CM RizwanColumn

بات ہو رہی تھی آئین شکنی کی

سی ایم رضوان
ہمارے ایک تاجر دوست شیخ عامر لطیف گزشتہ دنوں ایک ٹریفک حادثہ میں شدید زخمی ہوئے۔ ہم ان کی عیادت کے لئے ان کے ہاں حاضر ہوئے۔ موصوف ایک سیاسی رائے اور قومی شعور کے حامل انسان ہیں۔ ان کے زخموں سے بات چلتے چلتے سیاست اور جمہوریت کے زخموں پر آئی تو ہم دونوں دوست باہمی طور پر اس نقطہ پر متفق ہو گئے کہ ہمارا تو ملکی آئین بھی کئی بار ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں ٹوٹ چکا ہے۔ یہاں تک کہ بعض سیاسی شخصیات بھی اس میں حصہ بقدر جثہ ڈال چکی ہیں۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی حکومتی عمر گو کہ بہت کم ہے مگر آئین شکنی اور پارلیمانی اصولوں کی پامالی جیسے جرائم زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود کہ اس جماعت کو عدالتوں میں جانے کا بڑا شوق ہے جبکہ ان کے عدالتوں میں جانے کے بعد ہر بار یہ انکشاف یہ ہو جاتا ہے کہ ان کی آئینی اور قانونی حوالوں سے عدالتوں میں پیش ہونے کی تیاری صفر کے برابر ہوتی ہے۔ اس امر کا اندازہ پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے حصول کے لئے عدالتوں میں بعض مقدمات کی حالیہ سماعتوں کی تفصیلات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ جن میں سیاسی تقاریر اور بیانیہ کی دہرائی اور تکرار کے علاوہ ان کے پاس قانونی اور آئینی نکات بالکل بھی نہیں ہوتے اور ان کے لئے یہ عدالتوں سے وقت مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کو چھوٹتے ہی آئین دشمن اور آئین شکن قرار دینے والے یہ لوگ کس قدر آئین دشمنی اور آئین شکنی میں ملوث ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لئے ان کی سابقہ مرکزی حکومت کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے آئین دشمن اقدامات کے خلاف پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی تین اپریل کی رولنگ کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے آئین سے متصادم قرار دیئے جانے سے لگایا جا سکتا ہے جس کے بعد سیاسی اور آئینی حلقوں میں یہ اصولی سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا ایسا کرنے کی وجہ سے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی آئین شکن رولنگ کے بعد صدر عارف عارف علوی، عمران خان اور فواد چودھری کے خلاف آئین توڑنے کے جرم میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے ابتدائی مختصر فیصلے میں ان کی رولنگ کو غیر آئینی تو قرار دیا تھا لیکن کوئی کارروائی تجویز نہیں کی تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ عدالت اس وقت پی ٹی آئی کے لئے نرم گوشہ رکھتی تھی ورنہ یہ جرم کسی طرح سے بھی آئین شکنی اور پارلیمانی اصولوں کے قتل سے کم نہ تھا۔ اس وقت کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔ تحریک عدم اعتماد میں کہا گیا تھا کہ ڈپٹی سپیکر نے بارہا قواعد، پارلیمانی طور طریقوں، جمہوری روایات اور یہاں تک کہ آئین شکنی کی ہے۔ قرارداد میں ڈپٹی سپیکر کی جانب سے تین اپریل کی رولنگ کے ذریعے تحریکِ عدم اعتماد مسترد کرنے اور سات اپریل کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے اسمبلی کی بحالی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ڈپٹی سپیکر نے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے آئین کی خلاف ورزی کی اور اُن کا یہ اقدام آئین کی شق 6 کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ قرارداد اکثریت سے منظور بھی ہوئی مگر قاسم سوری اور اس کے ہمراہیوں کے خلاف آج تک آئین شکنی کی کارروائی نہیں ہو سکی چونکہ اس وقت کی اپوزیشن کا اس وقت بنیادی مقصد پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانا تھا۔ جہاں تک قاسم سوری کے خلاف ایکشن کی بات ہے تو اپوزیشن اس پر بعد میں ضرور غور کر سکتی تھی لیکن تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد نئے وزیراعظم کا انتخاب کیا گیا اور جو شخصیت وزیراعظم منتخب ہوئی تھی وہ اپنے ڈیڑھ سالہ وزارت عظمیٰ کے دور میں یہاں تک کہ آج بھی ’’ مٹی پائو ‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں حالانکہ وہ قاسم سوری اور ان کے ہمراہیوں کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی کے لئے تمام جماعتوں سے مشاورت کے بعد اور وکلا سے قانونی نقطہ نظر کے حصول کے بعد لائحہ عمل تیار کر سکتے تھے۔ شاید یہ کارروائی آج بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح کرتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کا اقدام غیر آئینی اور آئین شکنی تھا۔
