Columnمحمد مبشر انوار

دائروں کا سفر

محمد مبشر انوار(ریاض)
قارئین کرام ! اپنی ایک پرانی تحریر بعنوان ’’ بولتے فیصلے‘‘، جو11فروری کو لکھی تھی، آپ کی نذر کر رہا ہوں کہ ہماری عدلیہ اپنے ارتقائی مراحل سے کس طرح نبردآزما ہے۔ یہ تحریر اس وقت لکھی گئی تھی جب عدلیہ نے حکمرانوں کی خلاف آئین اقدامات کو منسوخ کیا تھا، اس میں رقم کیا تھا کہ 2017ء جغرافیائی اعتبار سے، تحریری دساتیر کی دنیا میں امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے اپنے عوام کو سب سے پہلے تحریری دستور فراہم کیا جبکہ غیر مطبوعہ دساتیر کے حوالے سے شہنشاہیت میں حکمران وقت کے منہ سے نکلا ہوا لفظ ہی آئین اور قانون کا حصہ بن جایا کرتا تھا، دوسری طرف دین کے اعتبار سے الہامی کتب اقوام کے لئے دستور کا درجہ رکھتی تھی ۔ قرآن کریم کے نزول سے پہلے تک کی الہامی کتب میں تحریف نے ان کی حیثیت مشکوک کردی مگر قرآن وہ الہامی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا اور یہ تا قیامت اپنے اصل میں قائم و دائم رہے گی۔ الہامی کتب کے ماننے والوں کے لئے جغرافیائی حدود کی کوئی قید نہیں جبکہ انسانی ترتیب شدہ دساتیر اپنی جغرافیائی حدود اور قوم کی حد تک ہی نافذ العمل ہیں یا اس حدود میں داخل ہونے والے دیگر ممالک کی لوگوں کے لئے لازم ہے کہ وہ ان قوانین کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں وگرنہ اس ملک کو چھوڑ دیں۔ فی زمانہ تقریباً تمام ریاستیں، انتظامی امور اور عالمی تعلقات کے حوالے سے، تحریر شدہ دستور کی پیروی پر متفق ہیں جبکہ دینی اعتبار سے عوام الناس کو اختیار ہے کہ وہ جس دین، فرقے یا مسلک کو چاہیں اپنائیں اور اس کی پیروی کریں لیکن اس اختیار کے باوجود انہیں رائج قوانین کا احترام لازم ہو گا، جس میں سرفہرست مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ نفرت انگیز مواد سے پرہیز لازم ہے، کسی پر اپنے اعتقادات جبراً ٹھونسنا ممنوع، دوسرے کی آزادی رائے کا احترام، امن و امان سے کھلواڑ کی اجازت نہیں وغیرہ شامل ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ تاریخی اعتبار سے ، دنیا بھر کے دھتکارے ہوئے، سزا یافتہ یا مفروروں کی پناہ گاہ کے طور پر پہچانی جاتی رہی ہے تا وقتیکہ ان ہی میں سے چند مدبران نے بھان متی کے اس کنبے کو جغرافیائی طورپر اور سوچ کے اعتبار سے ایک قوم کی صورت اکٹھا نہیں کیا۔ سترہویں صدی کے آخر میں اس کا سہرا جارج واشنگٹن کے سر بندھا، جس کی کاوشوں سے امریکی نہ صرف جغرافیائی بلکہ سوچ کے اعتبار سے بھی ایک قوم میں ڈھل گئے اور انہیں ایک قوم بنانے میں ایک دستور نے اہم کردار ادا کیا جس کے صرف سات آرٹیکلز نے مختلف ریاستوں کے لوگوں کو ایک وفاق میں بدل کر رکھ دیا۔ جس کے بعد جہد مسلسل نے، اس آئین کی پاسداری اور احترام نے آج امریکہ کو عالمی برادری میں ایسا نمایاں مقام عطا کیا ہے کہ ساری دنیا اپنے اہم مسائل کے حل کے لئے امریکی رہنمائی کی طلب گار دکھائی دیتی ہے۔ عالمی سطح پر اس حیثیت کے پس منظر میں در حقیقت اس آئین کا جتنا کردار ہے اس سے کہیں زیادہ کردار اس کی تشریح کرنے والی سپریم کورٹ آف امریکہ کا ہے کہ جب سے یہ آئین بنا ہے ، سپریم کورٹ آف امریکہ نے کسی بھی موقع پر نہ تو اس کی غلط تشریح کی اور نہ ہی کسی حکمران کے سامنے جھکی، نہ کسی کے جارحانہ عزائم اسے ڈرا سکے اور نہ ہی کسی کی خواہشات کے سامنے سرنگوں ہوئی۔ آئین نے جو کردار سپریم کورٹ آف امریکہ کو تفویض کیا، سپریم کورٹ نے اس کی تعمیل میں کسی رکاوٹ کو آڑے نہ آنے دیا، جہاں بھی کسی شہری نے فریاد کی، ججز نے آئین کی روح کے مطابق فیصلہ صادر کیا، کسی حکمران کو نہ تو شہنشاہ بننے کی اجازت دی اور نہ ہی آمر مطلق کہ جو جی آئے قانون بنائے، جہاں دل چاہے اختیارات کا ناجائز استعمال کرے، جہاں ذاتی مفادات ہوں وہاں آئین میں ترامیم کر ڈالے یا شخصی مفادات کے تابع کوئی قانون تشکیل دے سکے۔ سپریم کورٹ آف امریکہ جدید دور میں عدالتی ریویو کی سب سے پہلی مثال ہے، جس نے عوامی حقوق کی نگہبانی کماحقہ کی، امریکی دستور باضابطہ طور پر 1787ء میں منظور ہوتا ہے اور 1803ء میں امریکی سپریم کورٹ میں ماربری بنام میڈیسن کا مقدمہ آتا ہے، جس میں نو منتخب صدر تھامس جیفرسن اور سیکرٹری آف سٹیٹ جیمس میڈیسن نے سابق صدر کے مقرر کردہ ولیم ماربری کو جسٹس آف پیس کا عہدہ دینے سے انکار کر دیا۔ ماربری اپنا مقدمہ سپریم کورٹ لے گیاجہاں جسٹس جان مارشل نے مختلف جہتی فیصلہ صادر کرتے ہوئے حکومتی زعمائ، کانگریس اور صدر کے ماورائے آئین اختیارات کو منسوخ کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ عدالتی ریویو کے دائرہ اختیار کو بھی واضح کر دیا جس کے مطابق کانگریس کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون جو بنیادی آئین سے متصادم ہو، عدالت اسے بیک جنبش قلم منسوخ کر سکتی ہے، جان مارشل کے اس دلیرانہ فیصلے نے آنے والے حکمرانوں کو شتر بے مہار رہنے کی بجائے، قانون کے دائرے اور عدالتوں کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا۔ اتنی اہم ترین پیشرفت یونہی ممکن نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے سب سے اہم بات ایک طرف ججز کی ساکھ بنی تو دوسری طرف حکمرانوں کا اعتماد کہ ان کے ماورائے آئین کئے گئے اقدامات کی منسوخی کسی ذاتی چپقلش کا شاخسانہ، قطعی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کلیتاً آئین و قانون کی حکمرانی ہے۔ امریکی تقریباً اڑھائی سو سال کی تاریخ میں ایسے مواقع کئی مرتبہ آئے جہاں ججز نے جان مارشل کی پیروی کرتے ہوئے، انتظامیہ کے انتظامی امور اور مقننہ کے ماورائے آئین قانون کو بیک جنبش قلم منسوخ کیا ہو، حال ہی میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایسی ہی سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے اپنے انتخابی منشور کے عین مطابق مسلم تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندی کا اعلان کیا، جسے ایک مجسٹریٹ سطح اور بعد ازاں سرکٹ کورٹ نے اپیل میں اڑا کر رکھ دیا، کہ ایسا کوئی بھی انتظامی حکم قابل عمل نہیں لہذا حکومت کو کوئی اختیار نہیں کہ ایسا کوئی حکم جاری کرے۔ اس کے نتیجے میں پورے امریکہ میں جو ہوا وہ ناقابل یقین ہے، مسلمانوں کے پڑوسی کتبے اٹھائے مسلمانوں کی رہائشوں کے سامنے آ کھڑے ہوئے کہ وہ امریکی ہیں اور امریکی آئین انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے، سڑکوں پر، ہوائی اڈوں پر، پارک میں حتی کہ وائٹ ہائوس کے باہر لان میں مسلمانوں نے با جماعت جہری نمازیں ادا کی اور ان کے محافظین کوئی اور نہیں خود غیر مسلم امریکی تھے۔ انسانی حقوق کی پامالی پر اتنا موثر مظاہرہ وہیں ممکن ہے، جہاں کے ادارے آزاد، عوام آزادی اظہار کا حق رکھنے والے، آئین و قانون کی حکمرانی اور زندہ معاشرے میں ہی ممکن ہے۔
