CM RizwanColumn

14ووٹوں کا انتخابات پر حملہ

سی ایم رضوان
سینیٹ آف پاکستان میں ملک میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد کثرتِ رائے سے دو مرتبہ منظور کیے جانے کے باوجود بڑی سیاسی جماعتیں اس مطالبے سے دُوری اختیار کر رہی ہیں اور ظاہراً اب تک کسی بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے اس قرارداد کو حمایت حاصل نہ ہو سکی ہے۔ مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف بڑی شدومد سے نہ صرف انتخابات کے التوا کے اس مطالبے کی مخالفت کر رہی ہیں بلکہ ان تینوں جماعتوں نے اپنے ان ارکان کو شوکاز نوٹس بھجوا دیئے ہیں جن ارکان کی موجودگی میں سینیٹ میں اس قرارداد کو منظور کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ قرارداد ایسے وقت میں منظور ہوئی جب 104ارکان پر مشتمل ایوان یعنی سینیٹ میں صرف 14ارکان موجود تھے۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ اس قرارداد کے پیش کئے جانے کے پندرہ منٹ پہلے تک کوئی آثار نہیں تھے کہ یہ قرار داد پیش کی جا سکتی ہے۔ یہ کسی ایجنڈے میں بھی شامل نہیں تھی اور کسی کو اطلاع بھی نہیں تھی کہ ایسا کچھ کرنے کا کسی جماعت یا سینیٹ کا ارادہ ہے۔ واضح رہے کہ اس قرارداد کے پیش کرنے میں ایک آزاد رکن دلاور خان کا مرکزی کردار ہے جو کہ سینیٹ کے ممبر منتخب ہونے سے پہلے کسٹمز میں آفیسر تھے اور مبینہ طور پر بڑے گھپلوں میں ملوث بتائے جاتے تھے پھر ان کی ہونہاریاں دیکھ کر کسی نے انہیں سیاست میں آ کر انہی ڈالنے کا مشورہ دیا اور وہ آزاد فاٹا رکن کی حیثیت سے سینیٹ ممبر منتخب ہو گئی۔ پھر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور موجودہ چیئرمین سینیٹ کو اس وقت ووٹ دینے والوں میں شامل تھے جب انہیں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی دونوں اور آزاد ارکان نے ووٹ دے کر انوکھے طریقے سے چیئرمین سینیٹ منتخب کروا دیا تھا۔ تب پارٹی مفادات اور ہدایات سے ہٹ کر ووٹ دینے کو ضمیر کے بیدار ہونے کا واویلا بھی کیا گیا تھا۔ یعنی یہ دلاور خان موصوف انہی ضمیر بیدار ارکان سینیٹ میں شامل تھے۔ شنید ہے کہ پچھلے دنوں ایک شادی کی تقریب میں ملک کے واحد مرد حر آصف زرداری نے موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو اسی جانب اشارہ کرتی ہوئے کہا تھا کہ اب تو فیض بھی جاری نہیں اب کیا ہوگا آپ کا تو موصوف چیئرمین سینیٹ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا کہ آپ کا فیض تو جاری ہے ناں۔ پھر کچھ ایسا ہی ہوا اور چند روز قبل سینیٹ میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف قانون لانے کی قرارداد منظور کروانے والے پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی کی موجودگی میں گزشتہ جمعہ والے روز بھی یہ قرارداد منظور کی گئی کہ چونکہ ملک میں سردی، دہشت گردی اور حالات کی سنگینی کی بناء پر مختلف سیاسی زعماء کے لئے خطرات زیادہ ہیں اس لئے جو انتخابات آٹھ فروری کو ہونا ہیں ان کو فوری طور پر ملتوی کر کے کسی اگلی تاریخ کو کروایا جائے۔ یہ قرارداد دو مرتبہ منظور کروائی گئی۔ کل چودہ ارکان سینیٹ اس وقت ہاس میں موجود تھے۔ پندرہویں خود چیئرمین سینیٹ تھے۔ کسی ایک رکن نے بھی کورم پورا نہ ہونے اور ایجنڈے پر اس قرارداد کے موجود نہ ہونے کی نشاندہی نہ کی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ارکان اس میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے جبکہ باقی بظاہر بے دلی مگر حقیقتاً خاموشی کے ساتھ سارا کچھ ہونے دینے کی پوزیشن میں نظر آ رہے تھے کہ جب یہ قرارداد پاس ہو جائے گی تو پیش آمدہ حالات کے مطابق ہاں یا ناں کر کے وقت تو نکال ہی لیں گے۔ فی الحال تو یہ بیل منڈھے چڑھنے دیں اور یوں یہ متنازعہ، کمزور اور مشکوک قرارداد پاس بھی ہو گئی اور فوری طور پر صدر مملکت، وزیر اعظم، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر اداروں کو اس کی کاپیاں بھی بھجوا دی گئیں کہ وہ دو ماہ کے اندر اندر اس قرارداد پر اگلی اور مناسب کارروائی کر کے واپسی اطلاع دیں۔ یعنی ایک آئینی اور قانونی موشگافی کی ابتدا مکمل آئینی و دستوری اور پارلیمانی طریقہ سے کر کے اس طرح پھینک دی گئی ہے جس طرح کہ کوئی جلتی پر تیل پھینک دیتا ہے۔