یاد رہے کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے متحدہ اپوزیشن کی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر دیا تھا جس کے بعد سابق وزیر اعظم نے صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھیجی تھی۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کیا اب بھی سپریم کورٹ اپنے تفصیلی فیصلے میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اور دیگر کے خلاف کارروائی کا حکم دے سکتی ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے آئینی امور کے ماہر ایڈوکیٹ سلمان اکرم راجہ نے اس وقت کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں ڈپٹی سپیکر کے خلاف کسی کارروائی کی توقع کرنا قیاس آرائی ہے کیونکہ اس وقت سپریم کورٹ کا فوکس ڈپٹی سپیکر کے اقدام کی آئینی حیثیت پر تھا۔ سپریم کورٹ نے کہہ دیا تھا کہ یہ عمل غیر آئینی تھا اور اسی بناء پر اسے کالعدم قرار دیا گیا۔ عدالت کے تفصیلی فیصلے میں بھی اس حوالے سے عدالت اپنی وجوہات ہی بیان کرے گی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ ڈپٹی سپیکر کے خلاف کسی کارروائی سے متعلق کوئی حکم جاری کیا جائے گا۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر رولنگ کو انتہائی بھونڈی اور غیر آئینی حرکت قرار دیا تاہم ان کے مطابق اپوزیشن کے پاس اس اقدام کو چیلنج کرنے کا کوئی آئینی یا قانونی طریقہ موجود نہیں۔ آئین تقاضہ کرتا ہے کہ اگر ایوان کے 20فیصد اراکین کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک آتی ہے تو اسے ووٹنگ کے لئے پیش کیا جائے۔ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں کہ آپ کسی پر الزام لگا کر اس قراردار پر ووٹنگ کو روک دیں گے یا آپ کسی کی وفاداری پر شک کر کے اسے ووٹ ڈالنے سے روک دیں یا پوری قرار داد کو ہی مسترد کر دیں۔ یہ تمام باتیں چالاکی کے زمرے میں آتی ہیں بلکہ بیوقوفانہ قسم کی چالاکی۔ اب جو آئین کا تقاضہ ہے اس پر عمل ہونا چاہیے اور اس کے مطابق معاملات آگے بڑھنے چاہئیں۔ جہاں تک قاسم سوری کی جانب سے آرٹیکل 5 کے استعمال کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا مطلب کیا ہے تو ایک سوال ہی کافی ہے کہ قاسم سوری قومی اسمبلی کے سپیکر تھے یا کوئی اسٹیٹ ایجنٹ۔ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن اسے مسترد کرنے پر تو اس وقت کی اپوزیشن نے بہت شور شرابا کیا تھا۔ اپوزیشن حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے ڈپٹی سپیکر پر آئین کی پامالی اور آئین کو سبوتاژ کرنے پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ بھی دائر کر سکتی تھی ۔ ایسا کرنے کی صورت میں یہ معاملہ پھر عدالت میں جاتا۔ اس صورت میں ڈپٹی سپیکر یا تحریک انصاف عدالت میں یہ موقف اختیار کر سکتے ہیں کہ یہ آئین شکنی نہیں تھی بلکہ ایسا کر کے انہوں نے آئین کی غلط تشریح کی لیکن یہ آئین کی غلط تشریح بھی تو ایک طرح سے آئین شکنی ہے۔ جس کی سزا بھی سنگین ہے۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف کے سابق سپیکر اسد قیصر نے 28مارچ کو اپوزیشن کی جانب سے عمران خان کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو قبول کر لیا تھا اور اس پر تین اپریل کو ووٹنگ ہونا تھی لیکن 28اپریل کو بھی سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے پاس عدم اعتماد تحریک کو مسترد کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ جس غیر آئینی طور پر مسترد کیا گیا جس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو لے کر رات بارہ بجے عدالت کھلوا کر آئین کے تحفظ کی سبیل کی تھی۔ جس کو آج تک پی ٹی آئی انتہائی بھونڈے طریقے سے تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button