنے انتخابی نشان کے بغیر سیاسی اکھاڑے میں اترتی دکھائی دیتی ہے۔حیران کن طور پر الیکشن کمیشن اس میں ایک فریق کی طرح پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں سپریم کورٹ جا پہنچا ہے،جو ماہرین قانون کی رائے میں اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے کہ ایسا پہلے کبھی نہ سنا نہ دیکھا،یوں انتخابی نشان کو متنازعہ بنائے رکھنے کامقصد بعد از انتخاب،مخصوص نشستوں پر کھلواڑتو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ،بغیر انتخابی نشان منتخب ہونے والے اراکین کو دبائو میں لانا بھی شامل ہے۔
منصوبہ سازوں کو داد نہ دینا ناانصافی ہوگی کہ اس خوبصورتی سے یہ جال بنا ہے کہ ممکنہ پارلیمنٹ تحریک انصاف کے اراکین کے بغیر بنتی دکھائی دیتی ہے، تاہم یہ امر ملحوظ رہے کہ ان تمام اقدامات ،اس منصوبہ کو بیرون ملک نہ صرف میڈیا بلکہ کئی ایک ممالک کی پارلیمنٹ تک میں چاک کر دیا گیا ہے گو کہ اس طرح کرنے کے باوجود ریاستیں اپنے ریاستی مفادات کی اسیر ہوتی ہیں لیکن تاریخ میں ایسے ردعمل یاد رکھے جاتے ہیں۔بعینہ جیسے بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد پانچویں بار وزیراعظم منتخب ہو چکی ہیں لیکن تمام اہم ممالک کی طرف سے ان انتخاب کی حیثیت پر دی جانے والی آراء بنگلہ دیشی انتخابات پر زوردار طمانچے سے کم نہیں،کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان میں چوتھی بار وزیراعظم بننے کے خواہشمند کے حوالے سے بھی ہے،کہ عوام میں مقبولیت انتہائی گر چکی ہے،امیدواران کو عوام جوتے، ٹھڈوں اور تھپڑوں پر رکھے ہوئے ہے، گالیاں اس سے الگ ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے حوالے سے کاغذات نامزدگی ہوں، انتخابی نشان ہو، چادر چاردیواری کا تقدس پامال ہو ،امیدواران گھروں میں رہ نہ سکیںیا عمران خان پر مقدمات، عوام یہی کہتی دکھائی دیتی ہے کہ بے شک تحریک انصاف کے امیدوار گھر بیٹھے رہیں،ووٹ ان کو ہی ملے گا کہ ہمیں ان کی مشکلات کا اندازہ ہے۔اس پس منظر میں بالفرض کوئی چوتھی بار وزیراعظم بن بھی جائے تو کیا دنیا اسے وزیراعظم تسلیم کرے گی؟جو مقبولیت بابائے قوم،قائد ملت،مادر ملت،شیخ مجیب الرحمان ،ذوالفقار علی بھٹو،یا عمران خان حاصل کر چکے،نواز شریف اس کے عشر عشیر تک بھی نہیں پہنچ سکتا،وہ تما م شخصیات تاریخ میں مقبولیت کے حوالے سے گلاب کی حیثیت رکھتی ہیں، خواہ انہیں اقتدار ملے یا وہ سولی چڑھیں، گلاب ہی کہلائیں گے ،کانٹا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button