امن و امان اور موسم کی جواز کو سامنے رکھ کر یہ کہنا کہ الیکشن ملتوی کیے جائیں یہ مناسب نہیں ہے خاص طور پر اس صورت میں جبکہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر اس تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دیا ہو۔ یہ امر بھی ریکارڈ پر ہے کہ بعض ممالک میں تو جنگ کے دوران بھی الیکشن ہوتے رہے ہیں مگر چونکہ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر وقت جمہوریت کے خلاف سازش ہوتی رہتی ہے اور سینیٹ سے منظور ہونے والی یہ قرارداد بھی بغیر ایجنڈے پر لائی اور منظور کروائی گئی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قرارداد انتخابات اور جمہوریت کے خلاف سازش ہے اور چیئرمین سینیٹ نے اس سازش میں مرکزی کردار ادا کر کے سینیٹ کو سازش کا گڑھ بنا دیا ہے۔ اب تمام سیاسی جماعتوں کو خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے کے لئے سینیٹ میں نئی قرارداد لا کر اسے رد کروانا چاہئے۔ دوسری طرف انتخابات کے التوا کی قرارداد کی حمایت کرنے والے سابق قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر ہدایت اللہ کہتے ہیں کہ وہ انتخابات کے خلاف نہیں لیکن چاہتے ہیں کہ الیکشن میں کسی کا خون نہ بہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں سے گزشتہ دو دہائیوں میں 55 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ہیں اور وہ اب مزید لاشے نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جماعتیں جنہیں مرضی کے انتخابی مواقع دستیاب ہیں وہ چاہتی ہیں کہ ہر صورت الیکشن ہوں چاہے اس عمل میں شورش زدہ علاقوں میں کتنا ہی خون نہ بہ جائے لیکن ان کا یا کسی دیگر درپردہ قوت کا اس نوعیت کا استدلال تو ہو سکتا ہے لیکن انتخابات کے التوا کی سینیٹ سے منظور کردہ یہ قرارداد ان حلقوں کی جانب سے ایک سازش ہے جو ملک میں انتخابات اور جمہوری عمل کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ بھی یاد رہے کہ عام طور پر جمعہ کو سینیٹ کا اجلاس نہیں ہوتا لیکن محض ایک درجن سینیٹرز کی موجودگی میں یہ قرارداد لانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں شفاف الیکشن کا فوری انعقاد ازحد ضروری ہے۔ جب سے سپریم کورٹ نے یہ کہا ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات ہر صورت میں ہوں گے تب سے تمام سیاسی جماعتیں گو کہ بے دلی سے ہی سہی مگر مرحلہ وار انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں۔ جہاں تک اس قرارداد پر عملدرآمد کا تعلق ہے تو اکثر پارلیمانی ماہرین کے مطابق اس قرارداد پر عملدرآمد لازم نہیں ہے اور وہ بھی ان حالات میں جبکہ اس قرارداد کے طریقہ کار کے حوالے سے سوالات پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس سے انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قرارداد پر عمل درآمد اس وجہ سے بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ انتخابات کے التوا کی یہ قرارداد آئین، قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی اس قرارداد کو انتخابات ہر بے اثر قرار دے دیا ہے۔ ویسے بھی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ماضی میں بھی اس قسم کے غیر جمہوری اقدامات کی حمایت کرتے رہے ہیں جن سے سینیٹ کی توقیر میں کمی واقع ہوئی ہے اور مذکورہ قرارداد لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صادق سنجرانی کی چیئرمین شپ کی مدت مارچ 2024ء میں مکمل ہو رہی ہے اور ان کے دوبارہ منتخب ہونے کی امید بھی نہیں ہے۔ لہٰذا یہ ان لوگوں کی سازش ہے جنہیں الیکشن کی صورت میں اپنا مستقبل غیر محفوظ لگتا ہے یا پھر وہ طاقتیں جو سیاستدانوں کے پاور میں آنے سے خوفزدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قرارداد روکنے کے بجائے سنجرانی نے اس کی سہولت کاری کی۔ اب اگرچہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس قرارداد کی مذمت کر رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایوان کے اندر دونوں جماعتوں کے ارکان نے بھی اس قرارداد کا راستہ روکنے کی بجائے اس کی سہولت کاری کی۔ کیونکہ جب یہ قرارداد منظور کی گئی تو ایوان میں محض 14ارکان موجود تھے اور اگر ان میں سے کسی ایک کی جانب سے بھی کورم کی نشاندہی کر دی جاتی تو یہ قرارداد منظور نہیں ہو سکتی تھی۔ مسلم لیگ ن کے جو سینیٹرز اب اس قرارداد کی مخالفت کرنے پر داد لے رہے ہیں ان سے اگر پوچھا جائے کہ انہوں نے کورم کی نشاندہی کیوں نہیں کی تو ان کے پاس آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کوئی جواب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام گفتنی جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں نے اس قرارداد کی منظوری میں دہرا عمل اختیار کیا ہے، ان کے مذکورہ ارکان بے اثر قسم کی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں اور قرارداد منظور ہونے کی راہ بھی ہموار کی جاتی رہی ہے۔ صادق سنجرانی کو اس قرارداد کا متوقع فائدہ یہ ہے کہ اگر اب قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہیں ہوتے تو اس کے نتیجے میں مارچ میں سینیٹ کا ایوان بھی اپنا وجود کھو دے گا اور نئے عبوری چیئرمین کے لئے ان کا انتخاب متوقع ہو سکتا ہے۔ بہرحال فی الحال تو یہ حملہ ناکام نظر آتا ہے لیکن پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے۔ گیم ڈالنے والوں نے یہ گیم ایسے تو نہیں ڈالی ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button