Ali HassanColumn

سیاسی جماعتوں کی غیر فعالیت اور جمہوریت

علی حسن
پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے سندھ میں اس کے امیدواروں کی فہرست جاری کر دی ہے۔ تمام امیدوار جنہوں نے با امید ٹکٹ اپنے کاغذات نامزدگی داخل کئے تھے انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ پارٹی نے جن امیدواروں کے نام فائنل کئے ہیں، ان کے علاوہ باقی افراد اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیں۔ پارٹی نے جو امیدوار نامزد کئے ہیں، ایک یا دو فیصد کے علاوہ تمام افراد دہرائے جارہے ہیں۔ پارٹی نے ان افراد کی بڑی اکثیریت کو ٹکٹ ’’ عنایت ‘‘ کیا ہے جو 2008ء سے ٹکٹ حاصل کرتے چلے آرہے ہیں۔ پارٹی کی قیادت آزمودہ افراد کو ٹکٹ ’’ عنایت‘‘ کر کے اپنے آپ کو طرح سے فارغ تصور کرتی ہے۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ٹکٹ دینے تک کی ذمہ داری ان کی ہے اور باقی ذمہ داری امیدوار کی ہوتی ہے۔ باقی ذمہ داری میں ووٹروں کو ان کے گائوں سے پولنگ سٹیشن تک لانا، ان کے شناختی کارڈ اپنی تحویل میں لے کر ووٹنگ کے بعد کچھ رقم دے کر کارڈ واپس کرنا، دوران پولنگ انہیں کھانے کے لئے ایک چھوٹی تھیلی میں نام نہاد بریانی دینا وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد منتخب نمائندہ پانچ سال کے لئے اپنے ووٹر کو چہرہ دکھانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ طریقہ کار جسے سیاسی جماعتیں جمہوریت قرار دیتی ہیں۔ یہ نو دولتیوں کی متعارف کرائی ہوئی جمہوریت ہے۔ اس جمہوریت کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو عام افراد کی حمایت ہی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ عام لوگوں کو اس بات سے دلچسپی ہی نہیں ہوتی کہ کو ن آئے گا، کون جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کے بند دروازوں کی وجہ سے ہی عام لوگ سیاست سے متنفر ہوگئے ہیں جو ان کی سیاست میں عدم دلچسپی کی وجہ بھی ہے۔ ان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ہی قیادتوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے۔ کارپوریٹ دنیا میں جس انداز میں حصص ایک خاص گروہ کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ حکومت کیوں اربوں روپے انتخابات کے نام پر خرچ کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو فراہم کرتی ہے۔ کیوں نہیں سیاسی جماعتوں کو ان کی ماضی کی مقبولیت ، جیسی بھی ہو، اور حاصل کردی ووٹوں کی بنیاد پر نشستیں مختص کر دی جایا کریں۔ اربوں روپے محفوظ کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کا جانا چاہئے۔ الیکشن کے اخراجات سے بچائی گئی رقم تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خرچ کر جائے تاکہ عام لوگوں کو بھلا ہو سکے۔
پیپلز پارٹی نے1970ء سے پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے سید قائم علی شاہ کو بھی ان کی پیرانہ سالی کے باوجود ٹکٹ عنایت کیا ہے۔ شاہ صاحب وفاقی وزیر اور تین بار وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ پارٹی کو کبھی بھی نہیں دیکھا گیا کہ ان کے فراست سے کوئی فائدہ حاصل کیا گیا ہو۔ ویسے بھی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتیں سمجھتی ہیں کہ فراست ، عقلمندی ، دور اندیشی وغیرہ کے معاملہ میں وہ خود کفیل ہیں۔ ان کی صاحبزادی نفیسہ شاہ بھی پارٹی ٹکٹ کی اہل ٹھہریں۔ سانگھڑ سے شازیہ مری ایک بار پھر ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ سکھر سے سید خورشید شاہ اور دیگر رشتہ دار دوبارہ اہل تصور کئے گئے ہیں۔ خیرپور میں منظور وسان اور نواب وسان ٹکٹ کے اہل قرار نہیں پائے ہیں بلکہ منظور کے بیٹے بیرسٹر ہالار کو صوبائی اسمبلی کا ایک ٹکٹ دیا گیا ہے۔ رہ گئے نواب وسان تو اپنا احتجاجا ریکارڈ کرانے کے بعد وہ اب پارٹی کو یقین دلا رہے ہیں کہ ٹکٹ ملے یا نہیں ملے وہ آصف زرداری، بلاول زرداری اور فریال تالپور کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور متبادل راستہ بھی نہیں ہے۔ گزشتہ بارشوں کے بعد خیر پور شہر اور ضلع ان علاقوں میں شامل تھے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے ۔ ابھی تک بہت سارے دیہاتی علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تمام منتخب نمائندے غائب تھے اس کے باوجود پارٹی نے سابق اراکین کو ہی ٹکٹ ’’ عنایت‘‘ کئے ہیں۔ منظور اور نواب وسان کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ٹکٹ سے محروم ہو گئے۔
