ColumnImtiaz Aasi

منصفانہ انتخابات کا انعقاد مشکوک ہو گیا

امتیاز عاصی
نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد اس بات کی قومی امید تھی انہیں جو واپس لایا گیا ہے تاحیات نااہلی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کسی سیاست دان کو محض اقامہ رکھنے اور اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں عمر بھر کے لئے سیاست سے آئوٹ کرنا قرین انصاف کے تقاضوں کے منافی تھا۔ اقامہ رکھنے اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے سے قومی خزانے یا کسی فرد واحد کو کوئی مالی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اس ناچیز کی رائے میں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کسی دبائو کا نتیجہ ہو سکتی ہے شائد اسی لئے دنیا کی جوڈیشری میں ہماری عدلیہ کا نمبر بہت نیچے ہے۔ اگرچہ وزارت عظمیٰ کے بلاول بھٹو بھی امیدوار ہیں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا یہ بیان وہ میاں صاحب کو کسی صورت میں وزیراعظم نہیں بننے دیں گے دونوں جماعتوں کے درمیان وزارت عظمیٰ کے لئے رسہ کشی کا امکان ہے۔ جہاں تک میاں صاحب کو انتخاب سے پہلے لیگی حلقوں کا وزارت عظمیٰ پر دیکھنے کی بات ہے وہ انتخابات سے قبل ہونے والے اقدامات سے کسی حد تک درست دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لئے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی یکسو تھے، دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف مقدمات کی حد تک مفاد مشترک تھا۔ چنانچہ جیسے ہی مقدمات ختم ہوئے دونوں جماعتوں نے اپنی پرانی روش اختیار کر لی۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ تک پہنچانے کے لئے بعض حلقوں کی حمایت سے ان کا منزل پر پہنچنا مشکل نہیں ہوگا۔ یہ علیحدہ بات ہے پی ٹی آئی کے حصے بخرے کرنے کے بعد نئی جماعتوں کے وجود میں آنے سے میاں صاحب کو خاصی سپورٹ ملے گی جیسا کہ باپ پارٹی جیسی نومولود جماعت نے عمران خان کی حمایت کی تھی ۔ نواز شریف اپنی انتخابی مہم کا آغاز مانسہرہ کے جلسہ سے کریں گے جہاں سے وہ قومی اسمبلی کے امیدوار بھی ہیں۔ یہ حلقہ ان کے داماد کیپٹن صفدر کے آبائی علاقہ ہے جہاں مسلم لیگ نون نے اپنے دور میں وہاں کے رہنے والوں کی توقعات سے زیادہ ترقیاتی کام کئے ہیں جس سے نواز شریف کی اس حلقے سے کامیابی یقینی ہے۔2024ء میں ہونے والے الیکشن سے قبل عجیب تماشا دیکھنے میں آیا ہے ریٹرننگ افسران نے بہت بڑی تعداد میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا جس سے الیکشن کا انعقاد مشکوک ہو گیا ہے۔ بھلاجن لوگوں نے پریس کانفرنس کرکے سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرکے اپنی جان بخشی کرا لی لیکن جن امیدواروں کے خلاف کوئی کیس نہیں تھا ان کے کاغذات پر غیر ضروری اعتراضات کا مقصد پی ٹی آئی کے امیدواروں الیکشن سے باہر رکھنا مقصود تھا۔ پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے اور الیکشن میں حصہ لینے والی جماعت کی فہرست سے با ہر رکھنے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے نگران حکومت اور الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر رکھنے کے معاملے پر یکسو ہیں۔ مسلم لیگ نون نے بلوچستان کے سوا کسی صوبے میں امیدواروں کا اعلان نہیں کیا ہے جو پی ایم ایل نون میں دھڑے بندی کا عکاس ہے۔ کے پی کے میں سابق وزیراعلیٰ اور نو ن لیگ کے اہم رہنما سردار مہتاب خان اور ان کے بعض ساتھیوں کا مسلم لیگ نون سے علیحدگی اختیار کرنا میاں صاحب کی جماعت میں دھڑے بندی پر مہر ثبت کرتا ہے۔ پنجاب کے بعض اضلاع میں اسی طرح کی صورت حال سے پی ایم ایل این شکار ہے ۔ راولپنڈی میں مسلم لیگ نون کئی دھڑوں میں منقسم ہو چکی ہے جن میں حنیف عباسی گروپ جسے میاں شہباز شریف کا قرب حاصل ہے جب کہ دوسرا دھڑا جس کے سربراہ سجاد خان ہیں وہ بھی قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں اور اپنی الیکشن کی مہم میں رواں دواں ہیں انہیں پارٹی قائد نواز شریف اور مریم نواز شریف کی حمایت حاصل ہے۔ جہاں تک حنیف عباسی کی بات ہے وہ پہلے قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں اور راولپنڈی شہر میں ترقیاتی کاموں میں بہت سرگرم رہے ہیں جس کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے۔ سجاد خان جن کے والد کئی مرتبہ کونسلر رہ چکے تھے گزشتہ الیکشن میں انہیں چند سو ووٹوں سے شکست سے دوچار ہونا پڑا اپنے حلقے میں خاصا اثرورسوخ رکھتے ہیں جس کی وجہ حلقے کے مکینوں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق ان کے آبائی علاقے حضرو ہے جس کی وجہ سے ان کاووٹ بنک خاصا مضبوط ہے۔ تعجب ہے مسلم لیگ نون کے رہنمائوں نے راولپنڈی جیسے بڑے شہر میں اپنی جماعت میں ہونے والی دھڑے بندی کو ختم کرنے کے لئے کوشش نہیں کی۔ گو مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے چند ماہ پہلے لیگی رہنمائوں کے اجلاس سے خطاب کرکے ان سے فردا فردا ملاقاتیں بھی کیں اس کے باوجود مسلم لیگ نون میں دھڑے بندی کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ پنجاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا وقت گزرنے کے ساتھ اس صوبے کے عوام بھٹو کی پارٹی سے دور ہوتے گئے جس کی جگہ مسلم لیگ نون نے لے لی۔ پنجاب جو کبھی مسلم لیگ نون کا قلعہ تصور کیا جا تا تھا ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی کامیابی نے مسلم لیگ نون کا پنجاب میں دھڑن تختہ کر دیا۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کا منصفانہ اور شفاف انعقاد کا اعلان کر چکے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے امیدواروں سے امتیازی سلوک سے الیکشن کا منصفانہ اور شفاف ہونا مشکوک ہو گیا ہے۔ حیرت ہے انتخابات کو ایک ماہ سے کم وقت رہ گیا ہے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں وہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آیا جو اس سے قبل الیکشن میں آیا کرتا تھا ۔ بعض جماعتوں کو الیکشن میں اپنی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے اور ان کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی کامیابی کے زیادہ امکانات نظر آ رہے ہیں یہی وجہ ہے پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لئے نئے نئے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ملک کی مقبول ترین جماعت کو بلے کے نشان اور انتخابی عمل سے باہر رکھنے سے انتخابات کا انعقاد کو مشکوک ہونا یقینی بات ہے جس سے ہمارا ملک ایک مرتبہ پھر سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button