CM RizwanColumn

نظام چلنے چلانے کی بات کی جائے

سی ایم رضوان
کھلونے بالآخر ٹوٹ جاتے ہیں۔ لو جی کھلونا ٹوٹ گیا۔ اب وہ خود رو پڑا ہے۔ کبھی یہ کہتا تھا میں ان کو رلائوں گا لیکن کھلونا جو تھا جو ٹیپ اس میں نصب کی گئی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی میں ان کو رلائوں گا۔ یہ خود تو بے چارا کھلونا تھا۔ لیکن اس کھلونے کو کچھ لوگ اصلی سمجھ بیٹھے تھے اور اس کے پیچھے لگ کر اپنے ہی ملک کی سلامتی اور استحکام سے کھیلنا شروع کر دیا تھا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا آج کل سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ یہ بن گیا ہے کہ بدقسمتی سے اس ملک کی سیاست کو انتشار، نظام کے خلاف مجرمانہ سوچ اور اس سوچ کے تحت انتہائی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے قوم کا سکون اور اطمینان غارت کیا جا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ نظام کے خلاف ان مجرمانہ کاوشوں کو انقلاب اور حقیقی عصری سیاست قرار دے کر بعض شاطر لوگوں نے پچھلے چند سالوں سے نوجوان نسل کو استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے۔ حالانکہ خود ان کا انقلاب صرف اتنا سا ہے کہ نظام ان کو پھر سے گود میں اٹھا کر پیار کرنا شروع کر دے اور ان کو پچکارتے ہوئے ان کے منہ میں اقتدار کا وہ ہی فیڈر پھر سے ڈال دے جو کہ سابقہ چند ایک فوجی افسروں نے ان کے منہ میں ڈالا ہوا تھا۔ جس کا نتیجہ آج ان کے سمیت سارا ملک اور خود نظام بھگت رہا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اب بھی ان جھوٹے اور سطحی قسم کے انقلابیوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا کوئی بھی فیڈر اب نظام ان کے منہ میں ڈالنے کی نہ تو پوزیشن میں ہے نہ ہی اس کا آئندہ سالوں میں ایسا کچھ کرنے کا ارادہ ہے بلکہ اب تو نظام اور ان انقلابیوں کے مابین ایک طویل اور ان انقلابیوں کی سمجھ میں نہ آنے والی خلیج اس طرح سے حائل ہو چکی ہے جو کہ کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکتی نظام نے اپنے چلائو کے لئے معقول اور منطقی راستے پھر سے متعین اور اختیار کر لئے ہیں اور باوجود مشکلات کے انہی راستوں پر چلنے کو ترجیح دی جا رہی ہے اور آئندہ بھی دی جائے گی۔
پچھلے سالوں میں مجرمانہ طور پر جو سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کچھ ان چاہے اور غیر متعلقہ عناصر بھی نظام میں مداخلت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بڑی قباحت یہ پیدا ہو گئی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رویہ رواج پا چکا ہے حالانکہ سبھی نے اسی نظام میں رہ کر کام کرنا اور اپنا اپنا وجود برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ گو کہ نظام اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہونے کی بناء پر ان سب کو کام کرنے اور اپنا اپنا وجود برقرار رکھنے کا موقع، وقت اور ممکنہ سہولیات بھی فراہم کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی انتشار خود نظام کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے درپے ہے۔ یہ بھی اکثر کہا جاتا ہے کہ ہماری سیاست تاحال ایک ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے اور اس بات کا برملا اظہار بھی کیا جاتا ہے کہ ہم جمہوریت میں سیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ بعض سیاسی نابالغ اس صورت حال میں بہتری پیدا کرنے اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے مزید انتشار اور پہلے سے زیادہ سیاسی بگاڑ پیدا کرنے کا نہ صرف سبب بن رہے ہیں بلکہ اس کے لئے مربوط کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک طرف تو ملک میں جمہوریت کی حقیقی منزل قدم بہ قدم دور ہوتی جا رہی ہے اور دوسری طرف انتشار متعدد خطرات اور نقصانات کا باعث بن رہا ہے۔ مستقل بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہ صورت حال پچھلے پچھتر سالوں میں کسی نہ کسی صورت میں ہر دور جاری رہی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ اب تو انتہا یہ ہو گئی ہے کہ عام آدمی بھوک اور عدم تحفظ کا سنگین حد تک شکار ہو چکا ہے۔ اب انتہا یہ ہو گئی ہے کہ اگر آج ملک کا اکثریت پر مبنی غریب طبقہ بغیر کسی سیاسی قیادت کے سڑکوں پر نکل آئے تو نہ صرف وہ سسٹم کے لئے خطرہ بن جائے گا بلکہ اس کے پاس سسٹم کے لئے خطرہ بننے کا جواز بھی موجود ہے کیونکہ اس کی زندگی عملی طور پر اجیرن ہو چکی ہے۔ یہ صورت حال گو کہ انتہائی گھمبیر ہے مگر موجود ہے اور سسٹم کے فیوض و برکات سمیٹنے والے طبقات کو ہوش نہیں آ رہی۔
