ColumnHabib Ullah Qamar

ترقیوں و تمغوں کیلئے بے گناہ کشمیریوں کا قتل

حبیب اللہ قمر
بھارتی فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں کشمیری نوجوانوں کو فرضی جھڑپوں میں شہید کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں شوپیاں میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کیا گیا ہے جبکہ رواں ایک ہفتے کے دوران متعدد کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کر دیا گیا ہے۔ بھارت کی انتہاپسند مودی حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے نہتے کشمیریوں کے قتل عام میں بہت زیادہ شدت پیدا کر رکھی ہے۔ آئے دن نام نہاد سرچ آپریشن کے ذریعے کشمیریوں کا خون بہایا جارہا اور ان کی املاک برباد کی جارہی ہیں۔ ہندوستانی فوج بی جے پی حکومت کی شہ پر اسرائیلی طرز کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کی جائیدادوں سے بے دخل کر رہی ہے اور ہندوستانی بدنام زمانہ ایجنسی این آئی اے کو استعمال کرتے ہوئے حریت کانفرنس سے وابستہ تنظیموں کے قائدین اور سرگرم کارکنان کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے۔ بھارتی فوج جب اور جہاں چاہتی ہے تحریک آزادی میں حصہ لینے والے نوجوانوں کے گھروں کو سربمہر کر دیتی ہے اور اہل خانہ کو زبردستی بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جن میں لوگوں کو یہ کہہ کر ان کے گھروں سے نکال دیا گیا کہ ان کے بیٹے بھارتی فوج کے خلاف پتھرائو اور تحریک آزادی کے سلسلہ میں دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ بھارتی فوج کی جانب سے اسرائیلی طرز کے نئے اختیار کردہ حربوں پر کشمیریوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور انہوں نے اس پر مودی حکومت اور فوج کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔ ایک طرف کشمیریوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جارہا ہے تو دوسری جانب ایک مرتبہ پھر محض ترقیاں و تمغے حاصل کرنے کیلئے نہتے کشمیریوں کا قتل بڑھ گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں فرضی جھڑپوں میں نوجوانوں کا قتل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوستانی فوج کے سابق آرمی چیف جنرل ( ر) بکرم سنگھ سمیت کئی اعلیٰ افسران نے ایسے ہی جرائم کا ارتکاب کر کے ترقیاں و تمغے حاصل کیے اور ان کے خلاف باقاعدہ اس نوعیت کے سنگین الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ جب بھی بے گناہ کشمیریوں کے قتل کا معاملہ میڈیا میں تھوڑا زیادہ ہائی لائٹ ہو جاتا ہے تو بھارتی حکومت اور عسکری قیادت کی جانب سے فوری ملوث درندوںکے خلاف کاروائی کے احکامات جاری کر دئیے جاتے ہیں مگر آج تک کسی ہندوستانی فوجی کوسزا نہیں دی گئی بلکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ کشمیریوں کے قتل میں ملوث ہندوستانی فوجی افسروں اور اہلکاروں کو ہمیشہ اعلیٰ عہدوں پر ترقیاں ہی دی جاتی رہی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں 1990ء کی دہائی سے آج تک بیسیوں ایسے واقعات ہیں جن کی تحقیقات کیلئے کمیٹیاں بنائی گئیں مگر کچھ دیر بعد یہ فائلیں بند کر دی جاتی ہیں اور پھر بعد میں کوئی بھارتی ظلم و دہشت گردی کے خلاف بات کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوتا۔ بھارتی فوج کی بے نتیجہ تحقیقات کی لمبی فہرستیں ہیں جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ 2000ء میں اسلام آباد ( اننت ناگ) کے علاقہ میں پتھری بل کا سانحہ بہت مشہور ہوا جس میں بھارتی اہلکاروں نے ترقی اور انعام کے لالچ میں پانچ عام کشمیری شہریوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد پوری کشمیری قوم نے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے اور احتجاجی تحریک چلی جس کے نتیجہ میں ہندوستانی سپریم کورٹ نے بھارتی فوجیوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کورٹ مارشل کی انکوائری کے احکامات جاری کئے مگر یہ سب بھی کشمیری قوم کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے تھا لہٰذا یہی ہوا کہ سانحہ پتھری بل سمیت دیگر جعلی ان کائونٹرز میں ملوث کسی ایک بھارتی فوجی کو بھی ہلکی سے ہلکی سزا نہیں دی گئی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی فوجی قیادت کی طرف سے سنگین جرائم میں ملوث ہندوستانی فوجیوں کے خلاف انکوائری اور جرم تسلیم کرنے کی بات محض دنیا کو دھوکہ دینے اور بین الاقوامی سطح پر بھارتی فوج کی ساکھ بہتر بنانے کیلئے کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ ایک سال میں 300سو سے زائد ایسے کشمیری نوجوان ہیں جنہیں بھارتی فوجی اہلکاروں کی جانب سے ترقیاں ، تمغے اور انعام حاصل کرنے کیلئے جعلی جھڑپوں میں شہید کیا گیا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی راجوری سے تعلق رکھنے والے تین کشمیری نوجوان جو آپس میں قریبی رشتہ دار تھے، انہیں جعلی جھڑپ میں شہید کرنے کے معاملہ کو بہت زیادہ شہرت ملی ۔
بھارتی فوجیوں نے شوپیاں کے علاقہ میں تینوں نوجوانوں کو بلاوجہ گولیاں مار کر شہید کیا اور دعویٰ کیا گیا کہ انہوںنے کشمیری مجاہدین سے ہونے والی ایک زبردست جھڑپ میں مذکورہ نوجوانوں کو شہید کیا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ اس لئے تھا کہ دوسرے فوجیوں کی طرح انہیں بھی اس ’’ کامیاب‘‘ کاروائی پر ترقیاں اور انعام ملیں گے مگر مقامی لوگوںنے سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی درندگی کا پول کھول دیا۔ جب عام کشمیریوں کو شہید کرنے سے متعلق معلومات دنیا تک پہنچیں اور بھارتی فوجیوں کی دہشت گردی کا پول کھلا تو ہندوستانی فوجی قیادت نے واقعہ کی تحقیقات کا اعلان کر دیا۔ شوپیاں میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کے بعد ہزاروں کشمیریوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جس پر ہندوستانی فوج کے ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ شوپیاں میں پیش آنے والے واقعہ کی تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں جس سے بادی النظر میں کچھ ثبوت سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپریشن کے دوران ہندوستانی فوج کو افسپا 1990ء کے تحت حاصل اختیارات کا حد سے زیادہ استعمال ہوا ہے لہٰذا مجاز انضباطی اتھارٹی نے بادی النظر میں جوابدہ پائے جانے و الے اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کاروائی شروع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بھارتی فوجی ترجمان کا یہ بیان اس امر کا کھلا اعتراف تھا کہ ہندوستانی فوجی افسران اور اہلکار ترقیاں و تمغے حاصل کرنے کیلئے بے گناہ کشمیریوں کا قتل کرتے ہیں اور پھر کشمیری مجاہدین سے جھڑپوں کا دعویٰ کر کے ان کی لاشیں نامعلوم مقام پر دفن کر دی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ خدشہ بھی درست ہے کہ اب تک دس ہزار سے زائد لاپتہ ہونے والے کشمیری نوجوانوں کو یونہی شہید کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کیا جاتا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کے قتل کی حالیہ وارداتوں کے بعد کشمیریوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا ہے اور ان کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث درندوں کو فی الفور گرفتار کرکے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے تاکہ آئندہ سے فرضی جھڑپوں کا یہ سلسلہ رک سکے مگر ایسا نہ پہلے کبھی ہوا ہے اور نہ اب ہو گا۔ بھارتی وزیرداخلہ کے دورہ کشمیر کے بعد فرضی جھڑپوں کا سلسلہ اچانک تیز ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا ہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے بھارتی فوج کی درندگی کے خلاف آواز بلند کرنا اچھی بات ہے ، تاہم حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہندوستانی فوجی جرائم کو اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر بے نقاب کرے تاکہ کشمیریوں کو غاصب بھارت سے نجات دلانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button