Column

رائے ونڈ سے فون پر سب کچھ ٹھپ

سیدہ عنبرین
دنیا کے کئی ملکوں کی طرح جنوبی کوریا کے باسیوں کی مرغوب غذا کتے کا گوشت ہے، اس ڈش کو وہاں وہی حیثیت حاصل ہے جو ہمارے یہاں مٹن کڑاہی کو ہے، مٹن کو ہمارے یہاں چھوٹا گوشت کہا جاتاہے، اس تناظر میں دیکھیں تو کتے کا گوشت مزید جھوٹے گوشت میں شمار ہوتا ہے، کتے کے گوشت نے مٹن سے اس کا مرتبہ چھین لیا ہے۔ مٹن اگر بیف کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے تو آپ بڑائی چھوٹائی کے لحاظ سے اس کا نمبر درمیانہ ہوا۔ کتے کا گوشت گرم مرطوب موسم میں قوت برداشت بڑھانے کے حوالے سی خاص شہرت رکھتا ہے، اس میں کتنی حقیقت ہے، کتنا فسانہ ہے، کوئی تحقیق موجود نہیں، کوریا میں رہنے والے بزرگ شہری اس کے بغیر نہیں رہ سکتے، نوجوان نسل اسے پالتو جانور سمجھتی ہے، اس کی مرغوب غذا سور کا گوشت ہے، جیسے ہنٹر بیف سٹائل میں تیار کیا جاتاہے اور کافی یا شراب کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔
کوریا میں کتے کو کرنٹ لگا کر ہلاک کیا جاتا ہے یا پھر اسے پھانسی دے کر اس کے گوشت کو حسب ضرورت کھانے کیلئے پکایا جاتا ہے۔ جانوروں کی بہبود کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے اس طریقہ کار کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے اس پر عرصہ دراز سے تنقید اور احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، ان کا مطالبہ تھا کہ کتوں کو نسبتاً آسان موت دی جائے جو ان کا حق ہے یہ تنقید اور احتجاج اس قدر بڑھا کہ کوریا کی حکومت نے کتوں کو ہلاک کرنے، پکانے اور کھانے کے علاوہ کتوں کے گوشت کی تجارت پر پابندی لگا دی ہے۔ ان کی پارلیمنٹ نے اس حوالے سے بل منظور کر لیا ہے جبکہ اب کوریا کے بزرگ شہری اس حوالے سے احتجاج کی تیاریاں کر رہے ہیں کہ انہیں ان کی ایک پسندیدہ اور کئی دہائیوں سے موجود مرغوب غذا سے محروم کر دیا گیا جو جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
بلیوں کا سوپ تیار کرنے کے حوالے سے ایک مشہور ریسٹورنٹ کو بھی وارننگ کے ساتھ جرمانہ کیا گیا، بعد ازاں اسے بھی بند کر دیا گیا، اس پر الزام تھا کہ وہاں بلیوں کو ایک بڑے ٹپ میں ڈبو کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا، پھر ان کی کھال اتارنے کے بعد ان کے گوشت اور ہڈیوں سے سوپ تیار کرنے کے علاوہ ہمارے یہاں بونگ پائے سے ملتی جلتی ڈش تیار کی جاتی تھی، جبکہ اٹلی میں کتوں کے کھانے کیلئے پہلا ریسٹورنٹ کھولا گیا ہے، اس کا نام فیوٹو ہے، اس کے چیف شیف اولگا کراسٹیکو شیف بننے سے پہلے کتوں کے ٹرینر کے طور پر کام کرتے تھے۔ انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ ہم نے ایک ویٹرنری نیوٹریشسٹ کے ساتھ مل کر خصوصی مینو تیار کیا ہے، جس میں انرجی سے متعلق اجزاء شامل کیے گئے ہیں۔ اس ریسٹورنٹ میں ایک منفرد سہولت دی گئی ہے کہ مالکان اپنے محبوب کتے کو اس ریسٹورنٹ میں چھوڑ کر بالائی منزل پر انسانوں کیلئے موجود ریسٹورنٹ میں کھانے کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اٹلی کے کاروباری حضرات کئی معاملات میں پاکستانیوں سے ملتے جلتے ہیں، وہ منافع کی خاطر ہر وہ کام کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں جن کا مہذب دنیا میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا احتیاط پسند خواتین اور حضرات اس ریسٹورنٹ سے دور رہنا بہتر سمجھتے ہیں مبادا انہیں اور ان کے کتوں کو ایک ہی ترکیب سے تیار کردہ کھانے نہ پیش کر دیئے جائیں، بالکل اسی طرح جس طرح پاکستان اور پنجاب کے دل لاہور میں کھوتا کڑاہی کا ایک دور آیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے ان تمام بڑے شہروں تک یہ کاروبار پہنچ گیا جہاں لوگ مرغن کھانے پسند کرتے ہیں اور قوت خرید رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی عورتیں بطور فیشن گھر میں کھانا تیار کرنے کی بجائے رات کا کھانا گھر سے باہر کھانے پر ترجیح دیتی ہیں۔ پاکستان میں کرنسی کی قیمت کم ہونے سے مہنگائی کی ایک زبردست لہر ہے، جس نے کئی کاروبار بند کرا دئیے ہیں ، ان میں سے سب سے زیادہ جیولرز اور فرنیچر کے کام سے وابستہ لوگ شامل ہیں، برس ہا برس سے یہ کام کرنے والے خاندان اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کہ سونا خریدنے والا کوئی نہ رہا، یہی حال فرنیچر خریدنے والوں کا ہے۔ نیا فرنیچر خریدنا بھی اب عام آدمی کے بس سے باہر ہوا۔ اب پرانے فرنیچر کو وارنش کرانا اور گدوں کے کپڑے تبدیل کرا کے گزارا کیا جارہاہے۔
حیرت کی بات ہے جیولری اور فرنیچر کے کاروبار میں نقصان اٹھانے والوں نے کھانے کا کام شروع کیا ہے۔ انہوں نے معمولی سرمائے سے سی کلاس ہوٹل کھولے ہیں اور اپنے آبائی بزنس میں کئی برسوں میں کیا ہوا نقصان پہلے ہی سال پورا کر لیا ہے۔ ان خاندانوں کا خیال ہے کہ ان کے بزرگوں نے اپنے آبائی کاروبار سے چمٹے رہ کر وقت ہی ضائع کیا ہے۔ اصل کاروبار تو کھانے پکانے کاہے جس نے ان کی دلدر دھو ڈالے ہیں۔ آج تمام بڑے شہروں میں مرغ کڑاہی کا ریٹ پندرہ سو روپے فی کڑاہی ہے، ایک برس قبل یہ ریٹ ایک ہزار روپے تھا، جس میں ایک کلو چکن کے علاوہ پیاز، ٹماٹر و دیگر مصالحے ڈال کر اس کا وزن سوا کلو ہوا کرتا تھا۔ یہ حلال کچن ہوا کرتا تھا۔ اب پندرہ سو روپے میں ساڑھے سات سو گرام وزن کی کڑاہی ملتی ہے، جس میں استعمال ہونے والا چکن حلال نہیں ہوتا بلکہ اس میں مری ہوئی مرغیاں زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔ انہیں اس کاروبار کی زبان میں ٹھنڈی مرغی کہتے ہیں۔ جو زندہ مرغی کی نسبت ایک چوتھائی قیمت پر خریدی جاتی ہے۔ سو گرام کی روٹی، بیس روپے میں فروخت کرنے کا حکم ہے لیکن روٹی کے نام پر آپ کو پاپڑ ملے گا۔ جس کا وزن 75گرام اور قیمت 25روپے ہو گی۔ اب اس صورتحال میں آپ سوچ لیجئے کہ اس کاروبار میں تین سو گنا منافع کیسے ہوتا ہے۔ اور اس کاروبار سے وابستہ لوگ تھڑوں سے اٹھ کر ایئر کنڈیشنڈ دکانوں اور چند مرلوں کے گھروں سے اٹھ کر کئی کئی ایکڑ پر مشتمل فارم ہائوسز میں کیسے پہنچے ہیں۔ پاکستان کا ایک مشہور خاندان جس کی سیاست اور کاروبار کے بڑے چرچے ہیں، اس خاندان کے بچے تیرہ، چودہ برس کی عمر میں ارب پتی بنتے دیکھے گئے۔ یہ خاندان بھی کبھی پولٹری کاروبار سے منسلک تھا۔ لاہور میں خاص طور پر اور اس کے ملحقہ علاقوں میں انڈے اور مرغی کا ریٹ یہی لوگ دیا کرتے تھے۔ ان کے پولٹری فارم چند ایک نہیں درجنوں تھے اور ایکڑوں پر پھیلے ہوئے تھے، ہزاروں مرغیوں اور لاکھوں انڈوں کی کمائی ایک طرف جبکہ مردہ مرغی یعنی ٹھنڈی مرغی کی کمائی ایک طرف تھی۔
قوم کی قسمت مری ہوئی مرغی کی طرح ٹھنڈی ہے، اس کے نصیب میں صد کوشش کے باوجود حلال اور خالص خوراک نہیں، یہ کلچر پاکستان میں 1985ء کے بعد آیا اور کوبرا سانپ کے زہر کی طرح ہماری رگوں میں اتر گیا۔ جھوٹ مکر اور فریب کا نام سیاست رکھ دیا گیا اور ایک شخص دوسرے کے بارے میں وہ کچھ کہتا ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے، پھر وہ شخص اسی کے گن گاتا نظر آتا ہے۔ پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے وہ میرا سیاسی بیان تھا۔ سیاست میں آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔ یہ کہہ کر ساتھ اسلام کا تڑکا لگا دیا جاتا ہے کہ ہمیں اختلافات کرنے کا حکم دیا گیا۔ ہر دل عزیز محسن سپیڈ سیاست سے ملاوٹ تو ختم نہ کر سکے، خوراک سے ملاوٹ ختم کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کیلئے پہلے اپنے کان بند کرنے ہونگے، ورنہ وائے ونڈ سے آنے والے فون پر تجاوزات مہم کی طرح ملاوٹ کے خلاف مہم شروع ہونے سے قبل ختم کرنی پڑ جائے گی۔ کہا گیا یہ لوگ ہمارے ووٹرز، سپورٹر ہیں، ساتھ ہی سب کچھ ٹھپ ہو گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button