ٹکٹ سے محروم ہونے والوں میں سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ سے منتخب ہونے والے سکندر راہوپوٹو ٹکٹ سے محروم کر دئیے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلقہ میں مراد علی شاہ کے ساتھ تعلقات کے سبب وزیر اعلیٰ کی طرح حکمرانی کی تھی۔ تمام ہی ٹکٹ پانے والے لوگ علاقوں میں اپنے پیسوں کی بنیاد پر اثر رکھنے کی وجہ سے کامیابی کے امکانات واضح ہیں۔ بظاہر ان امیدواروں کی ناکامی کی وجہ نظر نہیں آتی ہے۔ انتخابی میدان میں تمام مخالف سیاسی عناصر کے پاس مضبوط امیدوار نظر ہی نہیں آتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈے اے) اپنے دعوئوں کے باوجود ابھی تک سرگرم نہیں ہو سکی ہے۔ اسے کسی حد تک لاڑکانہ سے جمعیت علماء اسلام کے راشد محمود سومرو نے کسی حد تک سر گرم رکھا ہوا ہے۔ سومرو سے بظاہر مقابلہ کی صورت میں بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانہ اور پڑوس کی نشست قمبر والی سیٹ سے کاغذات نامزدگی دا خل کئے ہیں۔ آصف علی زرداری ضلع نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے لئے امیدوار ہیں۔ ایک پھوپھی عذرا بے نظیر آباد سے اور دوسری پھوپھی فریال تالپور لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی میں امیدوار نامزد کی گئی ہیں۔ ہالہ کے مخدوم جمیل الزمان اور ان کے بیٹوں پر موٹر وے کی تعمیر میں سرکاری رقم کی خرد برد کے الزام کے باوجود ٹکٹ دئیے گئے ہیں۔ پارٹی مخدوموں سے خوف زدہ رہتی ہے کہ مخدوموں کی مخالفت اسے مہنگی نہ پڑے جائے۔ شکار پور میں جی ڈی اے کے غوث بخش مہر نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کر لی تھی۔ پارٹی نے ان کے ایک بیٹے شہر یار کو ٹکٹ دیا ہے۔ شہر یار گزشتہ اسمبلی میں پارٹی مخالف رکن تھے او ر پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے۔ دوسرے بیٹے عارف جو شکار پور کے ضلع ناظم بھی رہ چکے ہیں، انہیں بھی امیدوار نامزد کر دیا گیا ہے۔ غوث بخش عملا انتخابی سیاست ست دست بردار ہو گئے ہیں۔ جی ڈی اے کو گھوٹکی کے علی گوہر خان مہر کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کی وجہ سے بھی نقصان پہنچا ہے۔ یہ الیکشن جی ڈے اے کو اس لحاظ سے بھی مشکل پڑے گا کہ کئی اضلاع میں اس کے پاس اثر رکھنے والے امیدوار نہیں ہوں گے اور اثر نہ رکھنے والے افراد انتخابات میں حصہ لینے کی فراست ہی نہیں دکھا سکیں گے۔ کیوں کہ ان کے پاس اگر پیسے کی کمی ہے تو انہیں ایسے ساتھیوں کی قلت کا بھی سامنا ہے جو انتخابات میں امیدوار کے دست و بازو ہوتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا کردار معدوم ہوگیا ہے۔ جس کا شکار پیپلز پارٹی، ن لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، وغیرہ ہیں۔ تحریک انصاف مستثنیٰ نہیں ہے۔ عمران خان وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ طویل عرصہ سے عملی سیاست کا حصہ ہیں لیکن انہیں نے بھی اپنی پارٹی کو کسی حد تک بھی منظم نہیں کیا۔ انہیں جو حمایت حاصل ہے وہ حادثاتی ہے اور اس حادثہ کی وجہ مخصوص سیاسی رہنمائوں کی اجارہ داری ہے اور اس معاملہ میں بھی سیاسی جماعتوں کا غیر منظم ہونا اور غیر موثر ہونا شامل ہے۔ عملا وہ غیر فعال سیاسی جماعتیں ہیں۔ جمہوریت کا گیت تو سب ہی گاتے ہیں لیکن جمہوریت دور دور تک نہیں ہے۔ کو ن سی سیاسی جماعت ہے جس کا لوگوں سے کسی صورت میں بھی رابطہ ہوتا ہو۔ سیاسی جماعتیں کوشش ہی نہیں کرتی ہیں۔ لوگوں کے ساتھ فکری نشستوں کو رواج ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ شہری علاقوں میں کام کرنے والے سیاست دان ہوں یا دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنما ہوں، سب متفق ہیں کہ عوام بھیڑ بکری کی طرح انہیں دیکھ کر ان کی طرف لپکیں گے اور وہ منتخب ہو جائیں گے۔ اس سوچ میں انتخابی نتائج میں انجینئرنگ کا بھی عمل دخل ہے۔ اس تمام صورتحال میں البتہ جماعت اسلامی بڑی حد تک منظم ہے، اسے سمجھدار کارکنوں کی سہولت حاصل ہے لیکن عوام میں مقبولیت اور پزیرائی حاصل نہیں ہے۔ جماعت نے کراچی میں اپنے مقبول لیڈروں کو امیدوار بنایا ہے۔ کراچی میں اس کے انتہائی فعال رہنما نعیم الرحمان قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے امید وار نامزد ہوئے ہیں۔ ان کی کامیابی دونوں حلقوں سے ممکنات میں شامل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button