گو کہ ہمارے سیاسی منظر نامہ میں ازل سے ہی سیاسی مہم جوئی چلتی رہی ہے۔ ہر دور میں دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جب دوسری جماعت کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اور اس کے مقابلے میں اپنی سیاسی مہم جوئی سے حکومت کو گرانے، کمزور کرنے یا ختم کرنے کی سیاست کرتی ہے تو ملک عمومی طور پر بڑے سیاسی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں کوئی بھی ایک سیاسی جماعت صورتحال کی ذمہ دار نہیں ہوتی بلکہ مجموعی طور پر تمام سیاسی جماعتیں جو حکومت میں ہوتی ہیں یا حزب اختلاف کی سیاست کا حصہ ہوتی ہیں۔ ان کا کردار جمہوری کم اور غیر جمہوری و غیر آئینی زیادہ ہوتا ہے۔ سیاست میں مہم جوئی کوئی بری چیز نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ اگر اس کے پیچھے حقیقی سیاسی اور جمہوری نظام کے قیام کی خالص نیت اور پروگرام موجود ہو اور ملک کو جمہوری اصولوں کے مطابق قانون کی حکمرانی کے تابع کرنا مقصود ہو لیکن اگر اس کے برعکس سیاسی مہم جوئی کا مقصد محض جمہوری و سیاسی نظام کی بہتری کی بجائے ذاتی اور گروہی ترجیحات اور اقتدار کا حصول ہی نصب العین ہو تو اس قبیح فعل کا نتیجہ بدحالی پیدا کرنے اور تباہی لانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ کوئی کوئی مفروضہ یا ان دیکھا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ نتیجہ آج ہم من حیث القوم بھگت رہے ہیں۔ اس نتیجے کی ذمہ دار ملکی سیاسی جماعتیں اگرچہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ہم جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن جو رویہ اور طرز عمل ان سیاست کا رہا ہے اس میں جمہوریت کو محض ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ لوگ سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کی بجائے اسے اپنی مرضی اور خواہشات پر مبنی نظام کے تابع لانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے غیر قانونی اور غیر جمہوری طریقے بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض سیاسی قوتوں کی سیاسی مہم جوئی کا فوری نتیجہ ان کے حق میں بھی نکلتا رہا ہے اور وہ سیاسی نظام کی بساط کو لپیٹ کر اسے اپنی سیاسی کامیابی بھی قرار دیتے اور سمجھتے رہے ہیں۔ مگر عملی طور پر مستقبل کی سیاست کے تناظر میں وہ حقیقی جمہوری عمل کو کمزور کرنے اور غیر جمہوری قوتوں کو اور زیادہ مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرتے رہے ہیں۔
اس وقت بھی پاکستانی سیاست ایک بڑی ناکامی سے دوچار ہے۔ ٹھیک ایک ماہ بعد ملک میں جنرل الیکشن منعقد ہونا ہے۔ مگر تمام سیاسی جماعتیں اپنے ہی اعمال کی بناء پر سیاسی اور انتخابی مہم میں آنے سے اس طرح گھبرا رہی ہیں جس طرح ان کو الیکشن سے پہلے ہی اپنی شکست کا یقین ہو۔ عوام سمیت یہ کسی بھی سٹیک ہولڈر کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں۔ ان کے اپنے اندر اس قدر انتشار ہے کہ خود ان کے اصول پسند ممبران ان سے باغی ہو چکے ہیں جبکہ الیکٹبلز ان پر چڑھائی کر چکے ہیں۔ ایک طرف ایک جماعت ریاست سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکی ہے تو دوسری تجربہ کار جماعت ناتجربہ کار قیادت کی وجہ سے اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو رہی ہے۔ ان حالات میں صرف ایک جماعت رہ گئی ہے جو اخلاقی اور سیاسی طور پر مناسب انتخابی مہم چلا سکتی ہے مگر وہ بھی فی الحال اپنے اندرونی معاملات میں الجھی ہوئی ہے مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے سابقہ سیاسی کردار کے باعث وہ کامیابی کے راستے پر ہے۔ جہاں تک ان انتخابات کی نوعیت کا تعلق ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ انتخابات قبولیت اور مقبولیت کے مابین مقابلے کے حامل انتخابات ہیں۔ جو سیاسی طاقتیں غلطی سے مقبول ہیں وہ نظام کے لئے مضرت رساں ہیں اور جو سیاسی طاقتیں نظام کی چلنے میں معاون ہو سکتی ہیں وہ کسی حد تک مقبولیت میں پیچھے ہیں۔ شاید اس سے قبل بھی ملکی سیاست کو اس طرح کی صورتحال کا سامنا رہا ہو مگر اس وقت کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس بار قوم کو اور ووٹرز کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی پوزیشن میں کون سی سیاسی طاقت ہے اور مزید بحران سے دوچار کرنے جیسی حماقت کرنے کا اندیشہ کس سیاسی طاقت کی جانب سے ہے۔ نظام کے چلانے کی بات کرتے ہوئے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی اب اشد ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button