یہاں دو آفاقی حقائق ثابت ہوتے ہیں، اولا ًنظام کفر تو چل سکتا ہے مگر نا انصافی کا نظام کبھی نہیں چل سکتا اور دوسرا اہم قول کہ جج نہیں بلکہ ان کے فیصلے بولتے ہیں، امریکہ یونہی سپر پاور نہیں بنا اس کے پیچھے اداروں کی سخت محنت و ریاضت شامل ہے، جس نے امریکی صدور، مقننہ یا انتظامیہ کو شتر بے مہار نہیں رہنے دیا، ان کے سر پر ہمہ وقت جوابدہی کی ایک ان دیکھی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ بہت سے بحرانوں سے گزر کر ابھی بھی میدان عمل میں اپنی ساکھ، اپنے وقار اور اپنے حقیقی فرائض کی انجام دہی کے لئے، اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے اور اس کا کریڈٹ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کو جاتا ہے، جو ججوں کی تقرری کے اپنے ہی فیصلے کی بھینٹ چڑھے، لیکن اب اس کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں ۔1996ء میں کیا جانے والا فیصلہ بتدریج ججز کو آئین میں دئیے گئے اختیارات کے مطابق انہیں نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ہونے کی جرات فراہم کر رہا ہے بلکہ انہیں مکمل طور پر آئین کے تحت رہتے ہوئے، انہیں صرف قانون کی تشریح پر مرکوز کئے ہوئے ہے اور اس ضمن میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ ججز اور عدالتوں کا در حقیقت یہی کام ہے کہ وہ سائلین کے سماجی، سیاسی، کاروباری رتبے کو ایک طرف رکھتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہوئے قانون کا بول بالا کریں، گزشتہ چند سالوں میں ججز نے انتہائی دلیرانہ فیصلے کئے ہیں جس میں انہوں نے براہ راست کسی بھی ادارے سے ٹکرانے کی بجائے چند مخصوص مقدمات میں ایگزیکٹو کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ خود کو قانون کے مطابق ڈھالیں، اپنے معاملات کو قانون کے تابع کریں وگرنہ عدالتیں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ عدالتوں کا یہ رویہ، درحقیقت معاشرے کی بتدریج اصلاح ہے جو واقعتاً انتہائی پر اثر ہے کہ ارباب اختیار نے ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ماورائے آئین و قانون اقدامات سے رجوع کیا، مراد یہ کہ ہمارے ارباب اختیار کو بھی بتدریج قانون کے سامنے جھکنا ہی پڑے گا کیونکہ یہ بھی ممکن نہیں ایک ہی رات میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے، البتہ اب ججز کی بجائے فیصلے بولنے لگے ہیں اور امید کی جانی چاہئے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
بدقسمتی سے موجودہ دور میں عدالتی فیصلوں میں عدالتی ریویو و نظائر سے رجوع نظر آ رہا ہے، جس کا جواز عدالت عظمی کے معزز جج صاجبان کی نظر میں پارلیمنٹ کو سپریم تصور کرنا ہے جبکہ معتد بہ قانونی ماہرین کی رائے اس سی مختلف ہے کہ آئینی جمہوریت /ریاست میں، سپریم آئین ہے، اور پارلیمنٹ کو اس کے تحت رہتے ہوئے قانون سازی کرنی چاہئے، اس سے باہر یا اس کے خلاف کسی بھی قسم کی قانون سازی غیر آئینی تصور ہو گی اور عدالت عظمی کو یہ اختیار ہے کہ ایسی کسی قانون سازی کو کالعدم قرار دے۔ جیورس پروڈنس کے مطابق کوئی بھی جرم فقط ’’ توبہ‘‘ سے ختم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کی سزا لازم ہے اور بالفرض اگر آئین یا کوئی دوسرا قانون جرم کی سزا کو واضح نہیں کرتا تو عدالت کا اختیار ہے کہ اس جرم کی سزا کا تعین کرے اور قرار واقعی سزا دے نہ کہ پارلیمنٹ کے ایسے اقدام /قانون کے سامنے سرنگوں ہو جائے، جو ایک فرد واحد کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہو۔ موجودہ فیصلوں میں ایک طرف تو عدالت عظمی کا موقف جمہوری آزادی سے منسلک ہے لیکن دوسری طرف ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک پر خاموشی، ظاہر کر رہی ہے کہ عدالت پسند و نا پسند یا دباؤ کا شکار ہے، یوں ایک بار پھر ہم دائروں کے سفر کا اسیر دکھائی دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button